غزہ پر 22 روزہ اسرائیلی جارحیت جسے کچھ تاریخ دانوں اور دانشوروں نے دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر اتحادی فوجوں کی جانب سے جرمنی کے شہر ڈرلیسڈن پر کی جانے والی بمباری سے مماثل قرار دیا- اس جنگ کے دوران 330 معصوم بچوں سمیت 1400 فلسطینی شہید ہوئے اور مارے جانے والوں میں اکثریت غیرمسلح عام شہریوں کی تھی-
اسرائیل پہلے ہی غزہ پر حملے کی تحقیقات کا ڈھونگ رچا چکا ہے اور ان برائے نام تحقیقات کے بعد کہا گیا کہ اسرائیلی فوج نے کچھ غلط نہیں کیا تاہم اسرائیل خود کرائے تو یہ قابل اعتبار نہیں ہوسکتیں- قصہ مختصر یہ کہ مجرموں اور بالخصوص جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ اپنے آپ کو خود ہی قصور وار قرار دیں- لہذا یہ طے شدہ بات ہے کہ اسرائیل نے اپنی فوج کے جرائم سے متعلق اگر کوئی تحقیقات کروائیں تو یہ پہلے کی طرح نام نہاد اور ناقابل اعتبار ہوں گی-
غزہ میں ہونے والے جنگی جرائم کی اسرائیلی فوج سے تحقیقات کرانا تو ایسے ہے جیسے ہٹلر کے مظالم پر رپورٹ تیار کرنے کی ذمہ داری گسٹاپو کو سونپ دی جائے- یہ قیاس اس تناظر میں بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کی تمام تر سیاسی و عسکری قیادت نازیوں کے ایسے عصبیت پسندوں اور ان جنگی مجرموں پر مشتمل ہے جو نسل کشی اور قتل عام کی وکالت کرتے ہیں-
حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی اسرائیلی یہودی سیاست یا فوج میں اس وقت تک کسی کلیدی عہدے تک نہیں پہنچ سکتا جب تک اس کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے نہ رنگے ہوں‘ وہ جس قدر خون بہاتے جاتے ہیں اسی قدر اسرائیلی معاشرے میں اونچا مرتبہ اور بلند مقام پائے جاتے ہیں اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کی یہودی عوام کس طرح جنگی مجرموں کو پذیرائی بخشتی ہے- مثال کے طور پر یہ چھٹے ہوئے جنگی مجرم ایریل شیرون کو دو مرتبہ اسرائیل کا وزیراعظم منتخب کیا گیا-
مسلمانون کی نسل کشی پر مبنی کئی خونی مہمات کے ہیرو ایریل شیرون کو 1982ء میں صابرہ اور شتیلہ میں قتل عام پر ’’شاہ اسرائیل‘‘ کے لقب سے نوازا گیا- غزہ کی پٹی پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کے نگران صیہونی وزیر دفاع ایہود باراک اپنی انتخابی مہم کے دوران ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے اعداد و شمار بنا کر بتاتے رہے کہ کس طرح انہوں نے بیروت میں تین فلسطینی رہنمائوں کو قتل کیا- مختصر یہ کہ ہمارا واسطہ جنگی مجرموں اور قاتلوں کی اس نسل سے ہے جو نازی رہنمائوں اور فوجی کمانڈروں سے مختلف نہیں- جس طرح نازیوں نے یورپ میں بلاحدود و قیور اور روک ٹوک کارروائیاں کیں اسی طرح صیہونی لبنان اور فلسطین میں اندھا دھند قتل عام کررہے ہیں اور قطع نظر اس کے یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ صیہونیت کے جنگی جرائم کی ایک طویل فہرست موجود ہے اور خود اسرائیل کا قیام ہی انسانیت کے خلاف بہت بڑا جرم ہے-
ان صیہونیوں کی تاریخ تو یہ ہے کہ 1950ء میں کفر قسیم میں ہونے والے قتل عام کی تحقیقات کے دوران اس واقعہ کا ذمہ دار مرنے والوں کو قرار دیا گیا کہ انہوں نے کرفیو کی خلاف ورزی کیوں کی- مظلوموں کو مورد الزام ٹھہرانے کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے اور چند روز قبل ایک اسرائیلی عدالت نے یہودی ملزم کو باعزت بری قرار دیتے ہوئے ان فلسطینی کسانوں کو قصور وار قرار دیا جنہیں یہودی آبادکاروں نے زدوکوب کیا‘ مارا پیٹا اور مال چھین لیا حالانکہ ان یہودیوں کے بے یارومددگار فلسطینیوں پر ستم ڈھانے کی ویڈیو موجود تھی مگر اس کے باوجود انہیں چھوڑ دیا گیا-
