ایک اور 20 سالہ نوجوان عرفات ہمدونہ بھی 2008ء میں کینسر کی تشخیص کے بعد اسی ہسپتال میں داخل ہے اور مناسب علاج نہ ہونے کے باعث اس کے ٹیومر پھیلتے جا رہے ہیں‘ چہرہ بگڑ گیا ہے اور آنکھیں اندر دھنس گئی ہیں- اپریل میں عرفات کو علاج کی غرض سے مشرقی مقبوضہ بیت المقدس کے گسٹا وکٹوریہ ہسپتال میں علاج کی غرض سے جانے کی اجازت ملی جہاں تین مرتبہ کیمیو تھراپی اور ریڈیو تھراپی کے کورس ہوئے-
مزید علاج کی غرض سے اسے دوبارہ اس ہسپتال جانا ہے مگر مشرقی مقبوضہ بیت المقدس جانے کی اجازت نہیں ملی- ان کے والد فراج ہمدونہ نہایت کرب سے بتاتے ہیں کہ اسے علاج کیلئے صرف درد کش گولیاں دی جاتی ہیں کیونکہ الشفاء ہسپتال کے پاس اور کوئی ادویات موجود نہیں-
جولائی 2009ء میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ گنائزیشن کے مطابق غزہ کی پٹی میں رہنے والے 15 لاکھ فلسطینیوں کا علاج کرنے کیلئے غزہ کے ڈاکٹروں اور نرسوں کے پاس ادویات ہیں نہ چیک کرنے کے آلات- طبی آلات ٹوٹ چکے ہیں‘ پرانے ہیں یا پھر ان کے سپیئرپارٹ دستیاب نہیں-
رپورٹ کے مطابق غزہ میں طبی سہولیات کی ناگفتہ بہ صورتحال کا سبب حماس کے برسراقتدار آنے کے بعد اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی ناکہ بندی ہے- غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد فلسطینیوں کی امداد کیلئے جو 500 ٹن طبی آلات موصول ہوئے وہ اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث گوداموں میں پڑے پڑے ہی ضائع ہوچکے ہیں-
وزارت صحت کے مطابق 20 فیصد ادویات اسرائیلی اجازت ملنے کے انتظار میں ناکارہ ہوچکی ہیں‘ امداد دینے والے پوچھتے ہیں کہ آخر محاصرے میں گھرے ان مجبور فلسطینیوں تک امداد پہنچانے کا کیا طریقہ ہے- ڈبلیو ایچ او کے مطابق جو سازوسامان غزہ جانے دیا گیا ان میں سے بیشتر پرانے اور ٹوٹے ہوئے آلات تھے- عالمی ادارے کے مطابق ان طبی آلات کی مرمت بھی ممکن نہیں کیونکہ ان کی نگہداشت اور مرمت پر مامور 2000 سے زائد کارکنوں کو تربیت حاصل کرنے کیلئے غزہ سے باہر جانے کی اجازت نہیں- اسرائیلی وزارت دفاع کے مطابق زندہ رہنے کیلئے درکار بنیادی ضروریات کے علاوہ کوئی چیز غزہ لے جانے کی اجازت نہیں یہاں تک کہ ادویات بھی اندر نہیں جاسکتیں- غزہ کے عالمی رابطے کا دوسرا ذریعہ مصر کی راہداری ہے جو اکثر بند ہی رہتی ہے- غزہ میں طبی سہویات دستیاب نہ ہونے کے خطرناک نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں-
غزہ کے نائب وزیر صحت حسن حلیفہ کے مطابق طبی سہولیات نہ ملنے کے باعث مرنے والے مریضوں میں اکثریت کینسر کے مرض میں لاحق افراد کی ہوتی ہے- کینسر کے مریضوں کی ریڈیو تھراپی اس لئے نہیں ہوسکتی کہ مشینیں موجود نہیں اور کیمیو تھراپی اس لئے ممکن نہیں کہ ادویات دستیاب نہیں- ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق جولائی کے مہینے میں غزہ میں جان بچانے والی 480 ادویات میں سے 77 جبکہ دیگر 700 ضروری ادویات میں سے 140 موجود نہیں تھیں- الشفاء ہسپتال کی نرس عبداللہ قراج اللہ کہتی ہیں کہ ہمارے پاس مریضوں کا علاج کرنے کیلئے ابتدائی سامان بھی نہیں ہے-
ایک مریض اسماعیل احمد کو انتقال خون کی ضرورت ہے مگر بلڈبیگ موجود نہیں جس کی وجہ سے بلڈ پلاسٹک کی بوتل میں ڈالا جاتا ہے- کینسر کے مرض میں مبتلا یہ شخص ایک ماہ سے کمپیوئڈ ٹوموگرافی کا منتظر ہے کیونکہ ہسپتال میں مشینیں موجود نہیں- اس مریض کی ایم آر آئی نہیں ہوسکی کیونکہ غزہ میں ایم آر آئی کیلئے ایک بھی سیکنر نہیں- صورتحال اس حد تک گھمبیر ہے کہ بلڈ ٹیسٹ کرنے کی سہولت موجود نہیں اور مریض انتقال خون کیلئے بلڈ ٹیسٹ کرائے بغیر اپنے اہل خانہ کا خون لگوانے پر مجبور ہیں-
ناقص طبی سہولیات کے باعث غزہ شہر میں بجلی کی غیریقینی صورتحال بھی ہے- بجلی کم یا زیادہ آنے سے کئی مشینیں جیسا کہ ڈائیلسز کا یونٹ جل جاتے ہیں- ڈبلیو ایچ او کے مطابق ان ہسپتالوں میں بجلی کی بندش پر یو پی ایس کا متبادل نظام تو موجود ہے مگر چاروں طرف ناکہ بندی کے باعث یو پی ایس کی بیٹریاں نہیں ملتیں- غزہ کے کمیونی کیشن فیسر مصطفی ابوحسنین کے مطابق ریڈکراس شہر میں علاج معالجے کی 30 فیصد سہولیات فراہم کر رہی ہے اور ڈبلیو ایچ او کے یہاں تعینات افسر ٹونی لارنس کے مطابق 70 فیصد علاج معالجے کی سہولیات رام اللہ کی وزارت صحت سے مستعار لی جاتی ہیں جس کی ادائیگی فلسطینی اتھارٹی اپنے بجٹ سے کرتی ہے-
اقوام متحدہ کے اس افسر کے مطابق اس خریدی گئی سہولیات پر بھی بندش ہے کہ رام اللہ سے کوئی بھی ڈیلیوری غزہ پہنچنے سے قبل اسرائیلی وزارت دفاع سے اجازت لینا ضروری ہے- یہ سپلائی اس لئے بھی ناقابل اعتبار ہے کہ الفتح اور حماس کے تعلقات میں اونچ نیچ تی رہتی ہے اور اس کے نتیجے میں طبی سہولیات کی فراہمی بھی متاثر ہوتی ہے-