جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیلی دہشت گردی اور امریکی پشت پناہی

ہفتہ 5-جون-2010

بین الاقوامی سمندری حدود میں پچاس ملکوں کے سات سو امدادی کارکنوں کے خلاف اسرائیل کی درندگی اور خونخواری کے بدترین مظاہرے پر جس نے بحری قزاقوں کی سفاکی اور سنگ دلی کی داستانوں کو مات کردیا ، پوری دنیا چیخ اٹھی ہے مگر امریکی حکومت اسرائیل کی اس کھلی ریاستی دہشت گردی پر بھی اس کی مذمت سے بچنے اور اس کی پشت پناہی کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔چنانچہ گزشتہ اتوار کی صبح غزہ کے مظلوم محصورین کیلئے غذائی اشیاء، ادویات اور تعمیراتی سازوسامان لے جانیوالے چھ کشتیوں کے قطعی پرامن اور غیر مسلح قافلے پر ،جس میں ایک نوبل انعام یافتہ شخصیت اور ہولوکاسٹ میں بچ رہنے والے ایک بزرگ یہودی کے علاوہ اسرائیل سمیت مختلف ملکوں کے ارکان پارلیمنٹ، اہل قلم، اساتذہ اور صحافی وغیرہ شامل تھے، اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملے میں درجنوں افراد کے ہلاک و زخمی ہونے کے بعد ابتدائی بارہ گھنٹوں تک خاموشی اختیار کیے رکھ کر دنیا کو بدل ڈالنے کے دعووں کے ساتھ اقتدار میں آنے والے امریکی صدر اوباما نے جو پہلا ردعمل ظاہر کیا وہ یہ تھا کہ وہ ”اس صبح کے ان المناک واقعات کے حوالے سے تمام حقائق“ جاننے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اس کے بعد سلامتی کونسل کی قرارداد میں بھی امریکا کی مداخلت کی بناء پر اسرائیل کی برملا بہیمیت کے باوجود نہ اسے ان واقعات کا ذمہ دار قرار دیا گیا اور نہ اس کی مذمت میں ایک لفظ شامل کیا جاسکا۔

صدر اوباما کے ترجمان رابرٹ گبس سے جب براہ راست پوچھا گیا کہ” کیا آپ کے باس بین الاقوامی پانیوں میں کھیلے گئے اس ڈرامے پر جس میں اسرائیلی کمانڈوز کے ہاتھوں نو افراد ہلاک ہوئے، اسرائیل کی مذمت کریں گے ؟“ تو گبس نے نہایت محتاط انداز اپناتے ہوئے خود کو سلامتی کونسل کی قرارداد کے الفاظ تک محدود رکھا۔ انہوں نے کہا کہ” کونسل کے بیان میں ان افعال کی مذمت کی گئی ہے جو دس شہریوں کی ہلاکت اور متعدد کے زخمی ہونے کا سبب بنے مگر یہ وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ اس کی وجہ اسرائیلی اقدام تھا۔ سلامتی کونسل نے اس معاملے کی بین الاقوامی معیارات کے مطابق فوری، غیرجانبدارانہ اور قابل اعتبار تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے اور امریکا واضح طور پر اس کا حامی ہے۔“

دلچسپ بات یہ ہے کہ سلامتی کونسل کے روس اور چین سمیت کئی دوسرے ارکان کے برعکس امریکا کی کوشش ہے کہ اپنے خلاف الزامات کی تحقیقات کا کام بھی اسرائیل ہی کے سپرد کردیا جائے۔ چنانچہ امریکی وزیر خارجہ مسز کلنٹن نے غیرمبہم لفطوں میں کہا ہے کہ ”واشنگٹن اسرائیلی تحقیقات کی حمایت کرتا ہے جو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہو۔ہم قابل اعتماد تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی شراکت سمیت مختلف راستے اپنانے کو تیار ہیں۔“ وزارت خارجہ کے ترجمان فلپ کراوٴلے نے وزیر باتدبیر کے اس ارشاد کے اسرار و رموز اور حکمت و مصالح یوں بیان فرمائے ہیں کہ ”یہ اسرائیلی افواج ہی تھیں جنہوں نے یہ اقدام کیا، لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اس بات کی تحقیقات کے لیے سب سے بہتر پوزیشن میں ہیں کہ افواج کو کیا ہدایات دی گئی تھیں، جب وہ کشتیوں کے قافلے تک پہنچیں تو صورت حال کیا تھی،اور جہاز کے اندر کیا ہو اتھا۔“

