اس ملاقات کی دو بنیادی وجوہات تھیں- پہلی یہ کہ مشرق وسطی کیلئے اوبامہ کے خصوصی ایلچی جارج مچل انتہا پسند اسرائیلی حکمرانوں کو مغربی کنارے اور مشرقی مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی تعمیرات کا سلسلہ روکنے پر آمادہ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے- جارج مچل نے امن مذاکرات پر پیشرفت کیلئے امریکی حکام سے کئی مرتبہ ملاقاتیں کیں لیکن انہوں نے اسرائیل کے سب سے بڑی اتحادی ملک کے صدارتی نمائندے کی بات سننے کے بجائے ہر مرتبہ اس کی مقبوضہ بیت المقدس آمد کے موقع پر کسی نئے تعمیراتی منصوبے کا اعلان کر دیا-
اس کے علاوہ جارج مچل سے نام نہاد ناجائز تعمیرات گرائے جانے سمیت آبادکاری کے منصوبوں پر عملدرآمد روکنے کے تمام وعدے پورے نہ ہو سکے- لہذا یہ بات مکمل وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ ملاقات اس بات کا اعتراف ہے کہ جارج مچل کی شٹل ڈپلومیسی ناکام ہوگئی-
اس سہ فریقی ملاقات کا ایک اور اہم پس منظر ایک ہفتہ قبل شائع ہونے والی گولڈ سٹون کمیشن کی وہ رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دسمبر جنوری میں غزہ پر جارحیت کے دوران اسرائیل نے دانستہ طور پر اور جان بوجھ کر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا- یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ نازی حکومت کے قتل عام کی مانند‘ اسرائیلی فوج اور یہودی شرپسندوں نے ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کا خون کیا- اس کے علاوہ ہزاروں عمارتیں تباہ کردی گئیں‘ گھروں‘ مساجد‘ سکولز اور دیگر اہم جگہوں پر بمباری کرکے سویلین انفراسٹرکچر تباہ کردیا گیا- یہ عرب پراپیگنڈا نہیں بلکہ کوئی بھی شخص غزہ جاکر یہ المناک مناظر دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح فلسطینیوں کا ہولوکاسٹ کیا گیا-
وہ لوگ جو اس محصور ساحلی علاقے تک پہنچنے سے قاصر ہیں وہ بھی گوگل ارتھ پر جاکر یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں- اصل بات یہ ہے کہ اس سلسلہ میں اسرائیلی پراپیگنڈا مشین پر انحصار نہ کیا جائے کیونکہ یہ لوگ جھوٹ اس شرعت کے ساتھ بولتے ہیں جس قدر تیزی سے سانس لیا جاتا ہے- لہذا امریکی صدر باراک اوباما جنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ان کے دور حکومت میں انسانیت کی توقیر میں اضافہ ہوگا- ان کے لئے یہ بات شرمناک ہے کہ آج وہ ایک ایسے مجرمانہ روش کے حامل ملک کے سربراہ کا استقبال کر رہے ہیں جس کی بنیا دقتل‘ جھوٹ اور دھوکہ دہی پر استوار ہے-
لہذا اس موقع پر بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ اوباما انتظامیہ کو اسرائیل کے نسلی منافرت‘ ظلم اور توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف بامعنی موقف اختیار کرنے میں ابھی اور کتنا وقت لگے گا؟ یہی وجہ ہے کہ کوئی عقل و فہم رکھنے والا شخص یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ لوگ جن کا عقیدہ ہی یہی ہے کہ ساری کائنات یہودیوں کیلئے بنائی گئی ہے ان سے سمجھوتے اور مفاہمت کی پالیسی کیا رنگ لائے گی؟ میری یہ پیش گوئی کہ نیویارک کی ملاقات ناکام ہوئی محض قیاس پر مبنی نہیں بلکہ اس کی وجہ اسرائیل کے متواتر سیاسی طرزعمل کا باریک بینی سے مشاہدہ ہے-
