بیروت شہر کے مرکزی حصہ سے جنوبی مضافات میں قائم شاتیلا کیمپ پہنچنے میں مشکل سے بیس منٹ لگتے ہیں۔ لیکن ایک بار آپ پناہ گزین کیمپ میں اندر داخل ہو جائیں تو بیروت اور اس جگہ کے درمیان زمین آسمان کا فرق جلد واضع ہوجاتا ہے۔
اکتوبر کی ایک دوپہر جمعہ کے دن جب میں وہاں پہنچا تو نماز کا وقت ہو رہا تھا۔ کیمپ کی مرکزی مسجد جامع شاتیلا ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس کے باہر تنگ گلیوں میں ہی نمازی قطاریں بنائے جمع ہو رہے تھے۔وہاں کچھ نوجوانوں سے گپ شپ ہوئی تو انہوں نے راضی خوشی مجھے اپنا محلہ دکھانے کی حامی بھرلی۔
شاتیلا کیمپ بنیادی طور پر کچی پکی تین تین چار چار منزلہ عمارتوں پر مبنی چوٹھی سے بستی ہے جس میں پندرہ ہزار کے لگ بھگ لوگ رہتے ہیں۔ یہاں بیروزگاری بہت زیادہ ہے۔گلیاں ٹوٹی پھوٹی اور تاریک سی لگتی ہیں۔ اِن گلیوں سے چلتے ہوئے سر اٹھا کر اوپر نظر دوڑائیں تو آپ کو ہر جگہ بجلی کے ٹوٹے ہوئے کھمبے اور الجھے ہوئے تار نظر آتے ہیں۔
طارق عثمان یونیورسٹی گریجوئیٹ ہیں لیکن ڈھنگ کی کوئی ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے اُن کا زیادہ وقت ایک گیراج میں بطور کار مکینک کام کرتے گذرتا ہے۔ ’ہمارے یہاں بجلی کا بڑا بحران ہے۔ روزانہ صرف چھہ گھنٹے کے لیے بجلی آتی ہے۔ پینے کے صاف پانی کی سخت قلت ہے۔ نکاسی آب کا نظام تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔‘
وہیں میری ملاقات امر صالح نامی ایک اور فلسطینی نوجوان سے ہوئی۔ گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ اس کے والد ستائیس برس پہلے اسرائیل کے ہاتھوں شاتیلا میں ہونے والے قتلِ عام میں مارے گئے۔ امر صالح کے مطابق اُن کے والد اُس قتلِ عام کے دوران زخمیوں کی مدد کر رہے تھے جب وہ خود بھی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ مارے جانے والے لوگ جن اجتماعی قبروں میں دفن ہیں وہ جگہ شہداء کا قبرستان کہلاتی ہے۔ وہاں جن شہداء کے ناموں کی فہرست اور تصاویر لگی ہوئی ہیں اُن میں امر صالح کے والد توفیق صالح بھی شامل ہیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب لبنان میں خانہ جنگی اپنے عروج پر تھی اور اسرائیل موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لبنان میں داخل ہوکر دارالحکومت بیروت کے اہم علاقوں پر قبضہ کر چکا تھا۔اسرائیل فوج نے تب کے وزیرِ دفاع ایریئل شرون کے حکم پر صبرا اور شاتیلا کے فلسطینی کیمپوں کو گھیرے میں لے لیا اور کئی روز تک لبنان کے فلسطینی مخالف کرسچن فلینجسٹ ملیشیا کے مسلح دستوں کو کھلی چھوٹ دی کہ وہ اندر جاکر جس طرح چاہیں اپنے مخالفین سے نمٹیں۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ اس آپریشن کا مقصد مبینہ شدت پسندوں کا صفایا کرنا تھا۔ لیکن فلسطینی اور دنیا کی اکثریت آج بھی اُسے فلسطینی علاقوں سے باہر اسرائیل کی سب سے بدترین کارروائی قرار دیتے ہیں۔
شاتیلا کی گلیوں میں جگہ جگہ مجھے بچوں کے ٹولے پھرتے نظر آئے۔ ایک جگہ سے گذرتے اندر تاریک سے کمرے میں جھانک کر دیکھا تو دس سال سے بھی کم عمر کچھ بچے سنوکر کھیلنے میں مصروف تھے۔ ہنستے مسکراتے بچوں کے چہروں سے شرارت چھلک رہی تھی لیکن آنکھیں پُرعزم۔
شاتیلا کیمپ میں بے وطن فلسطنیوں کی یہ تیسری نسل ہے جو اس امید کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے کہ ایک دن انہیں اپنے بڑوں کی سرزمین پر واپسی کا حق ضرور ملے گا اور فلسطینی لوگ پناہ گزینوں کی طرح ٹھوکریں کھانے کی بجائے اپنا ایک آزاد ملک حاصل کرنے میں آخرکار ضرور کامیاب ہوں گے۔