ابوطیر نے ’’ مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ عالمی قوانین اور نہ ہی قابض اسرائیل کا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی بھی انسان کو سیاسی مخالفت کی بنا پر اپنی زمین سے دور کر دیا جائے، یہ فیصلہ انتہائی خطرناک ہے جس کی ملکی پارلیمان، عالم عرب کی پارلیمان اورعالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ہر سطح پر شدید مخالفت ہونا چاہیے۔
مقبوضہ بیت المقدس سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان نے انہیں بیت المقدس سے بے دخل کرنے کے صہیونی فیصلوں پر رام اللہ میں عباس حکومت کے کردار پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا ’’ ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں رام اللہ حکام نے بڑی نااہلی کا ثبوت دیا ہے، ہمارا محمود عباس کو پیغام ہے کہ اس معاملے کو نظر انداز کرنا بڑا خطرناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ محمودعباس کو چاہیے تھا کہ وہ اسرائیل کو خط لکھتے اور کہتے کہ فلسطینی قوم کے منتخب نمائندوں کو فی الفور رہا کیا جائے کیونکہ یہ سب جائز طریقے سے منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچے ہیں اور عوامی منتخب نمائندے ہیں انہیں پارلیمانی تحفظ حاصل ہے۔ مگر شدید افسوس کی بات ہے کہ اس معاملے میں فتح حکومت نے معمولی سی بھی کارروائی نہیں کی۔
فلسطینی رکن پارلیمان ابو طیر نے آزاد دنیا، اراکین پارلیمان اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف ٹھوس، سنجیدہ اور فوری عملی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ یہ سب لوگ جمہوریت کے بارے میں اپنے موقف اور پوزیشن کی وضاحت کریں۔
انہوں نے کہا یہ جمہوریت کا شاخسانہ ہے کہ اس قسم کے قانونی نتائج سامنے آئے ہیں، اب سب پر ہمارا ساتھ دینا واجب ہو گیا ہے کیونکہ ہم سب عوام کےمنتخب نمائندے ہیں ورنہ وہ جمہوریت کے بارے میں اپنے رائے پر نظر ثانی کریں۔ اور جمہوریت سے اپنی نسبت ختم کر دیں۔ اسرائیل کے ظالمانہ فیصلے کے خلاف ہمارے ساتھ اظہار یک جہتی کرنا اور اس صہیونی ریاست کے جرائم کے آگے بند باندھنا ضروری ہوگیا ہے۔
انٹرویو کا مکمل متن قارئین ’’ مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کے لیے درج ذیل سطور میں پیش کیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی عدالت نے آپ کو مقبوضہ بیت المقدس سے بے دخل کرنے کا فیصلہ سنا دیا ہے، آپ اس فیصلے کو کیسے دیکھتے ہیں؟
اس اہم معاملے پر بات کرنے پر پہلے تو میں آپ کا شکرگزار ہوں، پھر میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کارروائی انتہائی ظالمانہ کارروائی ہے۔ اس کو جتنا رد کیا جائے کم ہے۔ اسے القدس کے باسیوں پر ظلم کی زندہ مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہمیں ہماری قوم نے منتخب کر کے پارلیمان میں بھیجا ہے، ہم قومی نمائندے ہیں۔ اسرائیل کی ظالم حکومت کبھی نہیں چاہتی کہ مقبوضہ بیت المقدس میں میں ان کے خلاف بولنے والی کوئی آواز ہو۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کے خلاف ان کی یہ کارروائی کوئی نئی بات نہیں۔ اس بابرکت شہر کے خلاف ان کی مذموم کارروائیاں پچھلی کئی دہائیوں سے جاری ہیں، اسرائیلی حکومت اور ان کی خفیہ ایجنسیوں نے ہم سے ایک بات کی تھی کہ ’’ہم 40 سال سے القدس اور اس کے نوجوانوں کے ساتھ معاملات کر رہے ہیں آج سارا شہر اسرائیلی قانون کے تحت آ چکا ہے‘‘ اسرائیلیوں کے اس قول کی بنیاد پر ہم یہ کہ رہے ہیں کہ حالیہ اسرائیلی فیصلے کا اصل مقصد مقبوضہ بیت المقدس کو اس کے اصلی باشندوں سے خالی کرانا اور القدس میں اسرائیل کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانا ہے۔
میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ 2006 ء کے انتخابات کے نتائج نے اسرائیلی حکام کو حیران کر دیا تھا۔ اسرائیلی پچھلے کئی سالوں سے فلسطینی نوجوانوں کو نشے کا عادی بنانے میں مصروف عمل تھے ان کو امید تھی کہ نشے میں دھت فلسطینی ووٹ دینے نہیں نکلیں گے اور نتائج ان کی تمنائیں بر لائیں گے لیکن اس سب کے باوجود بھی بھی مقبوضہ بیت المقدس کے انتخابات کے نتائج ان کی توقعات کے برعکس آئے جس پر صہیونی حکام انتہائی ششدر تھے اور گویا یوں کہ رہے تھے کہ اس شہر کا دفاع کرنے والے کیسے اپنے گھروں سے نکلے؟ ان لوگوں کا تعلق کہاں سے ہے؟ پیارے بھائی، یہ وہ مقام تھا جب انہوں نے واضح طور پر مقبوضہ بیت المقدس میں ہم پر ظالمانہ ہتھکنڈے آزمانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ اسرائیلی اعلی انتظامیہ نے کیا ہے۔ ہم اپنے متعلق کیے جانے والے ہر فیصلے ، چاہے وہ اسرائیلی عدالت نے کیا ہو یا کسی بھی دوسرے اسرائیلی عہدیدار نے، کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔
شیخ اس صہیونی فیصلے کی قانونی توجیہ کیسے کی جائے گی؟
ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے غیر انسانی اور توہین آمیز اقدام کی کوئی ایسی قانونی توجیہ ممکن نہیں ہے جس میں سیاسی بنیادوں پر انسان پر ظلم کیا جائے، یہ انتہائی خطرناک معاملہ ہے، اس قسم کے معاملات کے لیے کسی قانونی گہرائی کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس فیصلے کے لیے کوئی مخصوص قانون موجود ہے۔
اس فیصلے کے پیچھے اسرائیل کا اصل ہدف کیا ہے؟
اس متعصبانہ فیصلے کے پیچھے اسرائیل کا اصل ہدف مقبوضہ بیت المقدس کو اس کے اصل باسیوں سے خالی کرانا، اس شہر میں اس کے یہودیانے کے ہتھکنڈوں کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانا ہے۔ فیصلے کا ایک مقصد شہر کی ہر چیز پر اپنا قبضہ مکمل کرنا بھی ہے تاکہ یہاں پر کوئی بھی ایسا شخص نہ بچے جو اس کے سامنے حرف انکار کے ساتھ کھڑا ہو سکے۔
ہم اس فیصلے کے خلاف سنجیدگی سے کھڑے ہونے والے اہل سلوان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ان کی آواز کو دبانے کے لیے اسرائیلی فوج نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی ہیں، اسرائیل کچھ کر لے اللہ کے حکم سے اس کے تمام حربے ناکام ثابت ہونگے۔ ہمیں شہر سے دور کرنے کی کوشش بیت المقدس میں اسلامی اور عربی وجود کے خلاف اسرائیلی پالیسی کا ایک حصہ ہے۔ بیت المقدس میں ہونے والے مظالم اور خونریزی سے ہمیں دور کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں پر اسرائیلی سازشوں سے پردہ اٹھانے والا کوئی شخص باقی نہ رہے۔ اسی لیے ہمارے خیال میں اسرائیل ہمیں شہر بدر کرنے کے معاملے میں مکمل طور پر سنجیدہ ہے۔
آپ اور مقبوضہ بیت المقدس کی دیگر بڑی شخصیات اس فیصلے کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ کیا آپ سب اکٹھے ہو جائیں گے؟
ہم بیت المقدس کے منتخب اراکین پارلیمان ہیں، ہمیں جان بوجھ کر جیلوں میں بھیجا گیا تھا، مقبوضہ بیت المقدس میں ہمارے گھر والے کم نہیں ہیں، حال ہی میں جاری ہونے والی بیت المقدس کی دستاویز سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ہمارے گھر والے اسرائیلی ناجائز کارروائیوں پر ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔
جمعہ کے روز اعلان کی جانے والی اس دستاویز کا نام ’’ بیت المقدس رابطًہ دستاویز‘‘ رکھا گیا، اس دستاویز کا مقصد شہر کا دفاع کرنا اور وزیر ابوعرفہ اوردیگر اراکین پارلیمان کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنا تھا، اس دستاویز کا اعلان علاقے کے اہم قبائل اور بڑی شخصیات نے کیا تھا جس میں شہر کو یہودی رنگ میں رنگنے کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ اسی طرح منتخب اراکین پارلیمان سے رہائش کا حق چھیننے کے فیصلے پر بھی شدید احتجاج اس دستاویز میں کیا گیا ہے۔ ہم اور القدس میں ہمارے اہل خانہ اس ظالمانہ اور استحصالی فیصلے کے خلاف احتجاج جاری رکھیں گے۔ اس ظالمانہ فیصلے کا مقابلہ کرنے کے لیے عنقریب ہم سب متحد ہو جائیں گے ۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مقبوضہ بیت المقدس اور اس کے باشندوں کے خلاف ظالمانہ سلوک کے اس معاملے میں رام اللہ حکومت نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا ہے؟
منتخب عوامی نمائندوں کی بے دخلی کے اسرائیلی فیصلے پر عالم عرب اور دنیا کی دیگر پارلیمانوں اور حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں سے آپ کا کیا مطالبہ ہے؟
ہم عنقریب تمام ذرائع ابلاغ اور ملکی و بین الاقوامی انسانی حقوق کی توجہ مقبوضہ بیت المقدس میں ہم پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ہمارے خلاف کیے جانے والے اسرائیلی متعصبانہ فیصلوں کی طرف مبذول کروائیں گے، اس ضمن میں کچھ کام ہم نے کر بھی لیا ہے۔
آپ اس صہیونی ریاست کو کیا پیغام دیں گے جس نے آپ کو عقوبت خانوں میں ڈالا اور اب آپکو بیت المقدس سے بے دخل کرنے کا فیصلہ صادر کیا ہے؟
ہم کئی سال اسرائیلی جیلوں میں گزار چکے ہیں ہم ہمیشہ سے اسرائیل کو یہی پیغام دے رہے ہیں کہ وہ اپنے ناجائز ہتھکنڈوں پر نظر ثانی کرے۔ ہم اپنے قانونی حقوق کے ساتھ رکن پارلیمان برقرار رہیں گے۔ ہم اپنے مطالبات اور بیت المقدس کے حقوق سے کسی صورت دستبردار نہیں ہونگے۔ اسرائیل یاد رکھے کہ اس بابرکت شہر پر کی جانے والی جارحیتوں پر ہم ہاتھ باندھے کھڑے نہیں رہ سکتے۔