پنج شنبه 01/می/2025

عمر کی پچیس بہاریں اسرائیلی زندانوں کی نظر کرنے والے اسیر کی روداد قفس

پیر 17-اگست-2009

اسرائیلی جیل حکام سیاسی اسیران کی ہتک کرنے میں کوئی کسر باقی  نہیں رکھتے – اسرائیلی خفیہ ادارے مریض اسیران کو یورپ میں علاج کرانے کی لالچ دے کر ایجنٹ بننے کے لئے بلیک میل کرتے ہیں- فلسطینی اسیران سے سودے بازی ممکن نہیں- 25 سال کی قید میں مجھے بیس سے زائد جیلوں میں منتقل کیا گیا-
 
اسیران کو باہر کی دنیا سے کاٹا ہوا ہے- فلسطینی اسیران کا مسئلہ انسانی ہے – بین الاقوامی برادری کی لاپرواہی حیران کن ہے- ان خیالات کا اظہار 25 سال کے بعد اسرائیلی قید سے رہائی پانے والے فلسطینی اسیر محمد منصور نے مرکز اطلاعات فلسطین کو انٹرویو میں کیا- ان کے انٹرویو کے متن کا اردو ترجمہ زائرین کے پیش خدمت ہے- 
 
سب سے پہلے تو اسرائیلی عقوبت خانوں سے رہائی پانے پر مرکز اطلاعات فلسطین کی جانب سے آپ کو مبارک ہو

جواب: بہت شکریہ، بارک اللہ فیکم
 
اسرائیلی قید خانوں میں فلسطینی اسیران کے حالات کیسے ہیں؟

 اسرائیلی قید خانوں میں اسیر فلسطینی جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ ناقابل بیان ہیں- اسرائیلی حکومت اور جیل انتظامیہ قیدیوں کے گزر بسر کے سامان اور صحت کا خیال نہیں رکھتی- وہ قیدیوں کی ہتک کرنے اور انہیں ذلیل کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاست نہیں کرتی- قیدیوں کا کھانا انتہائی غیرمعیاری ہوتا ہے حتی کہ وہ  جانوروں کے کھانے کے قابل نہیں ہوتا- یہی وجہ ہے کہ اسیران جیل کی کنٹین پر کھانا خریدنے سے مجبور ہوتے ہیں جبکہ کنٹین پر کھانوں کے دام دوگنے چوگنے وصول کیے جاتے ہیں-

اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی اسیران کا جو اہم ترین مسئلہ ہے وہ علاج معالجے کی سہولت کا نہ ہونا ہے- جیل انتظامیہ مریضوں کے علاج میں جان بوجھ کر لاپرواہی برتتی ہے- وہ انہیں علاج معالجے کی سہولت کے حق سے محروم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے-

اسرائیلی عقوبت خانوں میں ایسے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو دائمی امراض کا شکار ہیں اور جنہیں آپریشن کی شدید ضرورت ہے لیکن جیل انتظامیہ انہیں آپریشن سے محروم رکھے ہوئے ہے- بیسیوں مطالبات کے بعد اگر کسی مریض کا آپریشن کیا جاتا ہے توجیل انتظامیہ آپریشن کیلئے ٹریننگ حاصل کرنے والے ڈاکٹروں کو لاتی ہے جو فلسطینی اسیران کے جسموں پر ٹریننگ کرتے ہیں-

اسرائیلی قید خانوں میں موجود ایک اور اہم مسئلے کی طرف میں اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو ــ’’اسرائیلی اہلکاروں کا مریضوں کو بلیک میل کرنا ہے‘‘اسرائیلی خفیہ ادارے مریض کا علاج کرانے کیلئے انہیں لالچ دے کر اپنا ایجنٹ بنانے کی کوشش کرتے ہیں- مثلاً میں ایک ایسے مریض کو جانتا ہوں کہ جو گردے میں پتھری کے مرض کا شکار ہے اور وہ بہت مدت سے اسرائیلی حکام سے مطالبہ کرتا آ رہا ہے کہ اس کا آپریشن کرایا جائے اور اسے اس عذاب سے نجات دلائی جائے-

اسرائیلی خفیہ ادارے کے اہلکار ہمیشہ اس سے کہتے ہیں کہ ہم آپ کا علاج یورپ میں کرانے کیلئے تیار ہیں لیکن ہماری ایک شرط ہے کہ تم ہمارے لیے کام کرو- وہ اسیر ہمیشہ اس پیشکش کو ٹھکرا دیتا ہے- میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ فلسطینی اسیران سے سودے بازی نا ممکن ہے-
 
کون سی اہم پالیسیاں اور خلاف ورزیاں ہیں جو اسرائیلی جیل انتظامیہ اسیران کے خلاف اپنائے ہوئے ہے؟

