نیو یارک کے سابق مئیر جس کی نس نس میں صہیونی نسلی برتری کا جنون بھرا ہوا ہے اورجس کی سوچ یہ ہے کہ اسرائیل میں فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے ہر کوشش جاری ر ہنی چاہئیے لیکن عالم انسانیت کو اس پر تنقید کا حق بھی نہیں ہے اور نہ ہونا چاہئیے۔ایسی ہی ایک سوچ کا ایک اور شخص بھی ہے،جو اس شخص سے کم مکروہ عزائم نہیں رکھتا ہے۔ بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ شخص صہیونی بیمار ذہنیت کا ایک چلتا پھرتا نمونہ ہے۔
لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بہت سارے امریکیوں کیلئے یہ شخص جو” ایلی ویزل "کے نام سے مشہور ہے،دانشور، ملک الشعرا،عامل اخلاق،انصاف اور انسانیت کے فروغ کیلئے جدوجہد کرنے والا مسیحا کے روپ میں موجود ہے۔ لیکن دنیا کے لاکھوں کروڑوں لوگ جانتے ہیں کہ ویزل مسیحا نہیں بلکہ ایک متعصب نسل پرست،او ر بڑا ہی کذاب شخص ہے جو دقیانوسی صہیونی نظریات کو انسانی اقدار پر اہمیت دینے کا نہ صرف حامی ہے بلکہ ایک وکیل ہے۔
یہ وہی شخص ہے جس نے متعدد موقعوں پر کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ میںفلسطینیوںاور دیگر لوگوں کے ساتھ ہورہے اسرائیلی مظالم کی تنقید نہیں کر سکتا۔ اگر وہ اسرائیلی مظالم کی تنقید نہیں کرسکتا ،ٹھیک ہے نہ کرلے لیکن پھر اس شخص کو دانشور، انسانی اقدار کا علمبردار،عامل اخلا ق ،راست باز وغیرہ وغیرہ کے القابات سے نوازنا دراصل صہیونی پروپیگنڈے کے جال میں پھنسنے کے ہی مترادف ہے۔
ویزل سالہا سال سے اسرائیلی نسلی عصبیت اور ان کے جرائم کی پردہ پوشی کرنے میں سرگرم ہے۔نہ صرف "نائٹ”نامی کتاب کا یہ مصنف نازی مزاج اسرائیلی فوج کے جرائم ،جن میں ہزاروں فلسطینیوں اور لبنانیوں کو موت کے گھاٹ اتارنا، ہزاروں فلسطینیوں کو عمر بھر کیلئے معذور کرنا ، جن میں معصوم بچے بھی شامل ہیں ،پشتنی باشندوں کے گھر تباہ و برباد کرنے کے واقعات سے چشم پوشی کرنے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ الٹا اسرائیل کی ننگی بر بریت اور ان جرائم کا دفاع بھی کر رہا ہے
لیکن اس ننگی جارحیت،بربریت اور سنگین جرائم کا جیسا کہ پچھلے سال غزہ پٹی میںاس کا مظاہرہ ہوا کا دفاع کرنے اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے زبردست قسم کی کذب بیانی کی ضرورت ہوگی اور یہ ذمہ داری ویزل جیسے لوگوں پر ہی ڈالدی گئی ہے۔اور یہ واضح ہے کہ ویزل بخوبی اپنا یہ کردار پوری مستعدی سے نبھارہا ہے
صہیونی حامی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ایک پورے صفحے پر،ویزل کا یہ جھوٹ کا پلندہ ایک پورے اضافی صفحے پرشائع ہوا ہے۔اس میں اس نے امریکاکی طرف سے اسرائیل پر "سیاسی دباؤ”کی نقط چینی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس طرح کا دباؤ قائم کرنے سے مقبوضہ بیت المقدس کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔
اس پوچھا جاسکتا ہے کہ پھر مسئلہ کس طرح حل ہوگا۔کیا صہیونی درندوں کو فلسطین سے وہاںکے پشتنی باشندے عربوں کو نکالنے کی اجازت دے کر اور انہیں صحرؤں میں پھینک کر یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔یا پھر قومی تعصبات کی بنا پر لوگوں کو ان کا گھر چھوڑنے پر مجبور کرنے کے عمل سے،جومقبوضہ بیت المقدس میں اس وقت جاری ہے ،یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔یا پھر مسلمانوں اور عیسائیوں کے متبرک مقامات کو کو تباہ و بربادکرکے اس مسئلے کا حل نکا لا جاسکتا ہے
ویزل کہتے ہیں”میں یہودی ہوں اور میرے لئے مقبوضہ بیت المقدس کا معاملہ سیاست سے بالا تر ہے۔اس کا ذکر انجیل مقدس میں 600مرتبہ سے زیادہ ہوا ہے،جب کہ قرآن پاک میں اس کا سرے سے ذکر ہی نہیں”
حالانکہ اس جھوٹے شخص کو انجیل مقدس کا حوالہ دینے کا بھی کوئی حق نہیں کیونکہ جس انجیل کا وہ ذکر کررہے ہیں اسی میں درج ہے کہ جھوٹ مت بھولا کریں ۔اور یہ بالکل جھوٹ ہے کہ بیت المقدس کا قرآن میں ذکر نہیں ہے۔بلکہ قرآن پاک میں ایک سورت ہی بنی اسرائیل کے نام سے موجود ہے جس میں ان کے جرائم کی داستان بھی بیان کی گئی ہے
(1پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک(مسجد الاقصیٰ) جس کے ما حول کو اس نے برکت دی ہے ،تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔حقیقت میں وہی سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔
