بہت سے صہیونی یہودی اس بات پر سیخ پا اور مایوس ہیں کہ دنیا بھر میں گولڈ سٹون رپورٹ کو اس قدر پذیرائی اور اہمیت کیوں دی جا رہی ہے- یہی وجہ ہے کہ ان دنوں غزہ کی پٹی میں نازیوں جیسے قتل عام کے جرم پر پردہ ڈالنے کیلئے انٹرنیٹ پر متعدد من گھڑت باتیں پھیلائی جا رہی ہیں- اس پراپیگنڈا مہم پر تعینات ایک اسرائیلی اہلکار جس کا کام غزہ میں ہونے والے قتل عام کو چھپانے کیلئے جھوٹ کی ترویج کرنا ہے‘ وہ کہتا ہے کہ اگر اسرائیل سے غیردانستہ طور پر غزہ میں کوئی غلطی ہوگئی تو اس میں برائی کیا ہے- وہ کہتا ہے ’’جنگ کے دوران اسرائیل سے سرزد ہونے والی حادثاتی غلطی اور بنیادپرست اسلام کی جانب سے لگائے گئے گھٹیا الزامات میں بہت فرق ہے‘‘-
موصوف سے پوچھا جائے کہ غلطی کتنی بار ہوتی ہے؟ ایک بار دو بار یا سینکڑوں اور ہزاروں مرتبہ؟ سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل دانستہ طور پر اور جان بوجھ کر یہ ’’غلطی‘‘ عرصہ دراز سے کرتا چلا آ رہا ہے اور جب غلطی بار بار اور متواتر کی جائے تو اسے غلطی نہیں بلکہ واضح اور سوچی سمجھی پالیسی کہا جاتا ہے اور اس سے قطع نظر جب اس ’’غلطی‘‘ کا شکار ہونے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو تو پھر دانستہ یا غیردانستہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا چنانچہ بے بس اور نہتے فلسطینیوں پر ڈھائے گئے نازیوں جیسے مظالم کو غلطی کہنا بلیس زبان اور سفید جھوٹ کے سواء کچھ نہیں- وہ عظیم المرتبت صہیونی جن کے خیال میں یہودی معصوم عن الخطاء ہیں‘ وہ بھی ’’بدیوت ہرنوت‘‘ کے کالم کار ہائرلیپڈ کا حوالہ دے رہے ہیں جس نے اپنے حالیہ مضمون میں کہا تھا کہ عالمی برادری یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اسرائیل کس طرح ایک اپنی بقاء کی جدوجہد کرتی روشن خیالی مغربی جمہوریت پر مبنی ریاست ہے؟ اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے چند سال قبل ایک یہودی دانشور اور برطانوی رکن پارلیمنٹ نے کہا تھا کہ اسرائیل نے ہٹلر کی سوستیکا کی طرح ’’سٹار آف ڈیوڈ لک‘‘ بنا رکھی ہے-
یہ تو غزہ پر اس بربریت سے پہلے دیا گیا بیان تھا مجھے نہیں معلوم کہ اب وہ برائی کی محور اسرائیلی ریاست کا دفاع کس طرح کریں گے- ایک ایسی ریاست جو نازیوں کے جیسا سوچتی اور نازیوں کی طرح کے کام کرتی ہے اسے ’’روشن خیال‘‘ کہنا لفظ روشن خیال کی ہی توہین ہوگی- اسرائیل کو روشن خیال کہنا تو ایسے ہی ہے جیسے ہٹلر کی گسٹاپو کو معصوم قرار دے دیا جائے-
سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل روشن خیال ہے ناں جمہوری کیونکہ ایک حقیقی جمہوری ملک بچوں اور نوجوانوں کو ان کے اعضاء چرا کر امریکا میں یہودیوں کی پیوندکاری کیلئے بیچنے کی خاطر قتل نہیں کرتا ناں ہی کوئی جمہوری ملک عربوں کی آبادی کم کرنے کیلئے حاملہ خواتین کو سڑکیں بلاک کرکے ہسپتال جانے سے روکتا ہے- کیا کسی کو معلوم ہے کہ ہمارے دور کی گسٹاپو کے روکے جانے پر کتنی حاملہ خواتین ہسپتال نہ پہنچنے کے باعث موت کے منہ میں چلی گئیں؟ اسی طرح اسرائیل کو جمہوری کہنا بھی جمہوریت کے لفظ سے بدفعلی کے مترادف ہوگا کیونکہ اسرائیل کی طرح کوئی بھی جمہوری ملک اپنے کچھ شہریوں کو ان کے مذہب کے باعث امتیازی سلوک نہیں کرتا اور نہ اس کا عدالتی نظام اس بنیاد پر انصاف فراہم کرتا ہے کہ درخواست گزار یہودی ہے یا غیرجمہوری- صیہونی پراپیگنڈا مہم کے اہلکار کہتے ہیں ’’آپ یہودی اخلاقیات اور بنیادپرست اسلام کی بداخلاقی میں تفریق کرنے سے قاصر ہیں‘‘-
