یکشنبه 11/می/2025

فلسطینی اسیران کے اہل خانہ عباس ملیشیا کے مظالم کا خصوصی ہدف

پیر 19-اپریل-2010

اسرائیلی عقوبت خانوں میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) سے تعلق رکھنے والے اسیران کے اہل خانہ عباس ملیشیا کے مظالم کا بھی خصوصی ہدف بنے ہوئے ہیں۔ نام نہاد فلسطینی حکومت کی جانب سے قیدیوں کے اہل خانہ کے لیے مخصوص ماہانہ مشاہرے کی ضبطگی اور اس میں کمی، گھروں کے انہدام اور اسیران کے اسرائیلی جیلوں سے رہائی پاتے ہی دوبارہ گرفتاری کی دھمکیوں سے اسیران کے اہل خانہ کی مشکلات دو چند ہو گئیں۔

صہیونی جیلوں میں اسیر فلسطینیوں کی تکالیف صرف یہیں ختم نہیں ہوتیں کہ انہیں اپنے اہل خانہ سے ملنے نہیں دیا جاتا یا بہت تھوڑی دیر کے لیے ملنے دیا جاتا ہے  بلکہ عباس ملیشیا کی جانب سے ان کے اہل خانہ پر ڈھائے جانے والے مظالم سے ان کا درد مزید بڑھ جاتا ہے۔ فیاض کی غیر آئینی حکومت نے قیدیوں کے لیے مخصوص مالی امداد کی تقسیم کے دوران امتیازی رویہ اپناتے ہوئے حماس اور اسلامک جہاد کے قیدیوں کی امداد کم کر دی ہے جبکہ  پی ایل او کے قیدیوں کے اہل خانہ کا ماہانہ مشاہرہ بڑھا دیا ہے۔
 
فلسطینی اسیران کے مالی حقوق کی چوری

صہیونی جیل میں پانچ سال قید کی سزا کاٹنے والے فلسطینی اسیر کی والدہ ام مازن نے نام نہاد فلسطینی حکومت کے ظلم کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ایک دن انہیں عباس ملیشیا کی جانب سے نوٹس ملا کہ وہ میرے بڑے بیٹے کی عدم موجودگی میں ہمارے خاندان سے ہماری آمدنی کی تحقیق کرنا چاہتی ہے۔ اس نام نہاد تحقیق کے بعد ہمارا ماہانہ مشاہرہ کم کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا اگرجہ دیگر ذرائع سے انہیں کچھ  مالی امداد وصول ہوئی ہے۔ مگرعباس ملیشیا نے ان کے کم از کم دو ہزار ڈالرز ناجائز طور پر کاٹ لیے ہیں۔
 

انہوں نے کہا کہ ملیشیا عباس ان کو شدید مالی مشکلات سے دوچارکرنا چاہتی ہے۔ ان کی امداد کو روکا جا رہا ہے۔  وہ چاہتے ہیں کہ اسیران کے اہل خانہ ان کے مظالم سے بچنے کے لیے اپنے مالی حقوق سے دستبردار ہوجائیں۔ انہوں نے مغربی کنارے کے بنکوں پر الزام لگایا کہ وہ اپنے کسٹمرز کے بارے میں عباس ملیشیا کو تفصیلات بتاتے ہوئے غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔

ام مازن نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ عباس ملیشیا نے ان کے بیٹے کا مشاہرہ  تین ماہ سے روک رکھا ہے۔ الزام یہ لگایا جا رہا ہے کہ ان کا بیٹا پہلے ہی اپنے حق سے زیادہ رقم وصول کرچکا ہے یہ زائد رقم اسے واپس کرنا ہوگی۔
 
شبہ کی بنا پر چوری

سات سال صہیونی جیلوں میں پابند سلاسل رہ کر رہائی پانے والے رآفت عبد الحلیم نے انکشاف کیا کہ عباس ملیشیا نے ان کی 10 ہزار ڈالرز ناجائز طور پر ہڑپ کر لیے ہیں۔  یہ رقم ان کے بھائی نے اردن سے ایک ایکسچینج آفس اور بنک رسید کے ذریعے ان کے لیے بھیجی تھی۔
 
عبدالحلیم نے عباس ملیشیا کے طریقہ واردات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ایک دن اچانک عباس کے کچھ ’’ محافظوں ‘‘ نے ان کے گھر پر دھاوا بولا اورپھر انہیں ایک زرمبادلہ کے آفس میں لے گئے جہاں پر ان سے بینک رسید پر دسختط کروائے گئے۔ اور پھر انہیں حماس کو فنڈز فراہم کرنے کے الزام میں دو ماہ تک حراست میں رکھا گیا۔ بعد ازاں حماس کی فنڈنگ کے الزامات غلط ثابت ہونے پر مجھے رہا تو کر دیا گیا مگر دس ہزار ڈالرز اب تک عباس ملیشیا کے پاس ہی ہیں اور اب مختلف مراحل کی سست روی کا بہانہ بنا رقم کی ادائیگی موخر کی جا رہی ہے۔
 
انہوں نے واضح کیا کہ عباس ملیشیا قیدیوں کے اہل خانہ کو صرف مالی نقصان ہی نہیں پہچاتی بلکہ انہیں اسیران کے حق میں ہفتہ وار احتجاج میں قیدیوں کی تصاویر ساتھ لانے، حماس کے حق میں نعرے لگانے اورسبز پٹیوں سمیت حماس کی کسی بھی علامت کو اپنانے سے روکا جاتا ہے۔

آزانہ احتجاج میں رکاوٹ

اس ضمن میں ایک فلسطینی اسیر کے والد نے بتایا کہ انہوں نے ایک دن قیدیوں کے حق میں ہفتہ وار احتجاج کے دوران حماس کی مخصوص سبز پٹی باندھی تو اگلے دن عباس کے خفیہ ادارے کی جانب سے ایک نوٹس ملا جس میں کہا گیا کہ ان کے بوڑھا ہونے کی وجہ سے انہیں چھوڑ دیا گیا ہے ورنہ انہیں دوران احتجاج ہی گرفتار کرلیا جاتا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ملیشیا احتجاج کے دوران سبز پٹی باندھنے سے روکتی ہے اور ایسا کرنے والوں کو گرفتاری اور محاسبے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ عباس ملیشیا ایسا صہیونی حکام کے حکم پر
کررہی ہے۔
 
حماس کے شعبہ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے درجنوں فلسطینیوں کو محض چند گھنٹے یا کچھ دن بعد ہی عباس ملیشیا گرفتار کر لیتی ہے اور پھر اسرائیلی احکامات کی بجا آوری میں انہیں تعذیب اور تفتیش کے مختلف مراحل سے گزارا جاتا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی