اوبامہ حکومت کی بات قطعی نظر انداز کر دی گئی۔ امریکی اور برطانوی میڈیا نے بالخصوص اوبامہ پر تنقید شروع کر دی۔ یو ایس نیوز کے مورتمر ایکر مین نے مشرقی بیت المقدس میں ان بستیوں کی تعمیر کو اسرائیل کا حق قرار دیا۔ اس علاقے کے بارے میں بش حکومت نے اسرائیل سے مل کر یہ طے کر لیا تھا کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا ہمیشہ حصہ قرار دیا جائے گا۔ اوبامہ حکومت کی طرف سے یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے مطالبہ کو اس ”ہم آہنگی” کے منافی قرار دے دیا گیا۔
اسرائیل نے امریکہ کا یہ مطالبہ بھی مسترد کر دیا کہ اس کے نائب صدر جوبائیڈن کی اسرائیل یاترا پر ہی یہ کام عارضی طور پر روک دیا جائے۔ نیتن یاہو نے اسے یکسر نظر انداز کر دیا۔ 1995ء میں امریکہ نے اسرائیل کا قبضہ تسلیم کرتے ہوئے کانگریس میں ایک قانون منظور کیا تھا جسے یروشلم ایمبسی ایکٹ کا نام دیا گیا۔ اس ایکٹ کے تحت اسرائیل کا قبضہ تسلیم کر لیا گیا اور امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کی منظوری دی گئی۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ امریکہ مقبوضہ بیت المقدس پر اسرائیل کا غیر مشروط قبضہ تسلیم کرتا ہے۔
صدر اوبامہ نے اپنے عہد صدارت کے آغاز سے ہی اسرائیل کو ایک اہم ایشو قرار دیا۔ اسرائیل کو یہ بھی اعتراض تھا اور ہے کہ نئی بستیوں کو بستیاں نہ کہا جائے بلکہ اس کو باقاعدہ آبادی تسلیم کیا جائے۔ محمود عباس سے ہونے والے مذاکرات میں اس وقت تعطل آ گیا جب یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے سے یکسر انکار کر دیا گیا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس پورے کا پورا اس کا حصہ ہے۔ اس پر اس کے مطابق 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اُردن کے لوگوں نے قبضہ کر کے اس کے مشرقی حصے پر تسلط جما لیا تھا۔ گویا یہ اُردنی باشندے تھے، فلسطینی نہیں تھے۔ اس طرح اسرائیل فساد کا سلسلہ یہیں سے شروع کرتا ہے۔ اسرائیل نے چھ روزہ جنگ میں مقبوضہ بیت المقدس کے مشرقی حصے پر بھی قبضہ کر لیا تھا، اس کے علاوہ اس نے مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور سینائی علاقوں پر بھی اپنا تسلط جما لیا۔
اس سازش میں امریکہ اور برطانیہ اس کے بڑے حلیف تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ صرف اسرائیلی اقتدار میں ممکن ہوا کہ 1967ء سے اب تک مسیحی اور مسلمان بھی ان مقدس مقامات پر آزادانہ آتے اور اپنے مذہب پر عمل کرتے ہیں۔ تاریخ اس بات کی سب سے بڑا مخالف بن کے سامنے آتی ہے جب انہی علاقوں میں مسلمانوں پر زندگی اجیرن کر دی گئی، انہیں زبردستی ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔ اسرائیلی حمایت میں لکھنے والے یورپی صحافی لکھتے ہیں کہ 1948ء سے لے کر 1967ء تک اُردن کا اقتدار اِن علاقوں پر ظلم اور بربریت کی مثال بنا رہا۔ اُردن نے یہودی عبادت گاہوں کے پتھر تک چوری کر لیے اور انہیں اپنے ملک میں سڑکوں کی تعمیر میں استعمال کیا۔ اشتعال دلانے اور دروغ گوئی سے کام لینے کی تو اسے ایک مثال کہا جا سکتا ہے، تاہم تاریخی حقائق مسخ کرنے میں اسی طرح کے دلائل صہیونیت کے حق میں دیے جاتے ہیں۔ مسیحی آبادی کو ساتھ ملانے کے لیے کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے چھوٹے چھوٹے بہت سے گرجا گھر گرا دیے اور وہاں مساجد تعمیر کر لی تھیں یا پھر ان کے ساتھ ساتھ ایسی مساجد تعمیر کی گئیں جن کے مینار یہودی اور مسیحی عبادت گاہوں سے بہت بلند تھے۔
اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے فوری بعد ہی یہودی بستیوں کی مقبوضہ بیت المقدس میں تعمیر کا آغاز کر دیا تھا۔ یہ بھی دعویٰ مغربی میڈیا کرتا ہے کہ اتنی تعداد میں یہودی بستیاں تعمیر نہیں کی گئیں جس پیمانے پر مسلمانوں نے اپنی نئی آبادیاں یہاں تعمیر کیں۔ انہی مغربی اخبارات کے صفحات میں یہ گواہی موجود ہے کہ فلسطینی ہجرت پر مجبور کر دیے گئے۔ یہودی دنیا بھر سے لا کر آباد کیے گئے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس ، جسے وہ مقبوضہ نہیں کہتا، زمین کا محض ایک ٹکڑا نہیں ہے۔ شاہ داؤد نے اس شہر کو ساڑھے تین ہزار سال پہلے تعمیر کیا تھا۔ تب سے یہودی یہاں رہے ہیں، کام کرتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں۔ وہ اسے صہیونیت کا مرکز اور سیاسی دارالحکومت سے زیادہ روحانی مرکز قرار دیتے ہیں۔ سلطنت روما نے اسے تباہ و برباد کر دیا تھا۔ دو ہزار سال قبل یہودیوں کو وہاں سے ”بے دخل” کر دیا گیا۔ جب بھی کوئی یہودی دعا مانگتا ہے تو مقبوضہ بیت المقدس واپس جانے کا عہد دھراتا ہے۔ یہ ہر یہودی کی ہر دعا کا لازمی حصہ ہے، اس کے بغیر دعا نہ مکمل ہوتی ہے اور ان کے بقول نہ ہی قبول ہوتی ہے۔
صہیونی صحافیوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بیت المقدس پر مسلمانوں نے کسی بھی طرح سے مثبت اثرات نہیں چھوڑے۔ وہ مکہ مکرمہ کو قبلہ مانتے تھے، بیت المقدس کو نہیں۔ حالانکہ آج بھی قبلۂ اول کی بازیابی دنیا کے ہر مسلمان کی زندگی میں ایمان اور عقیدے کی جگہ رکھنے والا عزم ہے۔ ان کا یہ بھی عجیب و غریب دعویٰ ہے کہ مسجد اقصیٰ 688ء عیسوی میں تعمیر کی گئی۔ گویا ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال 632ء میں ہوا، اس لیے مسجد اقصیٰ ان کے تقریباً 50 سال بعد تعمیر کی گئی۔ یہ بالکل بابری مسجد اور رام مندر کی طرح کی کہانی ہے جسے یہ مفکرین، مبصرین اور تجزیہ نگار بڑی ڈھٹائی سے پیش کرتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر تاریخ کو جھٹلانے والے یہ سارے صہیونی دانشور صلیبی حکمرانوں کا قبضہ تسلیم کرتے ہیں تاکہ انہیں بھی آؤٹ سائیڈ کے طور پر پیش کیا جائے، لیکن یہ دعویٰ تو بالکل حیران کن ہے کہ مسلمانوں نے صلیبی جنگوں کے بعد مسجد اقصیٰ کو قبلۂ اول قرار دیا۔
ان عجیب و غریب دلا ئل سے وہ مقبوضہ بیت المقدس کو ہمیشہ سے ہی اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔ ایک اور دعویٰ یہ ہے کہ 1948ء میں اسرائیل کے بناتے وقت یہاں ایک لاکھ یہودی آباد تھے جبکہ مسلمانوں کی تعداد محض 65 ہزار تھی۔ خود یہودیوں کی کتابیں اور تھیوڈ رہرذل کے ساتھیوں کے بیانات بتاتے ہیں کہ فلسطینی آبادی کو انتہائی ظلم و تشدد کے ساتھ وہاں سے نکالا گیا۔ یہ دانشور کہتے ہیں کہ اب شہر میں کوئی فلسطینی نہیں، صرف اسرائیلی اور یہودی آباد ہیں۔ یہ سب کے سب ایک نئے اور جدید اسرائیل کے وفادار ہیں۔ ان کا فلسطینی مطالبات سے دور نزدیک کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
اسرائیل تازہ بستیاں رامات اور شلومو کے علاقوں میں بنا رہا ہے۔ اس کے مطابق یہ وہاں پر آباد کیے جانے والے یہودیوں کا پیدائشی حق ہے۔ یہ بھی حیرت انگیز امر ہے کہ نجانے کیوں ہر مرتبہ مذاکرات میں فلسطینی ان علاقوں اور بستیوں کو زیر بحث لے آتے ہیں حالانکہ ان پر تو بحث کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں۔ ان علاقوں میں رامات کی نئی بستی کو صدر اوبامہ نے ”بستی” قرار دیا تو اس پر شدید تنقید کی گئی۔ اس کی دلیل میں کہا گیا کہ سابقہ امریکی حکومت یہ معاہدہ کر چکی تھی کہ یہ سب درست ہے اور اسرائیل یہ ”بستیاں” نہیں بسا رہا بلکہ اپنے علاقوں کو ترقی دے رہا ہے اور بہتر بنا رہا ہے۔
تاہم نیتن یاہو نے یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے مطالبہ کو یکسر مسترد کر دیا۔ یہ کوشش بھی کی جاتی ہے کہ مذاکرات سے پہلے ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے پاس آپشنز کم سے کم ہوتے جائیں۔ امریکہ ان اقدامات کو خاموشی سے دیکھتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک بیان جاری کر دیا جاتا ہے جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ان اقدامات سے وہ باز رہے۔ ان بیانات کی بازگشت بھی ختم نہیں ہوتی اور اقدامات مکمل ہو جاتے ہیں۔