پنج شنبه 01/می/2025

مسئلہ فلسطین کے امور کے ماہر ڈاکٹر عصام عدوان سے گفتگو

پیر 11-جنوری-2010

اسرائیلی رویہ سے فلسطینی اتھارٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا حماس اسرائیل کو تکلیف دینے کے علاوہ اس سے مذاکرات کی صلاحیت بھی رکھتی ہے ۔ فلسطینی اتھارٹی کے پاس مذاکرات کے متبادل کوئی پروگرا م نہیں۔ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے یواین سلامتی کونسل سے رجوع سے مثبت اثر پڑے گا

فلسطینی اتھارٹی اس نتیجے پر پہنچ گئی ہے کہ اسرائیل سے مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ اسرائیل سے مذاکرات کی تعطلی کا اعلان محمود عباس کی ایک تکنیک ہے۔ ان کے پاس متبادل راستے نہیں ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی مزاحمت کاروں کو فری ہینڈ دے کر اسرائیل پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔ مغربی کنارے کے پاس غزہ کی نسبت زیادہ وسائل ہیں جن کے ذریعے وہاں اسرائیل کے خلاف ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔ حماس اسرائیل سے مذاکرات کرنے کی اہل ہے کیونکہ وہ صہیونیوں کو تکلیف دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار مسئلہ فلسطین کے امور کے ماہر ڈاکٹر عصام عدوان نے فلسطین المسلمہ سے انٹرویو میں کیا۔ ان کے انٹرویو کے متن کا اردو ترجمہ قارئین کی نذر ہے۔

آپ کے خیال میں فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیلی فلسطینی مذاکرات کی موت کے اعلان کے کیا اسباب ہیں؟

مذاکرات کے مراحل نے ثابت کردیا ہے کہ اسرائیل مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ۔ اسرائیل نے مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ اس نے مغربی کنارے میں فوجی ناکوں اور رکاوٹوں میں اضافہ کردیاہے۔ فلسطینیوں کو سفر کے لئے اجازت نامے جاری کرنے میں نہ صرف مشکلات پیدا کی جارہی ہیں بلکہ رہائشی پرمٹ جاری کرنے میں بھی رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ عرب اشیاء کی مغربی کنارے سے باہر بالخصوص غزہ ترسیل میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ اسرائیل کے اس رویہ سے فلسطینی اتھارٹی کا ایک گروہ اس نتیجے پر پہنچ گیا ہے کہ مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔

کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی نے سنجیدگی سے مذاکرات کا خاتمہ کیا ہے اور وہ دوبارہ مذاکرات نہیں کرے گی؟

فلسطینی فریق کی جانب سے اسرائیل سے مذاکرات معطل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ فلسطینی اتھارٹی یا پی ایل او دوبارہ مذاکرات کی راہ نہیں اپنائے گی۔ اس کا مقصد اسرائیل کے حمایتی ممالک بالخصوص امریکا اور یورپ پر واضح کرنا ہے کہ اگر انہوں نے فلسطینیوں کے بعض مطالبات کو تسلیم کرنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ نہیں ڈالا تو مذاکرات کا مستقبل خطرے میں ہے۔ اس بات کا اظہار فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات نے کیا۔ البتہ فلسطینی صدر محمود عباس نے کسی قسم کی رائے نہیں دی۔ وہ اپنی زبان سے کوئی ایسے الفاظ نہیں نکالنا چاہتے جس سے امن عمل میں رکاوٹ پیدا ہو۔ جب وہ امن عمل میں اسرائیلی رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہیں تو ان کا تذکرہ حل کا راستہ نکالنے کی صورت میں کرتے ہیں۔ محمود عباس کے مطابق یہ رکاوٹیں عارضی ہیں جس کا حل مذاکرات جاری رکھ کر اور اسرائیل سے تعلقات رکھنے والے عرب ممالک اور چار رکنی بین الاقوامی کمیٹی سے مدد حاصل کر کے ممکن ہے۔

کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کا مزاحمت اور مسلح جدوجہد کی طرف رجحان ہے؟