(2ہم نے اس سے پہلے مو سیٰ کو کتاب دی تھی اور اسے بنی اسرائیل کے لئے ذریعہ ہدایت بنایا تھا ،اس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا
(3تم ان لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا۔اور نوح ایک شکر گذار بندہ تھا۔
(4پھر ہم نے اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اس بات پر بھی متنبہ کردیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین پر فساد عظیم برپا کروگے اور بڑی سرکشی دکھائو گے(اور دونوں مرتبہ اس کی سزا پائو گے)
(5آخر کار جب ان سے پہلی سرکشی کاموقع پیش آیا ،تواے بنی اسرائیل ،ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے ایسے بندے اٹھائے جو نہایت زور آور تھے اورتمہارے ملک میں گھس کر ہر طرف پھیل گئے ،یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہوکر ہی رہنا تھا۔
(6اس کے بعد ہم نے تمہیں ان پر غلبے کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھادی
(7دیکھو تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لئے بھلائی تھی ،اور برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کیلئے برائی ثابت ہوئی۔پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اورآپ کی عبادت گاہ میں اسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر بھی ان کا ہاتھ پڑے اسے تباہ کر کے رکھدیں۔
(8ہوسکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر رحم کرے ،لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی پھر اپنی سزا کا اعادہ کریں گے،اور کافِر نعمت لوگوں کیلئے ہم نے جہنم کو قید خانہ بنا رکھا ہے۔
(9حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے ۔جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بڑا اجر ہے۔
دوسری اہم بات یہ کہ کسی جگہ یا مقام کا کسی مذھبی کتاب میں متعدد بار ذکر ہونے کا مطلب ضروری نہیں کہ اس کی حقیقت میں زیادہ ہی اہمیت ہو۔مثلاََ مکہ شریف کا قرآن پاک میںصرف چند بار ذکر ہوا ہے ،لیکن اسلامی دنیا کو مکہ مکرمہ ساتھ ایک جذباتی اور ایمانی رشتہ ہے اور اس شہر کی ایک اپنی اہمیت ہے۔
اس اخبار کے اس اضافی صفحے میں ناقابل اصلاح کذاب ویزل نے دعویٰ کیا ہے کہ”بیت المقدس میں یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کو کہیں بھی جہاں وہ چاہیں، گھر بنانے کی اجازت ہے اور یہ صرف اسرائیل کی خود مختار مملکت میں ہی ممکن ہے کہ ہرمذاہب کے لوگوں کیلئے مقبوضہ بیت المقدس میں مذھبی رسوم ادا کرنے کی کلی آزادی ہے”
جھوٹ کو زبان کی زناکاری کہا جاتا ہے ،مغربی دنیا کی رائے عامہ کو اپنے نظریات کے حق میں کرنے کیلئے ویزل جیسے صہیونی وکلاء اسی جر م کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے انہیں بالکل کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔وہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم رکھتے ہیں ۔
ویزل سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا اس مسئلے کا حل ہے ،جواب دیتا ہے "ہاں۔۔حل ہونا چاہئے اور حل ہوگا”!!!
اور حل کے متعلق اس کی وہی سوچ ہے جس میں فلسطینیوں کے حقوق کا سرے سے کوئی ذکر نہیں ۔انصاف کی تشریح اس وقت ویزل کے سامنے بے معنیٰ ہوجاتی ہے جب غیر یہودی کی بات آتی ہے۔منافقانہ طرزعمل اختیار کرتے ہوئے وہ عملاَمطالبہ کرتا رہتا ہے کہ فلسطینیوں کے پاس رہی سہی زمین اور اور ان کی جائیدادیں مکمل طور پر ان سے چھینی جائیں۔بیان کرتے ہیں”کیوں ایک پیچیدہ اور حساس مسئلے کو عجلت میں حل کر نے کی کوششیں ہورہی ہیں،کیوں نہ پہلے اقدامات کے طور پرفلسطینی اور یہودی ایسے راستے ڈھونڈنے کی کوشش کریں جہاںوہ امن کے ماحول میں ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکیں،کیوں نہ پیچیدہ اور حساس معاملات کو فی الحال ایک طرف رکھا جائے”
کس طرح نام نہاد دانشور، ،انسانی اقدار کا علمبردار،عامل اخلا ق ،راست بازشخص عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونک کر صہیونیوں کو فلسطینیوں کا مکمل صفایا کرنے کی مہلت دینے کی کو ششوں میں لگا ہے۔تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے با نسری۔جب فلسطینیوں کا مکمل صفایا ہی ہوگا تو پھر بات چیت اور مذاکرات کی نوبت ہی نہیں آئیگی۔میں حیران ہوں کہ مغرب میں ابھی بھی بعض لوگ اس پر اعتراض کیوں کرتے ہیں،جب یہ کہا جاتا ہے کہ”صہیونی اس دور کے نازی ہیں "