پنج شنبه 01/می/2025

اسرائیلی سفیر مائیکل اورین ۔۔۔ طلبہ نے آئینہ دکھایا تو صہیونی برا مان گئے

ہفتہ 20-فروری-2010

فلسطینی عوام کے خلاف جرائم کی ایک ناختم ہونے والی داستان اور غزہ عوام کے خلاف جاری مہم سے بالخصوص توجہ ہٹانے اور عالمی برادی کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے امریکا میں اسرائیلی سفیر ما ئیکل اورین نے انسانی شائستگی،آزادی رائے اور سچائی کا کھلم کھلا مذاق اڑانے کی بھر پور کوشش کی۔

کیلیفورنیا اروین یونیورسٹی میں 8 فروری کو ایک لیکچر کے دوران مائیکل اورین نے اسرائیل کو ایک مہذب ،جمہوری اور روشن خیال ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اسرائیل میں انسانی حقوق اور انسانی آزادی کا خیال اسی طرح رکھا جاتا ہے جس طرح یورپ میں رکھا جاتا ہے۔لیکن سامعین میں سے بہت سارے طلباء یہ نرا جھوٹ سننے کیلئے تیار نہیں ہوئے۔

انہوں نے تقریر میں رکاوٹ ڈالی اور وہ چیخ چیخ کے پوچھنے لگے کہ کتنے فلسطینیوں کو آپ نے قتل کیا ہے۔یونیورسٹی کے بعض صیہونیت نواز افسران اسرائیلی سفیر کی یہ بے عزتی دیکھ کر غصے سے بے قابو ہو گئے۔

لیکچر شروع ہونے سے پہلے ہی مسلم سٹوڈنٹس یونین نے یونیورسٹی میں اسرائیلی سفیر کی موجودگی پر اعتراض کیا  تھا اور اس کی مذمت کی۔ طلباء رہنماؤں کا کہنا تھا کہ جس شخص نے ذاتی حیثیت میں لبنان اور غزہ کی جنگوں میں شرکت کی ہو ، اورجن جنگوں میں ہزاروں معصوم انسانوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ ایسے شخص کو اعلیٰ دانش گاہ کے پلیٹ فارم پر نہیں بلکہ عدالت انصاف کے کٹہرے مجرموں کی طرح میں کھڑا ہونا چاہئے۔صیہونی حمائتی لابی لبنان اور فلسطینی عوام پر ڈھائے جانیوالے اسرائیلی مظا لم کے خلاف طلباء کے احتجاج پر طیش میں آگئی اور انہوں نے مسلم سٹوڈنٹس یونین پر الزام عائد کیا کہ وہ یونیورسٹی کیمپس میں اسرائیل کو شیطان صفت روپ میں پیش کررہے ہیں اور یہ صورتحال ان کیلئے ناقابل برداشت ہے

لیکن حقیقت یہ ہے کہ طلباء اسرائیل کو شیطان صفت روپ میں پیش نہیں کررہے  تھے بلکہ اسرائیل اس حقیقت کو خود ہی ثابت اور آشکارہ بھی کر رہا ہے۔یہ اسرائیلی قابض فورسزہی ہیں جو سنگین جرائم میں ملوث ہیں اور عام لوگوں کے جن میں معصوم بچے اور خواتین شامل ہیں کے قتل عام ملوث ہوتے ہوئے بھی بڑی ڈھیٹ بے شرمی کے ساتھ یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ایسا غلط فہمی کی وجہ سے ہوا ہے۔

