اسیر فلسطینی اراکین پارلیمنٹ اسرائیلی عقوبت خانوں میں انتہائی کربناک صورت حال سے دوچار ہیں-عباس ملیشیا کی جانب سے فلسطینی شہریوں کے خلاف کارروائیاں تکلیف دہ ہیں-فلسطینی جماعتوں کے اختلاف کا خاتمہ ہونا چاہیے-ان اختلافات کی قیمت فلسطینی عوام چکا رہے ہیں-ان خیالات کا اظہار مقبوضہ بیت المقدس سے منتخب ہونے والے مجلس قانون ساز کے رکن ڈاکٹر ابراہیم ابو سالم نے مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی انٹرویو میں کیا-ان کے انٹرویو کا اردو ترجمہ زائرین کیلئے پیش خدمت ہے-
مقبوضہ بیت المقدس اور مسجد اقصی صہیونی حملوں کی زد میں ہیں-انہیں ایک طے شدہ پروگرام کے تحت یہودی بنایا جا رہا ہے آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
سب سے پہلے میں یہ واضح کر دوں کہ شہر مصیبت زدہ اور غم زدہ ہے-آپ دیکھیے کہ کس طرح چاروں طرف سے اس کے خلاف بڑے پیمانے پر جنگ جاری ہے-جب ہم بیت المقدس کے بارے بات کرنا چاہیں تو ہم اس کی حصار بندی کی بات کریں گے،اس کی باسیوں کی بات کریں گے جو طے شدہ صہیونی پالیسیوں کا شکار ہیں،ایک پروگرام کے مطابق ان کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے ،ان کی جائیدادوں کو غصب کیا جا رہا ہے-اور ان پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے- اگر ہم بیت المقدس کی بات کریں تو ہم اس عالمی شہر کی بات کریں گے جس سے کروڑوں لوگوں کے دل مربوط ہیں- بیت المقدس مسلسل کرب و اذیت میں ہے-میرا تعلق بیت المقدس سے ہے اور مجھے بیت المقدس کی عوام نے متخب کیا ہے لیکن مجھے بیت المقدس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں میں کئی سالوں سے اپنے شہر میں جانے اور مسجد اقصی میں نماز ادا کرنے سے محروم ہوں -بیت المقدس کے لوگوں کو نئے گھروں کی تعمیر کی اجازت دینا تو ایک طرف ان کے تعمیر شدہ گھروں کو گرایا جا رہا ہے-
قابض اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کے عمل میں
اضافہ کر دیا ہے سینکڑوں نئی بستیوں کی تعمیر کا منصوبہ ہے – اسرائیلی رویہ کس طرف اشارہ کر رہا ہے؟
اسرائیلی حکومت کی جانب سے یہودی آبادکاری کو حقیقت بنانے کی کوشش کرنا متعدد امور کی طرف اشارہ ہے-اسرائیل کے نزدیک دوسرے کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے-اس کے سامنے انکار کی گنجائش نہیں ہے-اگر کوئی اس کے سامنے انکار بھی کرتا ہے تو اس انکار پر عمل نہیں ہو سکتا-عالم عرب و اسلام اور فلسطینی اتھارٹی گہر ی نیند سوئے ہوئے ہیں-انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے-عالم عرب و اسلام کی لاپرواہی اسرائیل کو شہ دے رہی ہے-
اسرائیلی حکومت کی جانب سے یہود ی آبادکاری مسلسل جاری و ساری ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے کو ہدف بنائے ہوئے ہیں- وہ اپنی کارروائیوں کے ذریعے بیت المقدس کو اسرائیل کا دائمی دارالحکومت قرار دے رہے ہیں- وہ اس مفہوم کو پختہ کر رہے ہیں کہ بیت المقدس اسرائیل کا دائمی دارالخلافہ ہے-ہم کسی صورت میں اسرائیل کو اس کی سازشوں میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور ہم بیت المقدس سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہوں گے-
رہائی کے بعد اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی سیاسی اسیران بالخصوص اراکین پارلیمنٹ کا کیا پیغام لائے ہیں؟
سب سے پہلے ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی تمام فلسطینی اسیران کو رہائی نصیب کرے-ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ فلسطین اسیر اراکین پارلیمنٹ پر اسرائیلی جیلوں میں ظلم و ستم کیا جارہا ہے-وہ انتہائی کرب ناک صورت حال میں ہیں-انہیں کسی جرم کے بغیر گرفتار کیا گیا-ان کا جرم صرف یہی ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے نمائندے ہیں-اس شخص کے احساسات کیا ہوں گے جسے بغیر کسی جرم کے سالوں تک قید کر کے رکھاجائے- میں پوچھتا ہوں کہ بین الاقوامی قوانین کہاں ہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں کیا کر رہی ہیں؟
