چهارشنبه 30/آوریل/2025

قومی مصالحت میں حماس کا قابل تحسین کردار

اتوار 4-اکتوبر-2009

قاہرہ سے موصول ہونیوالی یہ اطلاعات فلسطینی عوام کیلئے بہت بڑی خوشخبری ہے کہ دوسالہ بدترین کشمکش کے بعد مقبوضہ فلسطین کی دونوں بڑی جماعتیں حماس اور فتح قومی اتفاق رائے کے ایک معاہدے پر دستخط کرنیوالی ہیں- یہ بتانےکی تو قطعاً ضرورت نہیں کہ ان دونوں جماعتوں کے مابین تناو سے نہ صرف فلسطینی عوام کو بیحد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ہماری سرزمین پر قابض اسرائیل نے بھی ان داخلی اختلافات‘ احمقانہ حرکات اور عدم اتفاق کی صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھایا-
 
میری دانست میں یہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور الزام تراشی کرنے کا وقت تو نہیں تاہم ریکارڈ کی درستگی کیلئے سچائی کو سامنے لانا بھی ضروری ہے- مجھے نہیں لگتا کہ فلسطینی قومی اتفاق رائے کی حقیقی توقعات کے عین مطابق فتح حماس سے مصالحت کیلئے تیار ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ فتح اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد مصالحت پر تیار ہوئی ہے کہ حماس کو ختم کرنے کی کوشش تو لاحاصل ہے کیونکہ حماس تو اپنی جگہ قائم و دائم رہے گی- چنانچہ یہ بات نہایت وثوق کیساتھ کہی جا سکتی ہے کہ فتح کے متحارب رویئے میں تبدیلی کا باعث اسرائیل‘ اہل مغرب‘ بعض عرب حکومتوں اور خود فتح کے دباو کے سامنے استقامت سے کھڑے رہنا اور اس موقع پر قابل ستائش لچک کا مظاہرہ کرنا ہے-

فتح یا یوں کہہ لیں کہ اس کے کیمپ میں موجود دغاباز عناصر کا خیال تھا کہ غزہ کی پٹی کے محاصرے اور معاشی جکڑبندیوں سے تنگ آ کر حماس اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی- اس کے علاوہ جب اسرائیل نے غزہ پر جارحیت کی تو فتح کا خیال تھا کہ حماس کو شکست دینے اور رسوأ کرنے کیلئے فتح جس دن کے انتظار میں تھی وہ آ پہنچا ہے- دسمبر اور جنوری میں اسرائیل کے وحشیانہ قتل عام کے دوران ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے اور ساحلی علاقے میں سویلین ڈھانچے کو تباہ کر کے رکھ دیا گیا- ہم سب جانتے ہیں کہ جب اسرائیلی جنگی جہاز غزہ پر بمباری کر رہے تھے تو فتح کے کچھ عناصر (سب نہیں) خوشی سے بھنگڑے ڈال رہے تھے-
 
تلخ حقیقت یہی ہے کہ مغربی کنارے میں فتح کے کچھ گماشتوں نے غزہ میں ہونیوالے قتل و غارت پر مٹھائیاں تقسیم کر کے جشن طرب بھی برپا کیا- بلاشبہ بے تحاشہ دباو کے باوجود حماس ختم نہ ہوسکی اور اسرائیل اپنی سیاسی و فوجی مجبوریوں کے باعث فلسطینی اتھارٹی کے مشوروں کے عین مطابق جنگ جاری نہ رکھ سکا- یہ حقیقت منکشف ہونے کے بعد فتح کی سب تدبیریں الٹ گئیں اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ حماس کیساتھ مصالحت سے راہ فرار ممکن نہیں-

علاوہ ازیں فتح کو توقع تھی کہ مغربی کنارے میں حماس کے حامیوں کو باقاعدہ منصوبے کے تحت ہراساں کرنے‘ ان پر تشدد کے نت نئے حربے استعمال کرنے اور یہاں تک کہ انہیں ٹارچر سیلوں میں تشدد کر کے ہلاک کرنے کے نتیجے میں اسرائیل عباس‘ فیاض حکومت کو اچھی کارکردگی کی سند دیدے گا اور فتح کی سیاسی قیادت کو کچھ رعایت دینے پر تیار ہو جائیگا لیکن یہ توقع اس لئے پوری نہ ہوسکی کہ اسرائیلیوں نے دائیں بازو کی ایک ایسی انتہاپسند حکومت کو منتخب کرلیا جس کے خیال میں فلسطینی اتھارٹی کا کام اسرائیلی ایماء پر فلسطینی عوام کو اپنا باجگزار بنانا ہے-
 