کیسا عمدہ اصول ہے کہ تحقیقات کی ذمہ داری مجرموں اور ملزموں ہی کو سونپ دی جائے۔ دنیا کی تمام عدالتوں اور تحقیقاتی اداروں کو اب یہ اصول اپنا کر خود آرام کرنا چاہیے۔ حقائق کو جاننے کا اس سے بہتر طریقہ بھلا کیا ہوسکتا ہے کہ قاتل، لٹیرے، ڈاکو، خائن خود ہی تحقیقات کرکے بتادیں کہ انہوں نے جرم کا ارتکاب کس طرح کیا۔ امریکی حکمراں اس نکتہ رسی پر قابل داد ہیں تاہم ایسے دانش مند حکمرانوں کے دیس میں ایسے ناسمجھ لوگ بھی ہیں جو اپنے حکمرانوں کے اس رویے کو اسرائیل کے جرم میں شرکت کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک سابق نائب امریکی وزیر خزانہ پال کریگ رابرٹس بھی ہیں۔

”برائی میں امریکا کی شرکت“ کے عنوان سے انہوں نے اپنے ایک تازہ کالم میں لکھا ہے کہ ”امریکی حکومت نے اسرائیل کو ایک بار پھر اچھے لوگوں کو ، جو اپنی زندہ ضمیری کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں،قتل کرنے کی اجازت دے دی ہے۔اسرائیلی ریاست اعلان کرچکی ہے کہ ہر وہ شخص جس کا ضمیر زندہ ہے، اسرائیل کا دشمن ہے، اور آئزن ہاور اور کارٹر کے سوا ہر امریکی صدر نے اس سے اتفاق کیا ہے۔“اس حق گو امریکی دانشور کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اپنے جرم سے انکار نہیں کیا بلکہ اس کی جانب سے جرم تسلیم کیا جاچکا ہے۔اپنے اس دعوے کی دلیل انہوں نے یوں پیش کی ہے۔

”جرائم پیشہ اسرائیلی ریاست اپنے بحری قزاقی کے جرم سے انکار نہیں کرتی۔اسرائیلی فوج کی خاتون ترجمان Avital Leibovich نے تصدیق کی ہے کہ حملے کی یہ کارروائی بین الاقوامی پانیوں میں عمل میں آئی۔اس کے الفاظ ہیں”:یہ واقعہ اسرائیل کے علاقائی حدود سے باہر پیش آیا، لیکن ہم اپنے دفاع کا حق رکھتے ہیں۔”امریکی اور ان کی کٹھ پتلی مغربی یورپی اور کنیڈا کی ریاستوں پر، جی حضوری کرنے والے میڈیا کے ذریعے اسرائیلی پروپیگنڈہ مشینری کی گھڑی ہوئی کہانی کو تسلیم کرلینے کے لیے دباوٴ ڈالا جائے گا یعنی یہ کہ انسانی امداد کے جہاز میں دہشت گرد سوار تھے جو غزہ کے فلسطینیوں کے لیے ہتھیار لے کر جارہے تھے، اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا روپ دھارنے والے دہشت گردوں نے اسرائیلی کمانڈوز پردو پستولوں اور چاقووٴں سے حملہ کیا تھا۔بہت سے امریکی اس کہانی کو ہچکی لیے بغیر نگل جائیں گے۔“

