اس کے اختتام پر جب کانفرنس کے سربراہ اور جدید صہیونیت کے بانی ”ڈاکٹر تھیوڈور ہرٹزل“ سے مستقبل کے ان منصوبوں کا خلاصہ پوچھا گیا تو اس نے ایک جملے میں اپنے اہداف کو سمیٹتے ہوئے کہا: ”میں زیادہ تو کچھ نہیں کہتا، بس اتنا کہتا ہوں پچاس سال کے اندر دنیا اپنی آنکھوں سے یہودی ریاست قائم ہوتا دیکھے گی۔“ 1917ء میں ”بالفور“ معاہدہ ہوا۔ جس کے بعد دنیا نے دیکھا ”ڈاکٹر تھیوڈور ہرٹزل“ کی بات سچ ثابت ہوئی۔ ٹھیک 50 سال بعد عیسوی کیلنڈر کے مطابق 14 مئی 1948ء میں فلسطین کے 78 فیصد علاقے میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔
دوسرا کام اسرائیل کو ہر لحاظ سے مستحکم اور مضبوط کرنا تھا۔ چنانچہ دنیا بھر کے سودخور یہودی کمر ٹھونک کر اس کام میں جت گئے۔ پوری دنیا میں یہودی ایک فیصد بھی نہیں لیکن جو ہیں وہ انتہائی طاقتور، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہر شعبے پر چھائے ہوئے ہیں۔ یہودیوں نے اپنے کارناموں سے دنیا کو ورطہٴ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ گزشتہ صدی میں بڑے بڑے کام کرنے والے سب یہودی ہی ہیں۔ آئن اسٹائن سے فرائیڈ تک، مارکس، فرائیڈ مین اور ملٹن تک سب یہودی ہیں۔ پچھلے 105 سالوں میں دنیا کے ایک فیصد سے کم آبادی والے یہودیوں نے 180 نوبل انعام جیتے جبکہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں صرف تین نوبل انعام حاصل کرسکے ہیں۔ اس وقت امریکا کو 85 بڑے ادارے چلارہے ہیں۔
ان 85 اداروں میں سے 54 کٹر یہودیوں کے پاس ہیں۔ ”وال اسٹریٹ“ ایک ادارہ ہے۔ اس ادارے کے ہاتھ میں دنیا کی 80 فیصد دولت ہے۔ اس کا سربراہ جارج سورس نام کا ایک یہودی ہے۔ اس وقت دنیا میں 400 لوگ ہیں جنہیں ارب کھرب پتی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے 145 کٹر یہودی ہیں۔ یہ لوگ امریکا کے بزنس پر چھائے ہوئے ہیں۔ بڑی بڑی کارپوریشنوں، کمپنیوں اور فرموں کے مالک ہیں۔ میڈیا اس وقت پورے کا پورا یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔ وائٹ ہاؤس شروع دن سے ہی یہودیوں کی سازشوں کا گڑھ رہا ہے۔
ان ا داروں کے 54 یہودی مالکان ہروقت وائٹ ہاؤس میں سازشوں کا جال بنتے رہتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔ آپ حیران ہوں گے امریکا میں میڈیا کی پانچ بڑی کمپنیاں ہیں اور ان کے مالک یہودی ہیں۔ ایک ایک فرم سے 375 کے قریب ٹیلی ویژن، سیکڑوں چینل اور 3 ہزار 9 کے قریب ریڈیو وابستہ ہیں۔ ان پانچ بڑی میڈیا کمپنیوں کے مالکان، ان کے چیف ایگزیکٹو، ڈائریکٹرز، پروڈیوسرز، منیجرز، جنرل منیجرز اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں پر کٹر یہودی فائز ہیں۔
دنیا بھر کے دس بڑے کثیر الاشاعت میگزین کے مالک بھی یہودی ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے کثیر الاشاعت تین بڑے اخبارات بھی یہودیوں کی ملکیت میں ہیں۔ دنیا کی تینوں بڑی نیوز ایجنسیوں پر یہودیوں کا کنٹرول ہے۔ ذرائع ابلاغ پر چونکہ ان کا کنٹرول ہے لہٰذا یہ نہ صرف اہم شخصیات بلکہ ملکوں سے بھی اپنی مرضی کی بات اگلواتے اور کہلواتے ہیں۔ یہ تمام سرمایہ دار اور بااثر طبقہ اسرائیل کو معاشی، مالی، جانی اور فوجی ہر لحاظ سے مستحکم اور مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔ انہوں نے اسرائیل کے لیے بجٹ اور رقم کے حصے مقرر کیے ہوئے ہیں۔
یہودی پروٹوکول کے مطابق تیسرا ہدف اس یہودی ریاست کی ان حدود تک توسیع ہے جو ”منی اسرائیل“ کو ”گریٹر اسرائیل“ میں تبدیل کردے گی۔ سوال یہ ہے آج جو لوگ اسرائیل کے ”جائز حق“ کے بارے میں دلائل پیش کرتے ہیں، کیا وہ اس بات کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ اسرائیل اسی حدود اربعہ پر مطمئن ہوجائے گا؟
صہیونی منصوبوں کے مطابق اسرائیل لمبائی میں لبنان اور سعودی عرب تک اور چوڑائی میں دریائے دجلہ سے دریائے نیل تک ہے۔ اگر آپ اسرائیل کا جھنڈا بغور دیکھیں تو معلوم ہوگا جھنڈے پر دو نیلی پٹیاں اسرائیل کی حدود اور ان دو پٹیوں کے درمیان میں ستارہٴ داودی ”عظیم تر اسرائیل“ کی علامت کو ظاہر کرتا ہے۔ 3 اپریل 1968ء کو انگلستان کے ایک یہودی ادارے نے بڑی تعداد میں ایک کارڈ چھاپا جس کی پشت پر مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ دیا گیا تھا۔ اس میں مشرقِ وسطیٰ بالخصوص جزیرہ نمائے عرب کو اسرائیل کے زیرنگین دکھایا گیا تھا۔