سادہ سی بات یہ ہے کہ اسرائیل 1967ء کی جنگ میں ہتھیائی گئی سرزمین اس وقت تک نہیں چھوڑے گا جب تک طاقت کے بل بوتے پر اسے مجبور نہ کر دیا جائے- اسرائیل مقبوضہ مشرقی مقبوضہ بیت المقدس کا بیشتر علاقہ اس وقت تک خالی نہیں کرے گا جب تک اسے مجبور نہ کردیا جائے-
اسرائیل فلسطینی مہاجرین کو اس وقت تک اپنے گھروں میں واپس آنے کی اجازت نہیں دے گا جب تک اسے مجبور نہ کر دیا جائے اور یہ کہ اسرائیل یہودی تعمیرات نامی ان ناجائز بچوں کو اس وقت تک ختم نہیں کرے گی جب تک اسے طاقت کے زور پر ایسا کرنے پر مجبور نہ کردیا جائے- لہذا محولہ بالابات کی روشنی میں یہ بات واقعی ناقابل فہم ہے کہ امریکا جو مغربی کنارے یا مشرقی مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی تعمیرات کے سلسلہ میں کسی ایک عمارت کی تعمیر نہیں رکوا سکا وہ اسرائیل کو یہودی آبادکاری کے تمام منصوبے ختم کرنے پر آمادہ کرسکے گا-
یہی وجہ ہے کہ امریکا‘ اسرائیل‘ فلسطین مذاکرات کی تعریف و توصیت کرتے وقت حقیقت پسندانہ اور محتاط طرزعمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے- خاص طور پر یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ سازش‘ دھوکہ دہی‘ اسرائیلی تسلط اور فلسطینیوں کے جبری انخلاء کے اس گھناونے کھیل میں امریکا ہی غالب اور مرکزی کردار ہے-
امریکی صدر بارک اوبامہ بھی اسرائیلی مطالبات کے مطابق یہی کہیں گے کہ فلسطینیوں کو حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے اسرائیل کورعایت دینا ہوگی لیکن یہ دلیل نہایت بودی اور غیرحقیقت پسندانہ ہے کیونکہ اسرائیل پنیر کے اس ٹکڑے کو سالہا سال سے چبائے جارہا ہے اور اب تو باقی کچھ بھی نہیں بچا- لہذا دنیا کے وہ افراد جو ایمانداری اور انصاف کے اصولوں پر یقین رکھتے ہیں ان سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ کیا پنیر کو وہ چھوٹا سا ٹکڑا جو باقی رہ گیا ہے اسے بھی فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان تقسیم کرنا قرین انصاف ہو گا؟
1948ء میں صیہونی یہودیوں نے ہمارے ملک پر دھاوا بول دیا‘ گھناونے جرائم کا ارتکاب کیا‘ ہمارے گھر تباہ و برباد کر دیئے‘ بہت سے فلسطینیوں کو گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا- یہ درحقیقت ہمارا ہولوکاسٹ تھا جو بدقسمتی سے آج 60 سال بعد بھی جاری ہے-
کیا یہ سچ نہیں کہ گولڈ امیئر نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کا کوئی وجود نہیں؟ کیا صیہونیت کے پرچار یہ نہیں کہتے رہے کہ فلسطینی قومی ریاست کا کوئی وجود نہیں اور محصور فلسطینیوں کو جینے کا حق حاصل نہیں جہاں تک محمود عباس کا تعلق ہے تو یہ بہت بہت واضح ہے کہ یہ شخص فلسطینیوں کی قیادت کرنے اور ان کی توقعات پر پورا اترنے کے لئے موزوں نہیں نہ تو وہ ایسا شخص ہے کہ فلسطینی کاز کو صراصت کے ساتھ بیان کرسکے اور نہ ہی ایسا بے خوف لیڈر کہ دباو میں اپنی اصولی موقف سے پیچھے نہ ہٹے-