دوسری جانب اسیر فلسطینی اراکین پارلیمان میں یہ احساس شدت اختیار کر چکا ہے کہ عالم عرب و اسلام ان سے بے نیاز ہو چکے ہیں-انہوں نے ان کو اسرائیلی درندوں کے رحم و کرنے پر چھوڑ دیا ہے-فلسطینی اسیران کو امید تھی کہ عالم عرب و اسلام ان کو انصاف دلا نے کیلئے متحرک ہوں گے-وہ ان کا مقدمہ پوری دنیا کے سامنے پیش کریں گے اور ان کا دفاع کریں گے-وہ اسرائیل کو بے نقاب کریں گے لیکن افسوس صد افسوس عالم عرب و اسلام نے ان کو شرمندہ کیا-
اسیر فلسطینی اراکین پارلیمان فلسطینی جماعتوں کے اختلافات کا خاتمہ چاہتے ہیں-وہ چاہتے ہیں کہ تمام فلسطینی متحد ہو جائیں- اسیر فلسطینی اراکین پارلیمان دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ان کی اور تمام فلسطینی اسیران کو رہائی نصیب کرے جن کی تعداد گیارہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے-ان اسیران میں بوڑھے،بچے،خواتین اور بیمار شامل ہیں-وہ امید کرتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمتی جماعتوں اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ جلد طے پا جائے-
امریکی جنرل کیتھ ڈائٹون کے حکم پر عباس ملیشیا مغربی کنارے میں حماس کے کارکنان کو اغوا کر رہی ہے- ان پر تشدد کیا جارہا ہے-آپ کا ردعمل کیا ہے؟
ہم اس صورت حال کو انتہائی کرب ناک محسوس کرتے ہیں-افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اختیار میں کچھ نہیں ہے-ہم اراکین پارلیمنٹ ہیں لیکن کچھ نہیں کر سکتے-ہمارے پاس کوئی اختیارت نہیں ہے-مغربی کنارے میں عجیب و غریب صورتحا ل ہے-عباس ملیشیا اپنی ہی عوام کیلئے جان وبال بنی ہوئی ہے-جس سیکورٹی فورسز نے فلسطینی عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنا ہے وہ امریکی و اسرائیلی حکم پر انہیں پابند سلاسل کر رہی ہے-ان پر تشدد کر رہی ہے-جب بھی ہمیں کسی فلسطینی شہری کی گرفتاری کے واقعہ کا علم ہوتا ہے توانتہائی تکلیف ہوتی ہے مگر زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ان پر ظلم و تشدد کیا جا رہاہے -حال ہی میں عباس ملیشیا کی حراست میں کمال ابو طعیمہ کی شہادت کی خبر سنی تو بہت دکھ ہوا- ان کے قتل کی وجہ تشدد تھا-ہم اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں- مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان واقعات کی روک تھام کرے- ان واقعات کو روکا جانا بہت ضروری ہے- مغربی کنارے میں لوگ خوف و ہراس کا شکار ہیں-
فلسطینی مذاکرات کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے- مذاکرات میں رکاوٹ کا ذمہ دار کون ہے؟
سب سے پہلے تو ہماری خواہش یہ ہے کہ فلسطینی مذاکرات کامیاب ہوں- فلسطینی اختلافات کا خاتمہ ہو- کیونکہ اختلافات کی قیمت فلسطینی عوام ادا کر رہے ہیں- اختلافات کے نتیجے میں فلسطینی عوام کے خلاف ناکہ بندی روز بروز شدید ہو رہی ہے- اب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مریض لا علاج موت کے منہ میں جارہے ہیں- ناکہ بندی انسانیت کے خلاف جرم ہے- اسے جلد از جلد ختم ہونا چاہئے ہیں- ہم دنیا کے عقلمندوں سے کہتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف ناکہ بندی جلد از جلد ختم کرائیں-
میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ کچھ خاص لوگ ہیں جو فلسطینیوں میں اختلافات چاہتے ہیں، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ فلسطینی مصالحت نہیں چاہتے ہیں کیونکہ وہ اختلافات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں- وہ بیرونی فیصلوں سے مربوط ہیں یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بیرونی طاقتیں فلسطینی عوام کے لئے اس صورتحال کو جاری رکھنے کی خواہش مند ہیں- داخلی لحاظ سے فلسطینی درخت میں گھن لگ گئی ہے-یہ گھن فلسطینی درخت کو کھا جائے گا- یہ گھن وہ لوگ ہیں جو فلسطینی مصالحت نہیں چاہتے ہیں اور نہ ہی وہ مذاکرات کی کامیابی چاہتے ہیں- کیونکہ وہ ان اختلافات سے ذاتی مفاات حاصل کر رہے ہیں-
غزہ شدید ناکہ بندی کا شکار ہے- آپ اہلیان غزہ کو کیا پیغام دیں گے؟
اہلیان غزہ ظالمانہ ناکہ بندی کا سامنا کر رہے ہیں لیکن وہ ظلم و طاغوت کے سامنے ثابت قدم ہیں- ان شاء اللہ یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا- ہم اہل غزہ کو پیغام دیں گے کہ آپ عظیم ہیں- ہمیں آپ پر فخر ہے- ہمیں آپ سے توقع ہے کہ آپ اس مشکل راستے پر چلتے رہیں گے- بالآخر شب کا خاتمہ ہوگا اور صبح طلوع ہو کر رہے گی- صبر کیجئے اے اہلیان غزہ…….. صبر کیجئے اے ہمارے رفقاء……. صبر کیجئے اے ہمارے معززین…..