صہیونی اپنے سازشی ذہن اور بے تحاشا سرمائے کے بل پر اپنے دیرینہ استعماری عزائم کی طرف بتدریج بڑھ رہے ہیں۔ نومبر 1948ء میں اسرائیلی ریاست کا کل رقبہ 7993 مربع میل تھا۔ جون 1967ء کی جنگ کے بعد اس میں 27 ہزار مربع میل کا فوری اضافہ ہوا تھا۔ مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ، گولان کی پہاڑیاں یہ سب مقبوضہ علاقہ جات ہیں۔ غربِ اردن اور غزہ میں بنی تمام یہودی بستیاں بین الاقوامی اصولوں کے تحت غیر قانونی ہیں۔ اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق اسرائیل مزید بستیاں تعمیر نہیں کرسکتا۔ قیام امن کے بین الاقوامی منصوبے ”روڈ میپ“ کے تحت اسرائیل نے یہودی بستیوں پر کام روکنے کا پکا وعدہ کیا تھا۔
گزشتہ سال جب اوبامانے مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کیا اور اسلامی دنیا کے ساتھ ازسرنو بہتر تعلقات کی ٹھانی تو انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا: ”اسرائیل یہودی مکانات کی تعمیر کا سلسلہ فوری طورپر روک دے کیونکہ ان بستیوں کی تعمیر سے قیام امن کے منصوبوں میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔“ یہی بات سعودی عرب اور پاکستان نے بھی کہی تھی مگر اسرائیل کے صہیونی حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی بلکہ اس کے بعد سے نئی یہودی بستیوں کی تعمیر میں تیزی آگئی ہے۔ آج کل ایک دفعہ پھر ”عالمی برادری“ کی جانب سے مشرق وسطی میں امن مذاکرات کے نئے دور کی باتیں ہورہی ہیں جبکہ دوسری طرف یہودی بستیوں کی تعمیر تیزی سے جاری ہے۔ اس پر فلسطینی مذاکرات کار نے درست کہا مذاکرات اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک یہودی بستیوں کی تعمیر نہیں رک جاتی۔
اسرائیل کی پشت پر چونکہ اس وقت عالمی طاقتیں ہیں۔ یہ طاغوتی قوتیں ”عظیم تر اسرائیل“ کے قیام میں اس کی ہمہ وقت ہر قسم کی مدد اور تعاون کررہی ہیں۔ عالم اسلام میں نفرت کے بیج بوکر، ان کے حکمرانوں کو خریدکر، اپنے ایجنٹوں کو اقتدار پر بٹھاکر، تقسیم درتقسیم کرکے، اس میں شورشیں اور یورشیں بپا کرکے۔ اگر ان میں کوئی ”نسخہ“ کامیاب نہ ہو تو پھر براہِ راست خونیں یلغار کرکے کام تمام کردیا جاتا ہے۔ آپ غزہ کو ہی دیکھ لیں۔ گزشتہ دو سالوں میں صہیونیوں نے غزہ کے مسلمانوں کا محاصرہ کررکھا ہے جس کی وجہ سے غزہ کے باشندے انتہائی کسمپرسی کی زندگی میں گزارنے پرمجبور ہیں۔ فلسطین کے مرکز اطلاعات اور عرب اخبارات کے مطابق غزہ کی پٹی پر بسنے والے80فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں، 40فیصد کے پاس کوئی روزگار نہیں۔
3500 ورکشاپ، فیکٹریاں اور کمپنیاں بند ہوچکی ہیں۔ 10 لاکھ فلسطینی زندہ درگور ہیں۔ 50فیصد بچے غیر معیاری خوراک، ادویہ اور انسانی امداد کی قلت کی وجہ سے مختلف امراض کاشکار ہیں۔ پانی کا 90 فیصد حصہ پینے کے قابل نہیں۔ 50 فیصد رہائشیوں کے لیے ہفتے میں تین دن سے زیادہ پینے کا پانی بھی بند کردیا جاتا ہے۔ ایک دن میں کم سے کم بجلی کی بندش 8 گھنٹے ہوتی ہے۔ یہاں کے تعلیمی نظام کی صورتِ حال انتہائی مخدوش ہے۔ قابض قوتوں نے تعلیمی عمل کے تسلسل کے لیے ضروری تعمیرات، اسٹیشنری کی فراہمی پر مکمل پابندی لگارکھی ہے۔ اس شعبے میں بہت سے اہم پروجیکٹس صہیونی قوتوں کے محاصرے کی وجہ سے مکمل طور پر کھٹائی کا شکار ہوچکے ہیں۔
غزہ کے محاصرے کے خلاف شدید احتجاج کرنے والی عوامی کمیٹی کے صدر ”جمال خضری“ کا کہنا درست ہے: اسرائیل کی حمایت تو امریکا، برطانیہ سمیت کئی طاقت ور ممالک ڈنکے کی چوٹ پر کر رہے ہیں لیکن فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں 58 اسلامی ممالک خصوصاً عربوں کی طرف سے جاندار آواز اُٹھائی جارہی اور نہ ہی سفارتی سطح پر کوئی موٴثر تحریک نظر آتی ہے۔ ایسے میں اسرائیل کے صہیونی 62 ویں سالگرہ پر جشن نہ منائیں تو کیا کریں؟