. ان سے ہونے والی بات چیت قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے……………….اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے سیاسی شعبےکے رکن ڈاکٹر خلیل الحیہ نے محمود عباس کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات کو فلسطینی تحریک آزادی کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے. ان کا کہنا ہے کہ مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کی راہ میں فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات رکاوٹ ہیں، جب تک یہ نام نہاد مذاکرات جاری رہیں گے مسئلہ فلسطین کے حل کی کوئی راہ ہموار نہیں ہو گی.
مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حماس کے راہنما نے فتح کے مسلسل بدلتے رویے پر حیرت کا اظہار کیا اور استفسار کیا کہ ایک طرف فتح اسرائیل سے مذاکرات کے لیے یقین دہانیاں حاصل کرنے کے مطالبات پیش کرتی اور دوسری طرف غیرمشروط مذاکرات کی حمایت بھی کر رہی ہے، کیا یہ دوغلی پالیسی نہیں.
مرکز اطلاعات فلسطین…. ہم اپنی گفتگو کا آغاز آپ کو رمضان المبارک کی بابرکت ساعات کی مبارک باد کے ساتھ کرتے ہیں. اس موقع پرآپ فلسطینی قوم کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ڈاکٹر خلیل حیہ:…. جزاکم اللہ. رمضان المبارک کی آمد پر میں پوری فلسطینی قوم مسلم امہ کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں. میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ماہ مقدس کو تمام مسلمانوں کے لیے رحمت، مغفرت اور جہنم سے آزادی کا ذریعہ بنائے. ہماری خطائیں معاف اور نیکیاں قبول فرمائے. ہمارے مجاہدین کو فتح اور قیدیوں کو صبرواستقامت عطا فرمائے اور تمام مظلوم اور بے گناہ قیدیوں کی راہ ہموار کرے.
مرکز اطلاعات فلسطین:… فلسطینی مصالحت کی کوششیں کہاں تک پہنچیں، کیا ان میں کوئی نئی پیش رفت ہے؟
ڈاکٹر خلیل حیہ…. مصالحت کی کوششیں امریکی اور صہیونی مداخلت کے باعث تعطل کا شکار ہیں. بدقسمتی سے فتح کی موجودہ قیادت میں امریکی دباٶ کو مسترد کرنے کی ہمت بھی نہیں. امریکا اور اسرائیل اپنی شرائط کے تحت فلسطینیوں کے درمیان مصالحت کے لیے کوشاں ہیں. اب تک اگر کہیں مفاہمتی کوششوں کی کوئی بازگشت سنائی دیتی ہے تووہ صرف غیرجانب دار شخصیات کی کوششوں کی ہے. فتح کی قیادت بھی مفاہمت کے حوالے سے دو دھڑوں میں منقسم ہے. وہ نہ تو اپنے داخلی اختلافات ختم کر سکی ہے اورنہ ہی اسرائیل اورامریکا کے دباٶ کے سامنے کوئی "اسٹینڈ” لے سکی ہے. صرف میڈیا کی حد تک خانہ پری کی کوشش ہو رہی ہیں. مفاہمتی کوششوں میں ناکامی سے متعلق حماس کو موردالزام ٹھہرایا اجاتا ہے. حماس تکرار اور اصرار کے ساتھ واضح کر چکی ہے کہ مفاہمت قومی ضرورت ہے تاہم مفاہمت اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کی راہ بند کر دیتی ہے جو فتح کو قابل قبول نہیں.کیونکہ فتح اسرائیل کو مذاکرات کا موقع فراہم کر رہی اور اسرائیل اس موقع سے فائدہ اٹھا کر فلسطینیوں کے خلاف اپنے ظالمانہ منصوبے جاری رکھےہوئے ہے.
مرکز اطلاعات فلسطین… مصری مفاہمتی مسودے پرعمل درآمد کو آگے بڑھانے کے لیے نئی تجاویز کی بات بھی چل رہی ہے، ان تجاویز کو عملی شکل دینے میں کیا رکاوٹ ہے؟
ڈاکٹر خلیل حیہ….حماس مسلسل آٹھ ماہ سے برادر ملک مصر کو مختلف نوعیت کی تجاویز دے چکی ہے تاہم تمام باتوں کی ایک ہی بات ہے کہ حماس کی ہر تجویزکی راہ میں امریکا اور اسرائیل رکاوٹ ہیں. وہ چاہتے کہ مفاہمت ہو لیکن حماس یا فلسطینی عوام کی مرضی کے بجائے امریکا اور اسرائیل کی مرضی کی ہو.
