یکشنبه 11/می/2025

فلسطین کی تازہ صورتحال

بدھ 12-مئی-2010

”مسئلہ فلسطین جس تشویشناک صورتحال سے گرز رہا ہے اور غزہ کے شہری جس نوعیت کی مشکلات کا شکار ہیں ان کاتصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔غزہ کی شہریوں کی بھوک اور افلاس کی ذمہ دار صرف صہیونی ریاست نہیں بلکہ عرب ممالک بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔اسرائیل اپنے مکروہ فریب کے ذریعے خطے کے ممالک کی طرف بڑھ رہا ہے، اور عرب ممالک کو علاقائی جنگوؤں میں الجھا کر عالم عرب کو اپنے اندر جذب کرنا چاہتا ہے۔”

قارئین ! مذکوربالا خیالات کا اظہارمصر کے عربی زبان کے معروف ادیب ”محمد حسین ہیکل”نے میڈیا کے نمائندوں سے ایک ملاقات میں کیا۔ جس کالفظ لفظ مسلمان دانشوروں کی ترجمانی کا عکاس اور آئینہ دار ہے۔اپنے انٹرویو میں انہوں نے جہاں اہل غزہ اور عرب ممالک کی حالت زار پر دہائی دی ہے ، وہیں اپنے ماردوطن مصر کے حکمرانوں کی پالیسیوں پر سخت تنقید اور نکتہ چینی کی ہے۔ سردست اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیاںکا نشانہ غزہ کے مکین ہیں۔

”غزہ”کی معاشی اور اقتصادی ناکہ بندی میں اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی تمام ریاستوں کا تعاون حاصل ہے۔ اس ناکہ بندی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال انتہائی المناک اور اندوہناک ہے کہ تاریخ انسانی میں اس کی نظیر مثال نہیں ملتی ہے۔ دواؤں کی قلت اور عدم دستیابی کی بناء پر معصوم کلیاں مرجھا رہی ہیں ، بے ہوش کن ادویات کے فقدان کی وجہ سے عورتوں اور بچوں کے آپریشن بیداری کے عالم میں کیے جا رہے ہیں۔

واحد پاور پلانٹ اسرائیلی بمباری کی نذر ہو چکا ہے، اور باہر سے فالتو پرزے منگوانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔جبکہ دوسری جانب مصر اہالیان غزہ پر عرصہ حیات تنگ کرنے کیلئے زیر زمین آہنی دیوار کی تعمیر میں مصروف کار ہے، چالیس فٹ گہری اس رکاوٹ کا مقصد ان سرنگوں کی بندش ہے جن کے ذریعے فلسطینی خوارک و ادویات غزہ کی پٹی میں لاتے ہیں ۔واضح رہے کہ اس دیور کی تعمیر کے اخراجات و مصارف صاحب بہادر برداشت کر ر ہے ہیں۔ استقامت و عزیمت اور صبرو حوصلہ جیسی پیغمبرانہ صفات کے عملی مظہر ، فلسطینی مسلمان خوراک، ادویہ اور ہر طرح کی بیرونی امداد کی قلت کے باوجود قبلہ اول کی حفاظت سے غافل نہیں۔ یقینابے باکی ، بے خوفی اور علوہمتی کے ہتھیار سے لیس غیور فلسطینی مسلمانوں کے ہاتھوں بیت المقدس کی آزادی کی خشت اول ،رب ذوالجلال کی جا نب سے رکھ دی گئی ہے۔

اسرائیل اور مغربی کنارے کی غیر آئینی حکومت فتح نے غزہ کے ہسپتالوں کیلئے تین لاکھ ٹن خام تیل کی فراہمی بند کر دی ہے۔ساتھ ہی ساتھ اسرائیل کی طرف سے بڑے حجم کے یو پی ایس غز ہ کے ہسپتالوں کو دینے پر بند ش لگا دی گئی جس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا ہولناک المیہ کئی انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن سکتا ہے۔
دوسری طرف اسرائیل کی قابضانہ ذہنیت اور عملی کردار میںکس قدر تصاد ہے اس کا اندازہ ایک ساتھ آنے والی دو رپورٹوں میں ایک ساتھ لگایا جا سکتا ہے۔ جن میں ایک جانب اسرائیلی وزیردفاع ایہود باراک یہ بات دہراتے ہیں کہ امریکا سے بڑھتی ہوئی دوریاں ختم کرنے کیلئے اسرائیل کو فلسطینیوں کی زمین سے قبضہ ختم کر دینا چاہیے۔ لیکن تصویرکا دوسرا رخ یہ ہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے سے دو سو فلسطینیوںکو بے گھر کر دیا ہے۔فلسطینی مجلس قانون ساز کے اسپیکر ڈاکٹر عزیز دویک نے بے دخلی کے ظالما نہ اقدامات کو فلسطینیوں کے خلاف گھناؤنا جرم قرار دیتے ہوئے اسے اہالیان فلسطین کے خلاف ”نکبہ”ناجائز اسرائیلی ریاست کے قیام کا دن قرار دیا ہے۔انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل ایک قابض اور توسیع پسند ریاست ہے ، جو کسی عالمی قانون اور معاہدوں کی پاسدار نہیں ہے۔

فلسطین پر اسرائیلی قبضہ کا بنیادی مقصد اپنی کھوئی ہوئی نام نہاد شناخت کا دوبارہ حصول ، جس کیلئے” تلاش لا حاصل ”کا بکھیڑا بکھیر کر مسجد اقصیٰ کے اردگردسرنگیں کھودی گئیں۔دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ تورات کی بنیادی تعلیمات کے مطابق یہاں یہودی آثار پائے جاتے ہیں لیکن اب ذرہ بھر حصہ بھی قدیم عبرانی تاریخ سے اپنا تعلق نہیں جوڑ پایا۔

جس کا اعتراف اسرائیلی ماہرین تعمیرات نے کر کے اپنی ”ابدی دروغ گوئیوں”پر مہر تصدیق بزبان”تحقیق آثار قدیمہ” ثبت کر دی۔

جہاں تک اسرائیل اور فلسطینی تنازعے میں امریکا کی ثالثی اور اس کی غیر جانبداری کا تعلق ہے تو وہ امریکی صدر براک حسین اوباما کے اس بیان سے اپنا آپ منواتی نظر آتی ہے کہ جس میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں انکشاف کیا تھا کہ ”فلسطین کی تاریخی سرزمین یہودیوں کا تاریخی وطن ہے۔” خود اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہونے یہودیوں بستیوں کی تعمیر سے امریکا اور اسرائیل کے مابین پیدا ہونے واکے کھنچاؤ سے متعلق کہا تھا کہ ”اسرائیل سے نااتفاقی کے باوجودامریکا اسرائیل کی حمایت کرتا رہے گا۔

ان چشم کشا حقائق کی روشنی میںکیا اسرائیل اور فتح حکام کے درمیان ”سلامتی”کے حالیہ عمل میں امریکا ایماندار ثالث کا کردار ادا کرپائے گا؟ جبکہ امریکی وعدے صرف وعدے ہیں جو ایک خواب کی طرح ہیں جن کا حقیقیت کی دنیا سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

مختصر لنک:

کاپی