بین الاقوامی سمندر میں پیش آنے والے اس خوں ریزاور المناک واقعے کو تحقیقات کے نام پر الجھا کر اسرائیل کو بچانے کی کوشش کرنے والے امریکا کو، برطانوی صحافی جوناتھن کک نے صورت حال کے ایک نہایت مختصر تجزیے کے ذریعے ناک آوٴٹ کردیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے معصومیت کے دعوے کو چند سادہ حقائق کی کسوٹی پر بڑی آسانی سے پرکھا جاسکتا ہے، جو یہ ہیں:
 
۱) اسرائیلی سپاہیوں نے ان جہازوں پر بین الاقوامی پانیوں میں حملہ کرکے بین الاقوامی قانون توڑا اورشہریوں کو قتل کیا، اس طرح انہوں نے جنگی جرم کا ارتکاب کیا۔ لہٰذااسرائیلی کمانڈروں کا یہ جوابی دعویٰ کہ ان کے سپاہیوں نے شہریوں کی جانب سے اچانک مارپیٹ شروع کردیے جانے پر اس کا جواب دیا، پرزور مذمت کے ساتھ مسترد کردیا جانا چاہیے۔

۲) اسرائیلی حکومت نے ان جہازوں پر کمانڈوز کے ایک خصوصی یونٹ کے اتارے جانے کی منظوری دی۔یہ لوگ جہاز پر موجود شہریوں پر قابو پانے کے لیے خودکار ہتھیاروں سے لیس تھے مگر ان کے پاس ہجوم کی جانب سے مزاحمت کی صورت میں اسے منتشر کرنے والے آلات اور سامان نہیں تھا۔ لہٰذاجھگڑے کے اسباب کچھ بھی رہے ہوں، اسرائیل کو لازماً سپاہیوں کو جہاز پر بھیجنے اور اس پر موجود تمام شہریوں کی زندگی کو، جن میں ایک بچہ اور ہولو کاسٹ میں بچ جانے والا ایک شخص بھی تھا، لاپروائی کے ساتھ خطرے میں ڈالنے پر جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
 
۳) اسرائیل غزہ کے سمندر کو اپنے علاقائی پانیوں کی حیثیت سے کنٹرول کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ایسا کرکے وہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اب تک اس محصور علاقے اور اس کے ڈیڑھ کروڑ باشندوں پر محاربانہ طور پر قابض ہے۔اور اگر اسرائیل نے غزہ پر اپنا قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے تو بین الاقوامی قانون کے تحت وہ اس پٹی کے باشندوں کی دیکھ بھال کا بھی ذمہ دار ہے۔ اس حقیقت کی بناء پر کہ اسرائیلی محاصرے نے یہاں موجود فلسطینیوں کو پچھلے چار سال سے بھوک اور فاقہ کشی سے دوچار کررکھا ہے، اسرائیل کو بہت پہلے انسانیت کے خلاف جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے زمرے میں شامل کردیا جانا چاہیے تھا۔“

اسرائیل کے خلاف یہ مختصر مگر نہایت سنگین فرد جرم ثابت شدہ ہے جبکہ افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں کے لیے جھوٹے بہانے گھڑے گئے ۔ اس کے باوجود امریکی حکمراں اسرائیل کی سرپرستی کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ درحقیقت اسرائیل کے تمام جرائم کا اصل سبب وہ خود ہیں ۔ امریکا اور برطانیہ ہی نے اس ناسور کو جنم دیا اور وہی اسے پالتے پوستے چلے آرہے ہیں۔ پال کریگ رابرٹس کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ”اسرائیل ایک قطعی مصنوعی ریاست (artificial state) جو امریکا کے پشت پناہی کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی۔ “ لہٰذاوقت آگیا ہے کہ امریکا کے باشعور شہریوں سمیت دنیا کے تمام انسانیت دوست، انصاف پسند اور انسانیت کی حقیقی ترقی و خوشحالی کے آرزومند لوگ امریکا کی استعماری قیادت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ، اس کے بغیر دنیا میں حق اور انصاف کی بالادستی کی منزل کی جانب کوئی پیش رفت ممکن نہیں۔

 
بشکریہ: روزنامہ جنگ

لینک کوتاه:

کپی شد