اسرائیل کا جنوبی لبنان سے نکلنا، اقصی کا تحریک انتفاضہ، امریکا میں گیارہ ستمبر کا واقعہ اور پھر اس کے بعد اس کی عراق اور افغانستان پر چڑھائی، اس کی پیروی میں 2006ء میں غاصب اسرائیلی دشمنوں نے جنوبی لبنان پرحملہ کردیا۔ عالم اسلام پر آنے والے اس کڑے وقت میں بشار الاسد ہی وہ جری وبہادر مرد تھے جنہوں نے شام کی کرسی صدارت سنبھالی اور ایک دہائی تک ان مشکل ترین مسائل کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنے ملک کو خودداری کے راستے پر گامزن کردیا۔ایک وقت وہ تھا کہ 1979ء میں دہشت گردی پر امریکی وزارت خارجہ سالانہ رپورٹ میں شام کودہشت گرد ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر رکھا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق شام 1986ء سے اگرچہ براہ راست دہشت گردی میں ملوث نہیں مگر یہ حزب اللہ، فلسطینی تنظیموں اور عراق کے مسلح گروہوں کی مدد کرتا رہا ہے۔
بشار الاسد نے اقتدار سنبھال کر شام کے اس تاثر کو بہتر کرنے کی بھرپور کوششیں شروع کردیں۔ انہوں نے پچھلے کچھ سالوں میں خارجی سیاست میں بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں خاص طور پر ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کے قیام، ایران کے ساتھ مضبوط اتحاد اور رفیق حریری کے قتل کے بعد لبنان کے ساتھ پیدا ہونے والے بحران پر قابو پانے کو ان کے شاندار کارناموں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ تاہم بشار الاسد ارض شام پر لگے دہشت گردی کے لیبل کو ختم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
انہوں نے دہشت گردی کے تعریف پر امریکا سے واضح طور پراختلاف کیا۔ عرب اسلامی ممالک کی متعدد کانفرنسوں سے دوران خطاب انہوں نے دہشت گردی اور جدوجہد آزادی کی تعریفوں میں فرق واضح کیا۔ ان کے مطابق کسی بھی گروہ کے لئے اپنی آزادی کے حصول کے لئے جد وجہد کرنا اور دشمنوں سے برسر پیکار ہونا جائز ہے۔ دوحہ میں غزہ کے حالات پر بلائے گئے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مسلح جدوجہد کو امن کا واحد ذریعہ قراردے دیا۔ ان کے بہ قول چور کبھی بھی خوشی سے حق نہیں دیتا، کسی بھی مزاحمتی تحریک میں یہ ہی وہ اصل بات ہے جو اسے سلامتی اور امن کا ذریعہ بنا دیتی ہے۔
بشارالاسد کی واضح اور دور اندیش پالیسیوں کی بدولت ہی آج شام سعودیہ عرب کے ساتھ اپنے تعلقات نئے سرے سے قائم کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ وہ لبنان میں صدر رفیق الحریری کے قتل کے بعد وہاں پر پیدا ہونے والی سیاسی ابتری سے نکل چکا ہے اور اب امریکا اورعلاقائی غاصب اسرائیل کے ساتھ ٹکر لینے کا بھی زیادہ حوصلہ رکھتا ہے۔ صہیونی دشمنوں نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ شام علاقے میں مزید اسرائیلی حملوں پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہے گا۔ اس وقت جب اسرائیلی وزیر خارجہ نے شام کے صدر بشار الاسد کو براہ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ دوبارہ جنگ چھڑنے کی صورت صرف شام ختم نہیں ہوگا
بشارالاسد اور ان کے خاندان کی حکومت بھی ختم ہوجائے گی تو تل ابیب کے اس جارحانہ بیان کے جواب میں شام کے وزیر خارجہ نے یہ جواب دیا ”شام کے حوصلے کا امتحان مت لیجئے، اس مرتبہ جنگ اسرائیل کے شہروں میں منتقل ہوگی ۔” بعد ازاں اسرائیل نے صحرائے نقب میں جنگی مشقیں شروع کردیں جس سے یہ تاثر دیا گیا کہ شام کے خلاف جنگ ہوسکتی ہے۔
اسرائیلی اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ صدر بشارالاسد اپنے مؤقف میں کبھی بھی لچک نہیں دکھائیں گے اور نہ ہی فلسطینی مزاحمت کی مدد ترک کریں گے۔ لیکن یاد رہے کہ شام یا دیگر عرب ممالک کا حالیہ کردار اسرائیلیوں کو غزہ، لبنان، شام حتی کہ ایران پر حملے کی کسی نئی حماقت سے باز رکھنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ کسی بھی ممکنہ خطرے سے بچنے کے لیے ان ممالک کو اپنی تیاری بھرپور رکھنا ہوگی۔