غزہ جانے والے امدادی قافلے فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی بحریہ کے کمانڈوز کے حملے کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے قافلے کو روکنے کی تیاریوں اور اس کے خلاف تباہ کن کارروائی کے عمل میں سنگین غلطیوں کا ارتکاب کیا تھا۔
اسرائیلی روزنامے یدیعوت احرنوت میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق واقعے کی تحقیقات کرنے والے ایلینڈ کمیشن نے گذشتہ روزایک سو پچاس صفحات پر مشتمل رپورٹ چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل گابی اشکنازی کو پیش کردی ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ کمان کی تمام سطحوں پر افسروں سے کمانڈوز تک غلطیوں کا ارتکاب کیا گیا تھا۔
تحقیقات کاروں نے کہا ہے کہ اسرائیلی بحریہ 31 مئی کو فریڈم فلوٹیلا کے خلاف کارروائی کے وقت اس بات پر غور کرنے میں ناکام رہی تھی کہ فوجیوں کو مزاحمت کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔
ویڈیو فوٹیج کے مطابق جب اسرائیلی کمانڈوز نے امدادی قافلے کی قیادت کرنے والے ترک جہاز ماوی مرمرا پردھاوا بولا تھا تو رضاکاروں نے ان کی مزاحمت کرنے کی کوشش کی تھی اوربعض کمانڈوز کی ڈنڈوں سے پٹائی کر دی تھی جس کے جواب میں اسرائیلی کمانڈوز نے ان پر سیدھی فائرنگ کی تھی۔
فوج کے مطابق بعض کمانڈوز کسی مزاحمت سے نمٹنے کے لیے پینٹ بال بندوقوں اور پستولوں سے مسلح تھے۔ان کی فائرنگ سے نوترک رضاکار شہید ہو گئے تھے۔اس واقعے پر دنیا بھر میں شدید احتجاج کیا گیا ہے اور اس واقعہ کے بعدسے اسرائیل اور ترکی کے درمیان دوطرفہ تعلقات بھی کشیدہ ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج کی تحقیقاتی رپورٹ باضابطہ طور پر آج سوموار کو جاری کی جا رہی ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ ماوی مرمرا پر لڑائی اس وجہ سے ہوئی تھی کیونکہ بحریہ مناسب تعداد میں فورس کو تعینات کرنے میں ناکام رہی تھی۔
تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فوج چھاپہ مار کارروائی کے لیے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ مناسب رابطے میں ناکام رہی تھی اور جو معلومات استعمال کی گئی تھیں،ان میں سقم تھا۔
محاصرہ توڑنے والوں کو روکنے کی دھمکی
اسرائیل نے ترک امدادی جہاز پر وحشیانہ کارروائی کے بعد غزہ کی پٹی کے محاصرے کو توڑنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کی دھمکی دے رکھی ہے۔اس وقت لیبیا کا ایک امدادی جہازغزہ کی جانب رواں دواں ہے جبکہ اسرائیل نے اس کا رخ مصر کی جانب موڑنے کی بہت سفارتی کوششیں کی تھیں۔
اس جہاز کو لیبیا کے لیڈر معمر قذافی کے بیٹ سیف الاسلام قذافی کے زیراہتمام خیراتی ادارے نے چارٹر کیا تھا۔یہ یونان کی ایک بندرگاہ سے غزہ کے لیے روانہ ہوا تھا اور اس پر محصورین غزہ کے لیے خوراک اور ادویہ بھیجی جا رہی ہیں۔
یدیعوت احرنوت اور دوسرے اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ایلینڈ کمیشن کی رپورٹ میں کسی فوجی افسر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ تاہم اس سے بعض سنئیر افسروں کا کیرئیر متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
اسرائیلی کمانڈوز کے حملے کے بارے میں صہیونی فوج کی یہ پہلی رپورٹ ہے،جوشائع کی جا رہی ہے۔اسرائیلی سپریم کورٹ کے ایک سابق جج جیکب ترکل کی سربراہی میں الگ سے ایک کمیشن بھی واقعے کی تحقیقات کر رہا ہے۔اس میں دو بین الاقوامی مبصرین بھی شامل ہیں۔
ترکل کمیشن اسرائیلی حملے اور غزہ کی پٹی کی گذشتہ چار سال سے جاری بری اور بحری ناکہ بندی کے قانونی پہلوٶں کا جائزہ لے رہا ہے۔اس کو بہت محدود مینڈیٹ حاصل ہے اور وہ حملے میں سیاسی فیصلہ سازی کے عمل کا جائزہ نہیں لے سکے گا تاہم جسٹس ترکل یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو بھی بیان دینے کے لیے طلب کریں گے۔
ترکل کمیشن اس امر پر اپنی توجہ مرکوز کرے گا کہ کیا غزہ کا بحری محاصرہ اور فلوٹیلا پر حملہ بین الاقوامی قانون کے مطابق تھا۔ پینل امدادی قافلے کے منتظمین اور اس کے شرکاء کے اقدامات کی بھی تحقیقات کرے گا۔
واضح رہے کہ ترکی نے اسرائیلی بحریہ کے غزہ جانے والے امدادی قافلے پر حملے کو ریاستی دہشت گردی قرار دیا تھا.اس نے واقعہ پر احتجاج کرتے ہوئے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا اور اسرائیل کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں بھی منسوخ کر دی تھیں۔