مرکز اطلاعات فلسطین….اگرمصرمفاہمتی کوششوں کےلیے ثالثی میں ناکام ہوجاتا ہےتو کیا اور آپشن بھی اس سلسلےمیں موجود ہیں؟
ڈاکٹرخلیل حیہ:…..مفاہمت کہیں سے بھی کرائی جائے اور اس کا ثالث کوئی بھی ہو. سب سے اول ہمیں امریکا کے "ویٹو” اور اس کی منشا اور دباٶ سے نکلنا ہے. عرب ممالک کی ایک کثیر تعداد ایسی بھی ہے جو یہ چاہتی ہے کہ حماس فلسطینی قانون ساز اداروں کا حصہ بنے. اسے اپنا آئینی اور قومی فریضہ ادا کرنے کا موقع دیا جائے تاہم وہ بھی امریکا کی مرضی کے خلاف چلنےکے لیے تیار نہیں. اب امریکا کی مرضی ہمیں اس لیے منظور نہیں کہ اس میں فلسطینیوں کا مفاد نہیں بلکہ صرف اسرائیل اور قابض ریاست کو رعایت دینے کی بات کی جاتی ہے.دوسری جانب فتح ہے جو حماس کےحوالے سے مختلف آرا اور نظریات میں تقسیم ہے. بدقسمتی سے فتح کا ایک گروہ تو سرے سے حماس کے سیاسی کردار کو تسلیم کرنے پرآمادہ نہیں. وہ نہیں چاہتا کہ حماس سیاست میں حصہ لے کر مجلس قانون ساز میں آئے.نیز مفاہمت اگر ہو بھی جاتی ہےتو یہ خدشہ پھر پھی اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ فلسطینی اتھارٹی اسے فلسطینی عوام کے بجائے اسرائیلی مفادات کے لیے استعمال کرے. اس وقت بھی فلسطینی اتھارٹی نے مغربی کنارے میں سلام فیاض کی سربراہی میں ایک غیردستوری حکومت اور غیراخلاقی بنیادوں پر گورنمنٹ بنا رکھی ہے جس کا مجلس قانون ساز سے کوئی تعلق نہیں. یہ گروہ اسرائیل کے منصوبے کو آگے بڑھا رہا ہے. اسرائیل کا منصوبہ یہ ہے کہ فلسطینی عوام سے ان کی وطنیت، اخلاقی اقدار اور اسلامی ثقافت پر مبنی روایات کو سلب کر لیا جائے.یہی وجہ ہے حماس فتح سے مسلسل اس بات پر زور دے رہی ہے کہ وہ امریکی چھتری اور صہیونی منصوبے سے خود کو دستبردار کرنے کا کھلا اعلان کرے. مغربی اور امریکی شرائط کے بجائے قومی اصولوں کو پیش نظر رکھ کر مفاہمت کے لیے آگے قدم اٹھایا جائے.حماس غزہ میں فتح کو سیاسی شراکت کا موقع دینے پر تیار ہے، لیکن اس کے لیے حماس کو مغربی کنارے میں بھی اس کا حق دینا ہو گا. اس کے علاوہ مغربی کنارے میں اسرائیلی خوشنودی کے لیے حماس کی بیخ کُنی کی جو مہم چلائی جا رہی ہے اسے نہ صرف ختم کرنا ہو گا بلکہ اب تک حماس کو جو نقصان پہنچایا جا چکا ہے اس بھی ازالہ کرنا ہو گا.
مرکز اطلاعات فلسطین….ایک تاثر یہ ہے کہ قاہرہ فتح کی جانبداری کر رہا ہے، ایسے میں صرف مصر ہی کو ثالث کے طور پر رکھنے پر اصرار کیوں کیا جا رہا ہے؟
ڈاکٹر خلیل حیہ:…. کسی ملک کی ثالثی کی خدمات حاصل کرنا تو محض ایک دوسرے کے قریب آنے کا ذریعہ ہے. اگر فلسطینی جماعتیں خود یہ طے کر لیں کہ انہوں نے باہمی معاملات خود ہی طے کرنے ہیں. اس میں یہ بھی طے ہو جائے کہ باہمی مصالحت بغیر کسی بیرونی دباٶ یا غیرملکی شرائط کے تحت ہو گی توہمیں کسی ثالث کی ضرورت ہی نہیں رہتی. مصر کے ثالث ہونے پر حماس کو ئی اعتراض بھی نہیں. ہمارا صرف یہ مطالبہ ہے کہ مفاہمت فلسطینی عوام کے مفاد میں اور قومی اصولوں کے پیش نظر کی جائے اور فلسطین میں امریکی ویٹو مسلط نہ کیا جائے.
مرکز اطلاعات فلسطین:…مصر کی جانب سے غزہ میں حماس کی قیادت کو بیرون ملک جانے سے روکا جا رہا. کیا وجہ ہے حماس اور مصر کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں؟
ڈاکٹرخلیل حیہ…. حماس اور مصر کے درمیان گذشتہ ایک عرصے سے تعلقات کشیدہ چلے آ رہے ہیں تاہم حماس کی کوشش ہے کہ برادر ملک مصر کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے نئے دور کا آغاز کیا جائے.ہم فلسطین میں ایک قابض ریاست کے تسلط میں رہ رہے ہیں،ہمیں دیگر عرب اور اسلامی ممالک کی حکومتوں اور ان کے عوام کی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے. ہم نے ہر دور میں مصر کے لیے دوستی کا ہاتھ بڑھایا. لیکن مصر کی پالیسی میں حماس کے ساتھ سردمہری ہی رہی ہے. اس کے باوجود ہمیں توقع ہے کہ قاہرہ کے ساتھ مستقبل میں حماس کے تعلقات بہتر ہو جائیں گے.
