انہوں نے کہا ’’تکلف برطرف‘ ہم دو ریاستوں کے قیام پر مبنی حل تلاش کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں- ہم دھوکہ دہی کے احساس تک پہنچ چکے ہیں اور اس نتیجے تک جاپہنچے ہیں کہ اسرائیل اس سرزمین پر جس پر اس نے 1967ء میں قبضہ کیا تھا‘ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام نہیں چاہتا‘‘- بہت خوب‘ جناب ارکات! 18 سال بعد ہی سہی لیکن آپ خواب غفلت سے بیدارتو ہوئے- شاید یہ خوابیدہ سری کا طویل ترین دورانیہ ہے لیکن کسی نہ کسی سے تو جواب لینا چاہیے کہ یہ 18 سال جھوٹ‘ فریب اور ناکامی پر کیونکر منتج ہوئے- یقینا اس ناکامی کا ذمہ دار اسرائیل ہی ہے لیکن آپ اور آپ کے وہ ساتھی بھی تو شریک جرم ہیں جنہوں نے اس مذاکرات عمل کی لیپا پوتی کی-
یہ تو قومی نوعیت کا معاملہ ہے لیکن اگر کوئی محدود سطح کے کاروبار میں بھی خسارہ ہو تو اس کے ذمہ دار کا تعین ہوتا ہے اور اس سے وضاحت مانگی جاتی ہے- یہ تو لوگوں کے مستقبل سے جڑا قومی ایشو ہے جس میں ناکامی کا مطلب قیادت کی مجرمانہ غفلت ہے اور اسے غداری کہا جاتا ہے-
جناب ارکات‘ کہا آپ اس بنجر و لاحاصل اور قابل نفرت مذاکراتی عمل میں آپ خود شروع دن سے ملوث رہے‘ اس کے نتیجے میں پیش آنے والی مشکلات اور نقصانات کا تخمینہ لگا سکتے ہیں؟ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اگر آپ اور آپ کے ساتھی حالات کا درست ادراک کر لیتے اور غلطی نہ کرتے تو فلسطینی عوام کو کس قدر درد اور آنسوئوں سے بچایا جا سکتا تھا؟ کسی نہ کسی کو کہیں تو چارج شیٹ کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ یہ فریب نظر جسے امن عمل کا نام دیا گیا اس کی آڑ میں ہزاروں انسانوں کی زندگیاں چلی گئیں جب آپ اور آپ کے بگ باس یاسر عرفات اور محمود عباس اس امن عمل کے فریبی اسرائیل سے مذاکرات کا ڈھونگ رچا رہے تھے تو ان 18 سال کا ایک ایک لمحہ اسرائیل نے زیادہ سے زیادہ فلسطینی بچوں کو قتل کرنے‘ زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کے گھر گرانے‘ زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کی زمین ہتھیانے اور زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو یہاں لاکر بسانے کی غرض سے استعمال کیا-
اس امن عمل کی خاطر فلسطینیوں نے ایک دوسرے کا خون بہایا‘ ہمارے انسانی حقوق غضب ہوئے‘ سول آزادیاں چھین لی گئیں اور ایک پولیس سٹیٹ عوام پر مسلط کردی گئی- تمہارا اور تمہارے ساتھیوں کا احمقانہ‘ جاہلانہ اور متکبرانہ خیال تھا کہ اگر تم اسرائیل کی مدد سے اپنے ہی لوگوں کو دبانے میں کامیاب ہوگئے جیسا کہ تم نے یہ کام بھرپور طریقے سے کیا بھی تو وہ تمہارے حقوق پلیٹ میں رکھ کر تمہارے حوالے کردے گا اور مشرقی مقبوضہ بیت المقدس کے دارالحکومت پر مبنی مغربی کنارے کی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی اجازت دے دے گا- حالانکہ اس نے تمہیں ایسے بے وقعت سہولت کار کے طور پر استعمال کیا جن کا استعمال اسرائیلی مفاد کی خاطر فلسطینیوں کو دبا کر رکھنا تھا-
تکلف برطرف‘ دراصل آپ بھی اس تحقیر آمیز سلوک کے مستحق ہیں جو صیہونی ریاست آپ کے ساتھ کررہی ہے- تم اسی سلوک کے حقدار ہو کیونکہ اگر عقل نام کی کوئی چیز ہوتی تو تم اوسلو معاہدے کے ایک یا دو سال بعد اس نتیجے پر پہنچ جاتے کہ ان تلوں میں تیل نہیں- بجائے اس کے تم اس صورتحال کا ادراک بہت کرلیتے‘ تم 18 سال تک دم سادھے خوابیدگی کے عالم میں پڑے رہے اور جب کبھی کسی دیانتدارانہ سوچ کے حامل کی فلسطینی نے تمہیں صحیح بات بتانے کی کوشش کی تو تم نے ان مخلص لوگوں کو ہر ممکن طور پر برا بھلا کہا-
ہم فلسطینی عوام پوچھتے ہیں کہ تمہیں اور تمہارے ساتھیوں عباس‘ یاسر عبید ربو اور الک کو یہ جاننے میں 18 سال کیوں لگ گئے کہ اسرائیل قیام امن کے لئے مخلص نہیں؟ کیا تم مدہوش تھے؟ کیا تم احمق تھے؟ کیا تم اس شرمناک دور حکومت کے بعد یہ خیال کرتے ہو کہ فلسطینی عوام تمہیں مزید 18 سال دے دیں تاکہ تم قومی ایشوز سے کھلواڑ کرتے رہو؟ بس اب تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ اپنی بچی کھچی عزت گنوانے کے بجائے فوری طور پر مستعفی ہو جاو اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ تمہاری غیرذمہ داری کا ایک اور شرمناک مظاہرہ ہوگا- قوم تم سب کے چہرے ذہن نشین کر لے گی کیونکہ ہم لوگ مزید 18 سال بے تدبیری‘ جھوٹ اور ناکامی کے متحمل نہیں ہوسکتے لیکن اس امر کو یقینی بنانے کے لئے یہ سب دوبارہ نہ ہو یہ سب ناکام لوگ گھروں میں بیٹھ کر یادداشتیں لکھیں- جناب ارکات آپ نے حال ہی میں ایک کتاب لکھی ہے ’’زندگی مذاکرات کا نام ہے‘‘ شاید اب آپ کو ایک اور کتاب لکھنی پڑے ’’زندگی عزت کا نام ہے‘‘-