طلباء نے اسرائیلی سفیر کی تقریر کے دوران اگر رنگ میں بھنگ ڈالی تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ایک یہودی ہے بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک بدمعاش ریاست کی نمائندگی کررہا ہے۔ طلباء نے جو کچھ بھی کیا اس کی ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرف سے سراہنا ہونی چاہئے اور ان کی حمیت و غیرت کو سلام کرنا چاہئے۔بے شک اگر لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک میں اسرائیلی نمائندوں کی موجودگی پر انگلیاں اٹھانا اور ان کے خلاف پرامن احتجاج کرنا شروع کریں تو توقع رکھی جا سکتی ہے کہ بہت سارے بے کس و بے بس بچوں و خواتین اور عام لوگوں کی زندگیاں ان کی قہر و سامانیوں سے بچ سکیں۔

بعض احساس برتری کے شکارصہیونی اس عمل کو آزادی اظہار پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیں گے ،لیکن معاملہ اظہار رائے کی آزادی کا نہیں بلکہ یہاں اس کی آڑ لیکر اپنے سنگین جرائم اور ناحق قتل عام کا دفاع کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ اور با لفرض محل اگر صہیونیت اور اس کے علمبردار اس نوعیت کی آزادی اظہار رائے کا حق رکھتے ہیں تو پھر نازیوں کو بھی ایسا ہی حق دینا چاہئے۔کیونکہ انسانیت کی بیخ کنی کرنے میں دونوں کاکردار ایک جیسا ہے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ دونوں ایک  ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

یہاں یہ سوال کرنا بے جا نہ ہوگا کہ کیا اسرائیل کی صہیونی نازی حکومت نے غیر یہودیوں کو اظہار رائے کی آزادی دی ہے۔ کیا پہلے اقصیٰ انتفادہ کے دوران اسرائیلی بمبار جہازوں نے رام اللہ کے فلسطینی ریڈیو پر بم نہیں برسائے۔کیا پچھلے سال غزہ پر خوفناک حملے کے دوران قابض اسرائیلی فورسز نے اقصیٰ ٹی وی اسٹوڈیو پر گولے نہیں پھینکے جسکے نتیجے میں ٹی وی سٹیشن تباہ ہوا اور نشریات بند ہوگئیں۔اس وقت اظہار آزادی رائے کا فلسفہ کہاں تھا۔ کیا ہم وہ دن بھول جائیں جب بیس سال سے زائد عرصہ پہلے فلسطینی رہنما یاسر عرفات جنیوا میں خطاب کر رہے تھے اور ادھر اسرائیلی انتظامیہ نے پورے فلسطین میں بلیک آوٹ کر دیا تا کہ فلسطینی عوام اس خطاب کو نہ دیکھ سکیں۔

اس لئے وہ ریاست جہاں غیر یہودیوں کیلئے اظہار رائے کی آزادی کا تصور تک بھی نہ ہو ، اس ریاست کے نسل پرست حکمرانوں کو اظہار رائے کی آزادی کا واویلا مچانا زیب نہیں دیتا۔

آج مائیکل اورین جیسے سفارت کار دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششوں میں ہر ممکنہ حد تک جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں۔اس لئے اچھے اور دیانتدار لوگوں کو جو سچ، امن اور انصاف کے رموز سے آشنا ہیں انہیں چاہئے کہ وہ ان پیشہ ور کذابوں کو للکاریں ۔ یہ وہ پیشہ ور کذاب ہیں جو عیا ر بھی ہیں اور مکا ر بھی ہیں ، جنہیں کالے کو سفید اور اور مجرم کو مظلوم بنانے کا فن آتاہے۔ امن اور انصاف کا بول بالا چاہنے والے لوگوں کو ان کے سامنے آکر انہیں آئینہ دکھانا ہوگا اور انہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ وہ بے نقاب ہوچکے ہیں اور پردے کے اٹھنے کے بعد ان کا خوبصورت نہیں بلکہ بد صورت چہرہ نظر آ رہا ہے۔

انہیںاس دروغ گوئی پر ہمیشہ متنبہ کرنا ہوگا۔یہ جہاں بھی جائیں ،ان کا پیچھا کرنا مت چھوڑئیے گا۔یہ کسی ہال میں لیکچر دینے جائیں وہاں کھڑے ہوکر ان سے پوچھئے گا کہ کیوں آپ کی ریاست نسلی بنیادوں پر لوگوںکا قتل عام کرہی ہے۔ان سے بات کرتے وقت مدھر نہیں جارحانہ انداز اختیار کیجئے گا۔کیونکہ آپ کا یہ انداز اور طریقہ کار شاید غزہ پٹی کے مفلوک الحال لوگوں کیلئے ان ظالموں اور جابروں کے ہا تھوں دوسرے قتل عام کے رکنے کا باعث بنے۔

فلسطینی عوام کی نظریں ان پرجوش طلباء جیسے دیانتدار اور باضمیر لوگوں کی طرف ٹکٹکی با ندھ کر لگی ہوئی ہیں۔یہ آنکھیں آپ جیسے لوگوں کو ہی تک رہی ہیںاور ان کی امیدیں آپ سے ہی وابستہ ہیں۔

  ہمیں طلباء کے اس نوعیت کے کردار کو جس کا یورپ۔ شمالی امریکا یا دنیا کے کسی بھی حصے میںمظاہرہ ہورہا ہو کو کم اہمیت کا حامل نہیں سمجھنا چاہئے، کیو نکہ یہی وہ لوگ ہیں جو آنے والے برسوں میں دنیا کے مستقبل کے ضامن ہونگے اوریہی لوگ دنیا کی رائے عامہ کو ہموار کرسکتے ہیں۔  ہمیں ان کیمپس کے ان طلبہ کو بھی یاد رکھنا چاہئے اور ان کا ہر وقت شکریہ ادا کرنا چاہئے جن کی جدوجہد نے جنوبی افریکا کی نسل پرست حکومت کو پہلے تنہا کیا پھر اسے شکست سے دوچار کیا

یہاں میں تھوڑی سی وضاحت کرنا چاہتا ہوں ۔ بعض لوگ یہودیت اور صہیونیت کا فرق سمجھنے میں کنفیوژن کا شکار ہیں ۔یہودی ہمارا مسئلہ نہیں ہے ۔ہمارا مسئلہ صہیوی یہوددی ہیں،اس لئے نہیں کہ وہ یہودی ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ قاتل ہیں ،جارح ہیں اور زمین چور ہیں۔

ہم اسرائیل کو اس وجہ سے ناپسند نہیں کرتے  ہیںکہ وہاں کی آبادی زیادہ تر یہودیوں پر مشتعمل ہے۔۔ نہیں ۔۔قطعاََ ایسا نہیں ۔ ہماری نفرت  بدی سے ہے۔شر سے ہے اور اس ریاست کی بنیاد ہی شر اور بدی ہے۔ صہیونی ذمہ داراں چاہیں گے کہ آپ یہودیوں کے خلاف بولیں ،باتیں کریں ان پر حملے کریں تاکہ وہ  ہماری جدوجہد کو ایک نسل پرستانہ جنگ ثابت کرسکیں۔ اس معاملے میں ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور حقائق بھی یہ ہیں کہ بہت سارے باضمیر یہودی فلسطینیوں کی جدوجہد کو جائز سمجھتے ہیں اور اس کی سپورٹ بھی کرتے ہیں۔

ہمیں ان یہودیوں اور نسل پرست یہودیوں کے درمیان واضح فرق کو سمجھنا چاہئے۔ آخر پر یہ گزارش ہے کہ قانون کو کبھی اپنے ہاتھ میں لینے کی غلطی نہ کریں ۔یہ خو د شکستگی کے مترادف حرکت ہوگی۔ ہمیں کسی جنجھلاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمارا کام اسرائیلی قابض فورسز کے نازیوں جیسے کردار کو دنیا کے سامنے آشکارہ کرنا ہے۔اور ہمیں یہ کام کرنا ہے اور کرتے رہنا ہے۔پورے اعتماد اور جر ات کے ساتھ….

مختصر لنک:

کاپی