نہیں۔ ایسا کہنا ممکن نہیں۔ وہ مزاحمت پر یقین نہیں رکھتے۔ محمود عباس یا صائب عریقات میں سے کسی کے بیان میں مذاکرات کے خاتمے کے اعلان کے باوجود اس طرح کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ وہ مذاکرات کے متبادل کی بات نہیں کرتے۔ ان کے پاس کوئی متبادل پروگرام نہیں ہے۔ مذاکرات کی تعطلی کا مقصد عرب ممالک اور چار رکنی بین الاقوامی کمیٹی کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہے کہ وہ مداخلت کرتے ہوئے حالات کو خراب ہونے سے روکیں کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ ایسے حالات مزاحمت کاروں کے لیے سازگار ہوں گے اور اس سے مزاحمت کار مضبوط ہوں گے۔
 
یہی وجہ ہے کہ جب فلسطینی اتھارٹی مذاکرات کی ناکامی کی بات کرتی ہے تو ان لوگوں کے خلاف گرفتاری کی کارروائیاں شروع کردیتی ہے جو مزاحمت سے جڑے ہوئے ہیں۔ نہ صرف مزاحمت کاروں کو گرفتار کیا جاتا ہے بلکہ مزاحمتی جماعتوں کے دفاتر کو بند کردیا جاتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی یہ کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے پاس مذاکرات کے متبادل کے طور پر کچھ نہیں۔ مذاکرات کے خاتمے کا اعلان صرف اسرائیل کو مذاکرات کی طرف واپس لانے کے لیے ایک تکنیک ہے۔

آپ کے خیال میں کیا محمود عباس اور اس کا فریق اتنی بہادری یا ایسا ارادہ رکھتا ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی مذاکرات کے متبادل مزاحمت اختیار کرسکتا ہے؟

اصل مشکل یہی ہے۔ اگر محمود عباس فلسطینی خواہش کے حامل ہوں تو انہیں مذاکرات کے بہت سے متبادل راستے مل جائیں گے۔ حتیٰ کہ وہ مذاکرات کا راستہ بھی کھلا رکھ سکتے ہیں۔ اس بات میں کیا رکاوٹ ہے کہ پی ایل او اسرائیل سے مذاکرات شروع کرے جبکہ دوسری جانب مزاحمت کاروں کو فری ہینڈ دے دیا جائے۔ مذاکرات میں فلسطینی اتھارٹی مزاحمت کو اسرائیل پر دباؤ کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔لیکن وہ یہ راستہ نہیں اپنائیں گے۔ اگر محمود عباس مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کر کے مسلح جدوجہد کا اعلان کردیں جو فتح کے لٹریچر میں موجود ہے تو یہ ایک منطقی انتخاب ہوگا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ کیا محمود عباس اس بات پر راضی ہیں؟ میرے خیال میں محمود عباس کا مزاحمت پر راضی ہونا بعید از امکان نظر آتا ہے۔

آپ نے مذاکرات کے متبادل کی بات کی ہے۔ آپ کے خیال میں مذاکرات کے متبادل کون سے راستے ہیں جو فلسطینی اتھارٹی اختیار کرسکتی ہے؟

معاشی بائیکاٹ، پرامن مظاہرے اور بڑی بڑی ریلیاں جس کی طرف محمود عباس نے فتح کی چھٹی کانفرنس میں مغربی کنارے کے بلعین دیہات کے حوالے سے اشارہ کیا۔ کیا بیت المقدس، مسجد اقصیٰ اور مسجد ابراہیمی اس بات کے مستحق نہیں کہ ان سے اظہار یکجہتی کے لیے بڑے بڑے مظاہرے کیے جائیں۔اردن سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ مقبوضہ فلسطین سے اپنے سفیر کو واپس بلائے اور اسرائیلی سفیر کو اردن میں ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر عمان سے نکال دے۔ اسی طرح مصر سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنا سفیر مقبوضہ فلسطین سے واپس بلائے اور اسرائیلی سفیر کو قاہرہ سے نکالا جائے۔ عرب لیگ سے کہا جائے کہ اسرائیل جب تک یہودی آبادکاری کا عمل نہیں روکتا تب تک تمام عرب ممالک اسرائیل سے ہر قسم کے تعلقات ختم کردیں۔