اسرائیلی جیل انتظامیہ فلسطینی اسیران کو کچلنے اور ان کے خلاف اشتعال انگیزی کا ہر طریقہ اپناتی ہے اور سب سے بدترین طریقہ اسیران کو برہنہ کر کے تلاشی لینا ہے- اسرائیلی اہلکار منشیات کی تلاشی کے بہانے اسیران کو برہنہ کر دیتے ہیں اور ان کی تلاشی لیتی ہے- ان کارروائیوں کا مقصد اسیران کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا اور انہیں اپنی نظروں میں ذلیل کرنا ہے- اسرائیلی حکام ان کارروائیوں کے ذریعہ اسیران پر نفسیاتی دباو ڈالنا چاہتے ہیں اور ان کے حوصلے پست کرنا چاہتے ہیں-

 فلسطینی اسیران کے حالات پر عالمی خاموشی حیران کن ہے-انسانی حقوق اور بین الاقوامی برادری کو مداخلت کرتے ہوئے فلسطینی اسیران کو بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے-
 
اسرائیلی جیلوں میں قید اسیران کی طرف سے فلسطینی عوام کیلئے آپ کیا پیغام لائے ہیں؟

اسیران کے خیال میں ان کا مسئلہ انتہائی حساس ہے – یہ ایک انسانی مسئلہ ہے- اسیران کا اہم ترین پیغام یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری بالخصوص امت مسلمہ کو ان کی زندگیاں بچانے کیلئے فوری طور پر اقدامات کرنے چاہیں-عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ ہر طریقے سے اسیران کی رہائی کیلئے قابض اسرائیلی حکام پر دباو ڈالے

اسرائیلی عقوبت خانوں میں فلسطینی اسیران کے حالات بہت خراب ہیں- متعدد ایسے اسیران ہیں جو بیس سال سے زائد اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں- ہماری خواہش ہے کہ فلسطینی مزاحمتی جماعتوں اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ طے پا جائے-
 
25 سال کی قید کے دوران آپ کون کون سی جیل میں رہے ہیں اور آپ نے قید کی زندگی کو کیسے پایا؟

 اسرائیلی حکام نے مجھے بیس سے زائد جیلوں میں وقتاً فوقتاً منقل کیا-عوفر اور جلبوع کے علاوہ کوئی ایسی اسرائیلی جیل نہیں ہے جہاں مجھے نہ رکھا گیا ہو-قید کی زندگی انتہائی سخت زندہ ہے-اسیران ان ادنی  سے حق سے بھی محروم ہیں جو عالمی معاہدوں کے مطابق انہیں حاصل ہیں-
 
اسیران کیلئے کون سی بات زیادہ تکلیف دہ ہے اور ان کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے؟

فلسطینی اختلافات اسیران کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں-اسیران اس بات کے انتظار میں ہیں کہ یہ اختلافات ختم ہو جائیں-
 
کیا آپ جیلوں میں ایک دوسرے سے رابطے کرتے ہیں-اگر جواب ہاں میں ہے تو یہ رابطے کس طرح ہوتے ہیں؟

جیل حکام نے اسیران کو جیل سے باہر کی دنیا سے بالکل کاٹا ہوا ہے- اسیران آپس میں ایک دوسرے سے بھی نہیں مل سکتے-عزیزواقارب سے ملاقات کے وقت اچانک ملاقات ہو جاتی ہے-
 
فلسطینی خواتین اسیرات اور مریض اسیران کے اسرائیلی جیلوں میں کیا حالات ہیں؟

ہم براہ راست اسیرات کے حالات سے بے خبر ہیں لیکن کبھی کبھی ان کے بارے میں خبریں ملتی رہتی ہیں-اسرائیلی جیلوں میں اسیرات کی تعداد 60 کے قریب ہے جو انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہیں اور وہ ادنی  سے ادنی حقوق سے بھی محروم ہیں، سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بعض اسیرات کے ہاں جیلوں میں بچوں کی پیدائش ہوئی- ابھی بھی ایک اسیرہ فاطمہ زق اپنے نومولود بچے کے ساتھ جیل میں ہے- اس کا تعلق غزہ سے ہے-
 
کیا آپ یہ بات محسوس کرتے ہیں کہ اسیران کے معاملے میں کوتاہی سے کام لیا جا رہا ہے؟

 ہمارے خیال میں اسیران کے مسئلے پر لاپرواہی سے کام لیا جا رہا ہے- بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے
کہ کہ علاقائی اور بین الاقوامی اجلاسوں میں فلسطینی اسیران کے موضوع کو زیر بحث نہیں لایا جاتا- مسئلہ اسیران کے متعلق بکھری بکھری کوششیں تو ہو رہی ہیں لیکن اسے مرکزی حیثیت دیا جانا بہت ضروری ہے-

تمام اسیران کا مطالبہ ہے کہ انکے معاملے کے متعلق خصوصی دلچسپی لی جائے- ہمارا تمام فلسطینی جماعتوں سے مطالبہ ہے کہ وہ اس مرکزی مسئلہ کے متعلق فعال کردار ادا کریں- یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا تعلق ہر فلسطینی خاندان سے ہے- کوئی ایسا فلسطینی نہیں جس کے خاندان کا کوئی ایک فرد اسیر نہ ہو-

مختصر لنک:

کاپی