بتائیے کیا ہے یہودی اخلاقیات؟ کیا نہتے فلسطینی بچوں پر فاسفورس اور اس جیسے دیگر مہلک بم گرانا اخلاقیات ہے؟ کیا یہ اخلاقیات ہے کہ نہتے عام دمیوں کو ایک عمارت میں محبوس کردیا جائے اور پھر اس عمارت پر بلندی سے ناپسندیدہ سیاسی جماعت سے ہمدردی رکھنے والے کسی ایک فرد کے جرم میں اس کے پورے خاندان پر زندگی کی راہیں مسدود کردی جائیں؟ کیا یہ اخلاقیات ہے کہ 15 لاکھ انسانوں کو پانی‘ خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات سے محض اس لئے محروم کردیا جائے کہ انہوں نے اسرائیل کی مخالف جماعت کو ووٹ دیا؟ اگر یہ سب جرائم اخلاقیات اور نیکی کے زمرے میں تے ہیں تو پھر سٹالن‘ ہٹلر اور انسانیت کے ان جیسے دیگر قاتلوں کو نیکی اور اخلاتی کا نمونہ قرار دیا جانا چاہیے- سچ تو یہ ہے کہ یہودی اخلاقیات نازی اخلاقیاتی جیسی ہے-
سو باتوں کی ایک بات کہ یہودی جب نازیوں جیسے کام کرتے ہیں تو وہ سوچتے بھی نازیوں جیسا ہیں پھر یہ مضحکہ خیز دلیل بھی عقل سلیم تسلیم نہیں کرتی کہ چونکہ اسرائیل نے اس معاملے پر تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے دیا ہے‘ لہذا اسرائیل میں قانون کی حکمرانی ہے- چلیں بتائیں اب تک فلسطینیوں کے قتل عام اور لبنان میں جنگی جرائم کی پاداش میں کتنے اسرائیلیوں کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور ان میں سے کتنوں کو سزا ہوئی؟ چند سال قبل اسرائیل نے 2006ء کے دوران جنوبی لبنان میں 1400 سے زیادہ بے گناہ عام افراد کے قتل عام پر نام نہاد وین گارڈ کمیشن تشکیل دیا مگر جیسا کہ پہلے سے معلوم تھا اس کمیشن نے عام افراد کے قتل پر تو توجہ نہ دی البتہ سارا زور اس بات پر لگایا گیا کہ اسرائیل حزب اللہ کو کچلنے میں کیونکر ناکام رہا- اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سمان کی بلندیوں سے سویلین بادی پر پھینکے گئے- 20 سے 30 لاکھ کلسٹر بموں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ لکھا-
اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے گرائے گئے بم 20 سے 30 لاکھ فلسطینی بچوں کو قتل کرنے کیلئے کافی تھے اگر ایسا ہوتا تو صیہونیوں کے مبینہ ہولوکاسٹ میں مارے جانے والے افراد کی نصف تعداد کے برابر اموات ہوتیں اور خری بات یہ کہ کوئی ملک‘ مذہب یا مخصوص معاشرہ محض دعوئوں کی بنیاد پر روشن خیال یا جمہوری نہیں بن جاتا- تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ برے لوگ ہمیشہ یہ دویو کرتے رہے وہ نیکی کے علمبردار ہیں کیونکہ انسانوں کے قتل عام اور نیکی کے جھوٹے دعوئوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے- مگر اس کے برعکس ان کے کرتوت ان کے دعوئوں کی صریحاً نفی کرتے ہیں اور اسرائیل اس کی بدترین مثال ہے- اسرائیلی ریاست کو اخلاقیات سے کوئی سروکار نہیں چاہے وہ یہودی اخلاقیات ہو یا غیریہودی- یہ ایک شیطانی ریاست ہے جسے ختم ہونا چاہیے-