پنج شنبه 01/می/2025

مغربی کنارے میں داخلے پر پابندی

جمعرات 20-اگست-2009

غزہ میں پہلے ہی پابندیوں کی بھرمار ہے مگر اسرائیلی حکومت نے غیرملکی پاسپورٹ کے حامل افراد کی اسرائیل و مغربی کنارے کے درمیان آمدورفت پر پابندی عائد کرکے ہزاروں فلسطینیوں اور حقوق انسانی کیلئے کام کرنے والے کارکنوں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے-

صیہونی حکومت کے نئے فرمان کے مطابق غیرملکیوں بالخصوص شمالی امریکہ اور یورپ کے رہائشیوں کو اسرائیل بشمول مشرقی مقبوضہ بیت المقدس (جسے اسرائیل نے بزور طاقت ہتھیا لیا ہے) اور مغربی کنارے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے- یہ نیا قانون معاہدہ اوسلو کی اس شق کی صریحاً خلاف ورزی ہے جس میں اسرائیل نے مغربی ممالک سے وعدہ کیا تھا کہ ان شہریوں کو تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں تک رسائی دی جائے گی- اسرائیل نے اس نئے قانون کے وضع کرنے میں کوئی ایسی توجیہہ بھی پیش نہیں کی کہ ان علاقوں میں سکیورٹی کے مسائل ہیں-

فلسطینی کارکنان کا کہنا ہے کہ اس نئے قانون کا مقصد ایک طرف فلسطینی نژاد غیرملکی شہریوں کو مشرقی مقبوضہ بیت المقدس اور اسرائیل آمد سے روکنا ہے تو دوسری جانب یورپی اور امریکی یہودیوں کو مغربی کنارے میں آباد ہونے کی کھلی چھٹی دینا ہے- امریکی سفارتکار اس صورتحال سے باخبر ہونے کے باوجود خاموش ہیں اور انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا-

علاوہ ازیں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس نئے قانون کے باعث فلسطینی ریاست کا مجوزہ دارالحکومت مشرقی مقبوضہ بیت المقدس مغربی کنارے سے مزید دور ہوجائے گا- اس سے نہ صرف ان فلسطینی خاندانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا جن کا کوئی نہ کوئی فرد غیرملکی شہریت کا حامل ہے بلکہ حقوق انسانی کیلئے کام کرنے والے کارکنوں کو بھی مشکلات درپیش ہوں گی-
 
مبصرین کے مطابق یہ قانون تین ماہ قبل نہایت خاموشی کے ساتھ اردن کی سرحد ایلن بائی پل پر متعارف کرایا گیا جو فلسطینی شہریوں کے مغربی کنارے میں داخلے کیلئے واحد عالمی گزرگاہ ہے- اس راہداری پر متعین اسرائیلی اہلکار ویزہ دیتے وقت مہر لگا دیتے ہیں ’’صرف فلسطینی اتھارٹی کیلئے‘‘ یعنی اس ویزے کے حامل اشخاص مشرقی مقبوضہ بیت المقدس اور اسرائیل نہیں جاسکتے-
 
وزارت داخلہ کے عہدیداروں کے مطابق تل ابیب کے قریب بن گوریان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر بھی اس قانون پر عملدرآمد ہو رہا ہے اور غیرملکی بالخصوص فلسطینی نژاد غیرملکی شہریوں کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا جاتا ہے کہ وہ مغربی کنارے جانے کیلئے ایلن پل کا راستہ اختیار کریں- غزہ میں پہلے ہی ایسے فلسطینی شہریوں کے داخلے پر 2006ء سے پابندی ہے جو وہاں کے مقامی باشندے نہیں- رام اللہ میں مقیم ایک فلسطینی نژاد امریکی سام یہور کا کہنا ہے کہ اسرائیلی چیک پوسٹیں بنا کر اور مغربی کنارے کے گرد دیوار کھڑی کرکے فلسطینی باشندوں کو علیحدہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے-
 
انہوں نے کہا کہ امریکا سمیت غیرملکی حکومتیں جو اب تک خاموش ہیں انہیں اس معاملے پر آواز اٹھانا چاہیے کیونکہ اس سے ان کے اپنے شہریوں کی حق تلفی ہورہی ہے- مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی قونصلیٹ اپنی ویب سائٹ کے مطابق اس نئے قانون سے باخبرتو ہے مگر اس کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں بے اختیار ہے- دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنہیں اسرائیل نے داخل ہونے کی اجازت نہ دیتے ہوئے واپس بھیج دیا ان میں سے 60 فیصد امریکی شہری تھے- امریکی قونصلیٹ یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ نہ صرف بن گوریان ایئرپورٹ سے فلسطینی نژاد امریکیوں کو ایلن پل کا رخ کرنے کا کہہ کر واپس بھیج دیا جاتا ہے بلکہ وہاں پر بھی ’’صرف فلسطینی اتھارٹی کیلئے‘‘ کا ٹھپہ لگایا جاتا ہے- قونصلیٹ اپنے شہریوں کو آگاہ کرتا ہے کہ وہ اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتے‘ لہذا مسافر خود یہ فیصلہ کریں کہ انہیں کون سا ویزا لینا ہے-
 