شاید یہودی جج نے سوچا ہوگا کہ ان فلسطینیوں کے پاس ایسے کیمرے ہیں جو یہودی قابضین کی حملہ کرتے ہوئے جھوٹی ویڈیو بنا لیتے ہیں- اس میں دورائے نہیں کہ گولڈ سٹون رپورٹ سے اسرائیل بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور اس بات کا واضح اظہار اسرائیلی رہنمائوں اور ترجمانوں کے لب و لہجے سے ہوتا ہے- رواں ہفتے بھی اسرائیلی وزیراعظم نے دو ایسے بیانات دیئے جس سے ان کی بوکھلاہٹ کا اندازہ ہوتا ہے- ان کا پہلا فرمان تو یہ تھا کہ دنیا مسلم ممالک کے تیل پر انحصار کرنا اور تیل خریدنا چھوڑ دے کیونکہ اس تیل پر انحصار کے باعث دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے-
میرے خیال میں اگر اسرائیلی وزیراعظم اتنی بڑی حقیقت کو جھٹلا رہا ہو تو یہ جاننے کیلئے کسی ماہر نفسیات کی ضرورت نہیں کہ وہ ذہنی مریض ہے- دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ نیتن یاہو نے بین الوزارتی کمیٹی سے کہا ہے کہ وہ عالمی برادری پر جنگی جرائم کے قوانین تبدیل کرنے کیلئے دبائو ڈالے تاکہ اسرائیلی فوج آزادی سے مسلمانوں کا خون بہا سکے- ایک اسرائیلی لکھاری نے دلیل تراشی ہے کہ اگر امریکی‘ روسی اور چینی سزا پائے بغیر جنگی جرائم کا ارتکاب کرسکتے ہیں تو اسرائیل یہ کام کیوں نہیں کرسکتا- باالفاظ دیگر اسرائیلی رہنما دنیا بھر کے لوگوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے نازیوں جیسے مظالم کو جائز اور قانونی قرار دے دیا جائے-
بھلا بتائیے تو اس بات کا اور کیا مطلب نکلتا ہے کہ اسرائیل کے مجرمانہ طرزعمل کو جائز قرار دینے کیلئے جنگی جرائم کے قوانین میں ترمیم کردی جائے؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ وقت نے پر کوئی اسرائیلی عہدیدار‘ وزیر‘ صیہونی جرنیل یا خود اسرائیلی وزیراعظم یہ جواز پیش کرتے نظر آئیں گے کہ چونکہ نازی جرمنی میں یہودیوں کا ہولوکاسٹ ہوا لہذا وہ فلسطینیوں کا ہولوکاسٹ کرنے میں حق بجانب ہیں !
گولڈ سٹون رپورٹ پر اسرائیلی بوکھلاہٹ کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ صیہونی حکومت حماس کی ’’دہشت گردی‘‘ اور جنگی جرائم‘‘ کے خلاف قانونی چارہ جوئی پر غور کررہی ہے- اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی رہنمائوں کے گھٹیا پن کی کوئی حد نہیں- لامحالہ دیگر فلسطینی تنظیموں کی طرح حماس بھی معصوم عن الخطاء نہیں لیکن حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کی نازیوں جیسے اسرائیلی مظالم کے خلاف جائز مزاحمت کو کوئی عشروں پر محیط ظالمانہ اسرائیلی تسلط کے ردعمل کے تناظر میں دیکھنا چاہیے کیونکہ سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی سرزمین ہتھیالی‘ ان کے گھر گرا دیئے گئے‘ کھیت کھلیان تباہ ہوگئے‘ بیشتر فلسطینیوں کو ان کے ملک سے جلاوطن کردیا گیا اور بہت سوں کو قتل کردیا گیا-
مجھے اس بات کا ادراک ہیے کہ اسرائیل کے وحشیانہ مظالم کے باوجود متاثرہ فلسطینیوں کی جانب سے بعض پرتشدد واقعات کا کوئی جواز نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی‘ ظالمانہ تسلط اور ناانصافی کے نتیجے میں ہمیشہ تشدد ہی جنم لیا کرتا ہے‘ لہذا غیرملکی قابضین اور حملہ آوروں کے خلاف اپنی ن بان شان اور ملک کی حفاظت کرنے والوں کی جانب سے اپنے دفاع میں کئے گئے پرتشدد اقدامات کا موازنہ جارح اور ظالم حملہ ور سے نہیں کیا جانا چاہیے- مثال کے طور پر خود کو عصمت دری سے بچانے کی کوشش کرتی خاتون مزاحمت میں کوئی انتہائی اقدام بھی اٹھا لے تو اس کا موازنہ عزت لوٹنے والے کے جرم سے نہیں کرنا چاہیے-
اگر غیرملکی تسلط کو عصمت دری گردانا جائے اور یقینا صورتحال ہے بھی یہی تو پھر اپنی عزت بچانے کیلئے ہاتھ پائوں مارنے والوں کے پرتشدد اقدامات کا موازنہ بھی حملہ آور کی جارحیت سے کرنا نہیں بنتا کیونکہ یہ بات اخلاقیات کے منافی ہے کیونکہ اگر ایسا ہو تو پھر اپنی عزت بچانے کیلئے مزاحمت کرنے والا ہر شخص مجرم قرار پائے- اس میں کوئی شک نہیں کہ مرنے والے خواہ کسی رنگ و نسل سے کیوں نہ ہوں ان کی موت پر افسوس کیا جانا چاہیے لیکن اسرائیل کو اس بات کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے کہ آزادی اور انصاف کے حصول کیلئے فلسطینیوں کو قومی جدوجہد کے بجائے پرتشدد مزاحمت کا راستہ منتخب کرنے پر مجبور کرنے والا وہ خود ہے-