اس بات کا احساس فتح قیادت کو اس وقت ہوا جب نتین یاہو کی حکومت نے فلسطینی اتھارٹی اور فتح کی قیادت سے نہایت ہتک آمیز رویہ اپنانا شروع کردیا اور جب امریکی صدر اوبامہ نے اسرائیل کو مغربی کنارے اور بالخصوص مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی تعمیرات کا سلسلہ روکنے پر مجبور کرنے سے معذرت کرلی تو یہ بات اونٹ کی کمر پر پخری تنکا ثابت ہوئی- فتح کو اس وقت مایوسی ہوئی اور اس بات کا احساس بھی کہ ان کیساتھ دھوکہ ہوا ہے جب اوباما نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو غیرمشروط طور پر اسرائیل سے مذاکرات بحال کرنے کا حکم دیا-
 
یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ غیرمشروط طور پر مذاکرات کی بحالی کا یہ مطلب ہے کہ اسرائیل کو مغربی کنارے اور دیگر علاقوں میں یہودی تعمیرات کا سلسلہ جاری رکھنے کی اجازت ہے اور فلسطینیوں کو اس معاملے کو ایک طرف رکھ کر مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا- اب فتح دہرے المیئے سے دوچار ہے- وہ ایک نہایت مغرور اور جھوٹے شخص بنیامین نتین یاہو کی انتہاپسند حکومت سے غیرمشروط مذاکرات کا آغاز بھی نہیں کرسکتی کیونکہ اس کے نتیجے میں فتح کی عوامی حمایت و مقبولیت کو بڑا دھچکا لگے گا-
 
لہذا فتح اس وقت تک مذاکراتی عمل بحال کرنے کی پوزیشن میں نہیں جب تک کہ اسرائیل مغربی کنارے میں یہودی تعمیرات کا سلسلہ روک نہ دے- دوسری طرف اسے سخت امریکی دباو اور اسرائیل کے تضحیک آمیز رویے کا سامنا ہے جس سے اس کی ساکھ اور مقبولیت بھی متاثر ہورہی ہے- یقیناً اگر کسی آبرومندانہ اور موزوں معاہدے پر اتفاق ہو جانے کی توقع ہوتی تو فتح یہودی تعمیرات کا سلسلہ روکے بغیر بھی مذاکرات پر آمادہ ہوجاتی لیکن نتین یاہو اور اس کے دیگر انتہاپسند رہنمائوں سے ہرگز یہ امید نہیں کہ وہ 1967ء کی پوزیشن پر واپس جانے یا فلسطینی مہاجرین کے معاملے پر کسی لچک کا مظاہرہ کریں گے- ادھر فتح امریکا کو بھی دوٹوک جواب نہیں دے سکتی-
 
فتح کی اپنی مقبولیت اور اس کا تاثر کچھ اتنا اچھا نہیں کہ وہ اپنے طور پر یہ کام کرسکے لہذا فتح اس صورتحال سے باہر آنے کیلئے اپنے رویئے میں تبدیلی لانے پر مجبور ہوئی ہے تاکہ اسرائیل کے ساتھ کم سے کم خسارے کی بنیاد پر مذاکراتی عمل بحال کیا جاسکے لیکن اس بات کے آثار بھی نظر نہیں آتے کیونکہ نتین یاہو مغربی کنارے سے انخلاء یا یہودی تعمیرات کو ختم کرنے کیلئے تیار نہیں- چنانچہ حماس کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کی صورت میں فتح اسرائیل کیخلاف اپنی پوزیشن بہتر کرسکے گی- چاہے کچھ بھی ہو لیکن حماس کو پہلے کی طرح مضبوط و مستحکم رہنا چاہیے کیونکہ حماس کا وجود فلسطینی عوام کیلئے غنیمت ہے اور اسرائیلی قابض حکومت سے آزادی کے حصول کیلئے ناگزیر بھی-

مختصر لنک:

کاپی