اسرائیل اور مشرقی مقبوضہ بیت المقدس کا یا مغربی کنارے کا؟ باہور کا کہنا ہے کہ اس نئے قانون سے سب سے زیادہ بیرون ملک مقیم وہ فلسطینی متاثر ہوں گے جو معاہدہ اوسلو کی رو سے مغربی کنارے  جایا کرتے تھے-یہی وہ پڑھے لکھے غیرملکی فلسطینی تھے جو اس بے جال معاشرے میں کاروبار کرکے مقامی معیشت کو سہارا دیتے اور لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے خیراتی ادارے چلایا کرتے تھے اور یہی لوگ تعلیمی اداروں میں پڑھاتے بھی تھے- اگرچہ ان میں کچھ نے یہاں شادیاں کرلیں‘ ان کے بچے بھی ہوگئے لیکن اسرائیل انہیں شہریت دینے سے انکاری ہے اور انہیں ہر تین ماہ بعد دوبارہ وزٹ ویزا حاصل کرنا پڑتا ہے-
 
باہور نے کہا کہ یہ نیا قانون فلسطینیوں کی عمومی زندگی کی مشکلات بڑھانے کی ایک اور مذموم کوشش ہے- چیک پوسٹوں پر ہراساں کرنے کے علاوہ اسرائیل فلسطینی نژاد غیرملکیوں اور انسانی بنیادوں پر کام کرنے والے ورکرز کو مستقل بنیادوں پر ڈی پورٹ کرتا رہتا ہے‘ شادی شدہ فلسطینی جوڑوں کو ایک ساتھ رہنے کی اجازت نہیں‘ بیرون ملک اعلی تعلیم کیلئے جانے والوں کی زمینیں ہتھیا لی جاتی ہیں اور فلسطینیوں کو مغربی کنارے دھکیلنے کیلئے ان سے مقبوضہ بیت المقدس کے شناختی کارڈ چھین لئے جاتے ہیں اور اس پر امریکی قونصلیٹ کی خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے اپنے شہریوں سے ہونے والے اس ناروا سلوک کو تسلیم کرلیا ہے-

ایک طرف امریکی شہریوں کو اسرائیل اور مشرقی مقبوضہ بیت المقدس میں داخلے سے روکا جا رہا ہے تو دوسری جانب اسرائیل امریکی یہودیوں کو مغربی کنارے میں آباد ہونے کی ترغیب دے رہا ہے- 2006ء میں باہور کو اس وقت بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب اسرائیل نے سیاحتی ویزے میں توسیع سے انکار کرکے یہاں شادیاں کرنے والے کئی خاندانوں کو الگ کردیا- بعدازاں عالمی برادری کے دباو پر اسرائیل اس قانون کو تبدیل کرنے پر رضامند ہوا- پہلے کی طرح یہ قانون بھی نسلی امتیاز پر ہے اور اسرائیل فلسطینیوں کی زندگیاں مشکل سے مشکل تر کرنے کا خواہاں ہے-

باہور نے کہا کہ ان نئی پابندیوں کے نیتجے میں مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے میں دوریاں مزید بڑھ جائیں گی- انہوں نے کہا کہ ان کی فرم راتوں رات ہی اپنے ایک تہائی صارفین سے محروم ہوچکی ہے کیونکہ انہیں مغربی کنارا چھوڑ کر مشرقی مقبوضہ بیت المقدس جانے کی اجازت نہیں- انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ماہ اسرائیلی حکام نے مجھے فلسطینی شناختی کارڈ دے کر باقی ماندہ استحقاق سے بھی محروم کردیا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ کہیں امریکی پاسپورٹ مجھے ڈیپورٹ کرنے میں رکاوٹ نہ بنتے- انہوں نے بتایا کہ یہ شناختی کارڈ میٹھے زہر کے مترادف ہے کیونکہ ایک طرف اس کارڈ کی رو سے انہیں مغربی کنارے میں اپنے خاندان کے ساتھ رہنے کی اجازت ہے تو دوسری جانب اس کا یہ مطلب ہے کہ اب ان کے امریکی پاسپورٹ کی کوئی اہمیت نہیں اور انہیں تمام فلسطینیوں کی طرح کسی بھی وقت گرفتار کیا جاسکتا ہے-
 
اسرائیلی تنظیم ’’گیشا‘‘ کے ساتھ کام کرنے والی وکیل ساری باشی جنہوں نے ان پابندیوں کو چیلنج بھی کررکھا ہے- ان کے مطابق اس نئے قانون کے ذریعے مغربی کنارے میں کام کرنے والے غیرملکی فلاحی ورکرز کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کردی گئی ہے- بہت سے خیراتی و فلاحی اداروں کے مشرقی مقبوضہ بیت المقدس اور اسرائیل میں بھی دفاتر ہیں اور ان نئے قوانین کی موجودگی میں ان کیلئے کام کرنا دشوار ہوجائے گا- انہوں نے بتایا کہ ’’اونروا‘‘ اقوام متحدہ کے عالمی ادارے برائے پناہ گزین افراد سمیت دیگر کئی ایسے اداروں کے کارکنان گوریان ایئرپورٹ سے صرف اس لئے ڈی پورٹ کردیا گیا کہ وہ مغربی کنارے میں بھی کام کرتے ہیں جب اسرائیل کی طرف سے کوئی پابندی عائد کی جاتی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے وہاں کہ داخلے کی اجازت نہیں؟

حقوق انسانی کی تمام تنظیمیں اس نئے قانون سے پریشان ہیں لیکن گھر گرائے جانے کے خلاف اسرائیلی کمیٹی کے رکن جیف ہالپر کہتے ہیں کہ اسرائیل کا ٹریک ریکارڈ سامنے رکھتے ہوئے کچھ بعید نہیں کہ اس قانون میں ترمیم کرلی جائے-

مختصر لنک:

کاپی