لیکن اگر اسرائیل مغربی کنارے کی امداد روک دیتا ہے تو پھر کیا ہوگا؟

غزہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہ بین الاقوامی امداد کے بغیر اپنے امور چلا رہا ہے۔ مغربی کنارے کے پاس تو غزہ سے زیادہ وسائل ہیں۔ مغربی کنارے کا رقبہ غزہ سے اٹھارہ گنا زیادہ ہے۔ ان کے پاس فیکٹریاں ہیں۔ ان کے پاس غزہ کی بہ نسبت ثابت قدمی کے اسباب زیادہ ہیں۔ پھر نقصان صرف مغربی کنارے کا ہی نہیں ہوگا بلکہ امریکا اور چار رکنی بین الاقوامی کمیٹی کے لیے محمودعباس پر مزید دباؤ ڈالنے کا راستہ نہیں رہے گا۔ وہ امن کے ذریعے ان کی مشکلات میں کمی کی ضرورت پر زور دیں گے۔ اگر مذاکرات روک دیے جاتے ہیں تو اسرائیل غزہ کی طرح مغربی کنارے پر ناکہ بندی مسلط نہیں کرسکتا بلکہ اسے ایک بحران تصور کیا جائے گا۔

اگر فلسطینی اتھارٹی فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کردیتی ہے تو اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

میرے خیال میں دباؤ کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔ محمود عباس بحران پیدا کرسکتے ہیں۔ بین الاقوامی برادری اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کی حامی ہے۔ بالخصوص اس سلسلے میں متعدد قراردادیں بھی منظور کی جاچکی ہیں۔ فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع سے مسئلہ حل ہونا ممکن تو نہیں البتہ اس کا مثبت اثر پڑے گا اور اس کی وجہ سے بین الاقوامی برادری اسرائیل پر ایسے مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالنے پر مجبور ہوسکتی ہے جس کے ذریعے فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہو۔

مذاکرات کے خاتمے کا اعلان قومی منصوبے کے لیے کیسے مفید بن سکتا ہے؟

مذاکرات کی موت کے اعلان سے بحران پیدا ہوگا۔ مذاکرات کی تعطلی مصر اور اردن جیسے عرب ممالک اور چار رکنی بین الاقوامی کمیٹی کو مداخلت پر مجبور کرے گی۔ اس بحران کی وجہ سے وہ محمود عباس کے مطالبوں پر کان دھریں گے۔

ذرائع ابلاغ اور سیاسی تجزیوں میں کہا جارہا ہے کہ اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کو اسرائیل سے مذاکرات کے راستے تلاش کرنے چاہئیں؟

میرے خیال میں مذاکرات میں کوئی بنیادی مشکل نہیں ہے۔ لیکن جب کوئی کمزور طاقتور سے مذاکرات کرتا ہے تو اس کے نتائج سب کے سامنے ہوتے ہیں۔ مذاکرات سے قبل معلوم ہوتا ہے کہ طاقتور کی بات مانی جائے گی۔ مذاکرات شروع کرنے سے پہلے کمزور کے لیے ضروری ہے کہ وہ طاقتور کے سامنے اپنی طاقت کے ذرائع کا اظہار کرے تاکہ اپنے مقاصد حاصل کرسکے خواہ یہ مقاصد بتدریج ہی کیوں نہ حاصل کیے جائیں۔اوسلو معاہدہ کرنے والا فلسطینی فریق ایسا نہیں کرسکتا۔ وہ انتہائی کمزوری کے ساتھ اسرائیل سے مذاکرات کرتا ہے۔

وہ اسرائیل کے سامنے بچھا ہوا ہے۔ وہ فلسطینی عوام کے پاس جانے کے بجائے اسرائیل کے احکام کی تعمیل کررہا ہے۔ البتہ حماس نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے گذشتہ غزہ جنگ میں اسرائیل کے دانت کھٹے کیے۔ حماس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ اسرائیل سے مذاکرات کرنے کی اہلیت رکھتی ہے کیونکہ وہ اسرائیل کو تکلیف دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

یہی وہ مؤقف ہے جس کی بناء پر حماس مذاکرات کی اہل ہے۔ ممکن ہے مذاکرات کی ابتدا کسی تیسرے ملک کے ذریعے ہو جیسا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی ملک کے ذریعے جنگ بندی پر اتفاق ہوا اور جیسا کہ ابھی قیدیوں کے تبادلے کے معاملات طے پا رہے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی