قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینی عوام کے خلاف جارحانہ کارروائیوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ غزہ کی پٹی پر ناکہ بندی مزید سخت کر دی گئی ہے جبکہ مغربی کنارے یہودی فوجیوں کی دراندازیوں کی کارروائیاں اور شہروں کو یہودیانے کے منصوبے جاری ہیں۔
فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق نے اپنی ہفتہ وار رپورٹ میں واضح کیاہے کہ چار فروری سے 10فروری کے درمیان اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینیوں کو قتل کرنے، ان پر بمباری کرنے، انہیں اغوا کرنے، ان کی زمینیں غصب کرنے اور شہروں کو یہودیانے کی کارروائیاں جاری ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس ہفتہ کے دوران فائرنگ کے واقعات میں سات فلسطینیوں کو زخمی کیاگیا جن میں دو صحافی اور ایک بچہ بھی شامل ہیں۔ چار فلسطینی نابلس کے جنوب میں، عراق بورین دیہات اور تین مقبوضہ بیت المقدس میں پناہ گزین کیمپ شعفاط میں زخمی ہوئے۔
دوسری جانب غزہ پر بھی اسرائیلی بمباری کا سلسلہ جاری رہا۔ غزہ میں 7 فروری کو اسرائیلی بحریہ نے فلسطینی ماہی گیروں پر فائرنگ کی اور 4 ماہی گیروں کو گرفتار کیا۔ بیت لاھیا کے مغرب میں سرحدی علاقے میں مانیٹرنگ ٹاور میں موجود اسرائیلی فوجیوں نے شہریوں پر فائرنگ کی جبکہ اسرائیلی جنگی جہازوں نے غزہ انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر بھی بمباری کی اور پانچ میرائل داغے۔
دراندازیوں کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتہ کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں دراندازی کی 22 کارروائیاں کیں۔ جن میں 32 فلسطینی شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔
گرفتار ہونے والے افراد میں ایک خاتون اور سات بچے بھی شامل ہیں جبکہ انسانی حقوق کے غیر ملکی دو کارکنوں کو بھی گرفتار کیا گیا جن کا تعلق اسپین اور آسٹریلیا سے ہے۔ اسرائیلی فوج فلسطینی شہریوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے یہ کارروائیاں کرتی ہیں۔ اسرائیلی فوجی فلسطینی شہریوں کے گھر وں میں داخل ہوکر نقصان پہنچاتے ہیں۔
اس کاروائی کامقصد نابلس کے جنوب میں زعترہ ناکے پر اسرائیلی فوجی کو چھرا گھونپنے والے شہری کی تلاش تھی۔ اسرائیلی فوجی اہلکاروں نے فلسطینی مزاحمت کار کے چار بھائیوں اور دو رشتہ داروں کو گرفتار کیا اور اہل خانہ کو گھر مسمار کرنے کی دھمکی دی۔ فلسطینی علاقوں کو یہودیانے کے منصوبہ کے سلسلہ میں سلفیت شہر کے مغرب میں ”رفانا ”بستی کے یہودیوں نے اسرائیلی فوج کی حفاظت میں زمینوں کو ہموار کرنے کی کارروائی کی۔ انہوںنے وہاں پر نئے گھروں کو تعمیر شروع کی۔ یہ کارروائیاں 50 ایکڑ اراضی پر محیط ہیں ۔
فلسطینی شہریوں کے خلاف صہیونی آبادکاروں کی دست درازیوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ الخلیل شہر کے جنوب مشرق کے ”البقعہ” علاقے میں کریات اربع اور خارصینا کے یہودی آبادکاروں نے 80 درخت کاٹ دیے۔ یہودی آبادکاروں کے ایک گروہ نے عراق بورین دیہات کے چرواھے پر حملہ بھی کیا۔ ایک اسرائیلی فوجی نے اس پر فائرنگ بھی کی۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی جاری ہے۔ اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث غزہ بڑی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے جس کے پندرہ لاکھ شہری محصور ہیں۔ رپورٹ میں غزہ پر اسرائیلی ناکہ بندی کے اثرات کا ذکر کیا گیا۔ غزہ کو دو سال سے پٹرول اور مٹی کے تیل کی بندش کا سامنا ہے جبکہ ایل پی جی اور غزہ کے پاور پلانٹ کے لیے ایندھن محدود پیمانے پر مہیا کیا جارہا ہے۔ غزہ کا پاور پلانٹ جزوی طور پر کام کررہا ہے۔
رپورٹ میں غزہ کی راہداریوں کے بند کیے جانے کا بھی ذکر کیا گیا۔ مصر کے ساتھ ملنے والی رفح سرحد بند ہے، جس کے باعث غزہ کے شہری بیرونی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔ فلسطینی مریضوں اور غزہ کا دورہ کرنے والے وفود کے لیے رفح سرحد انتہائی محدود پیمانے پر کھولی جاتی ہے۔
انسانی حقوق کی رپورٹ میں پانی اور صحت کے بحرانوں پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ ضروری سپیئر پارٹس اور آلات کی عدم دستیابی کے باعث صحت اور پانی کے شعبوں میں بحران کا سامنا ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے باعث پانی کے شعبہ میں براہ راست نقصانات کا اندازہ 60 لاکھ ڈالر ہے۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ مغربی کنارا بھی حصار بندی کا شکار ہے۔ مختلف شہروں اور دیہاتوں کے درمیان فوجی ناکے لگائے ہیں جس سے متعدد شہر اور دیہات کنٹونمنٹ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس اور اس کے گرد مزید رکاوٹیں لگائی جارہی ہیں جس کا مقصد مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے سے روکنا ہے۔
مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے مغربی کنارے کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں 630 رکاوٹیں لگائی گئی ہیں۔ اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے کی 65 فیصد اہم شاہراہیں بند کررکھی ہیں۔
رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ نسلی دیوار کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد مغربی کنارے کے شہریوں کی نقل و حرکت مزید کم ہو جائے گی۔ مغربی کنارے میں نسلی دیوار کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس کی لمبائی 810 کلو میٹر تک پہنچ جائے گی۔ نسلی دیوار کی تعمیر 510 کلو میٹر تک مکمل ہو چکی ہے۔ نسلی دیوار کا 99 فیصد حصہ مغربی کنارے میں واقع ہے۔