مرکز اطلاعات فلسطین:….. فتح اتھارٹی اسرائیل سے براہ راست مذاکرات پر تیار ہے اور اسے عرب ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے.مذاکرات کے بارے میں حماس کا کیا موقف ہے؟
ڈاکٹر خلیل حیہ….قابض اسرائیل سے مذاکرات کا ڈرامہ پچھلے 20 سال رچایا جا رہا ہے. مذاکرات کی آڑ میں فلسطینی عوام کو تو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا،البتہ اسرائیل کو دنیا میں اپنا مکروہ چہرہ بہتر بنانے کا موقع ضرور ملا ہے. مذاکرات کی آڑ میں فلسطینی عوام کے حقوق پر ڈاکے ڈالے جاتے رہے ہیں. مثلا نام نہاد مذاکرات کی آڑ میں فلسطینی عوام کی خون ریزی، مسئلہ فلسطین کی بیخ کُنی. بیت المقدس اور مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری اور فلسطینی مہاجرین کے معاملے کو نظرانداز کیا جانا وغیرہ.یہ تحریک انتفاضہ کی برکت اور اس کے ثمرات ہیں کہ فلسطینی عوام کی اس مسلح جدو جہد نے صہیونی ریاست کا مکروہ چہرہ اور اس کے مظالم کو دنیا کے سامنے آشکارا کیا. مذاکرات کی رٹ کے باوجود دنیا نے دیکھ لیا کہ اسرائیل نے کس طرح غزہ کی پٹی پر آج سے دو سال قبل حملہ کیا،معصوم شہریوں کو ممنوعہ ہتھیاروں سے نہایت بے دردی سےشہید کیا جاتا رہا. پھر کس طرح غزہ کی معاشی ناکہ بندی جاری رکھی گئی اور اس سال فریڈم فلوٹیلا پر حملے نے دنیا میں اسرائیل کا حقیقی چہر پوری طرح بے نقاب کیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیل سے مذاکرات چاہے براہ راست ہوں یا بالواسطہ یہ ہراعتبار سے فلسطینی عوام کے لیے نقصان دہ ہیں. اس سے فلسطینی "کاز” اور مزاحمتی پروگرام کو نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ مذاکرات کا ڈھونگ تحریک آزادی فلسطین کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے. مذاکرات کرنے والے اسرائیل سے یقین دہانیاں حاصل کرتے ہیں. میں پوچھتا ہوں کہ کیسی یقین دہانیاں. سوال یہ ہے کہ آج تک اسرائیل کسی یقین دہانی یا ضمانت پر پورا اتر ہے جو مزید اس سے اس کی توقع کی جائے.اسرائیل سے مذاکرات امریکا سے حاصل ہونے والی امداد کا سیاسی ثمر ہیں. امریکا نے فلسطینی اتھارٹی پر واضح کر دیا ہے کہ اگر امداد لینی ہے تو اسرائیل سےمذاکرات کے دروازے سے آنا پڑے گا ورنہ امداد نہیں ملے گی.حال ہی میں فتح کے راہنما حنان عشراوی نے خود ہی اوسلو اتھارٹی کا پردہ چاک کر دیا کہ امریکا نے محمود عباس پر واضح کر دیا ہے کہ وہ یا تو اسرائیل سے براہ راست مذاکرات شروع کریں یا تنہائی اور امداد سے محرومی کے لیے تیار ہو جائیں. اس سے یہ واضح ہونے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ جو مذاکرات لالچ اور دھونس کی بنیاد پر کیے جا رہے ہوں وہ فلسطینی قوم کے لیے کتنے مفید ثابت ہو سکتے ہیں.بیس سال سے جاری مذاکرات کے ڈھونگ کو دیکھئے اور دوسری طرف اسرائیلی مظالم کا اندازہ لگایے. ان بیس برسوں میں مذاکرات کی آڑ میں فلسطین میں کتنی یہودی آبادکاری کی، کتنے فلسطینی خاندانوں کو ان کے گھروں اوراملاک سے محروم کیا گیا. ہم ان مذاکرات کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے تحت ہونے والے کسی بھی فیصلے کو مانتے ہیں.محمود عباس اور ان کے مذاکرات کار بتائیں کہ وہ فلسطین میں یہودی آبادکاری روک سکے ہیں. بیت المقدس کو آزاد کرا لیا ہے. کیا وہ ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی اسیروں کو رہا کرا چکے ہیں اور کیا انہوں نے کسی ایک بھی فلسطینی مہاجر کو اس کے اپنے علاقے میں بسانے میں کامیابی حاصل کی ہے. اگر جواب نفی میں ہے اور یقیناً نفی میں ہے تو ایسے مذاکرات کی بے کار مشق بار بار دہرانے کا کیا فائدہ ہے.ہمیں عرب ممالک کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی کو اسرائیل سے مذاکرات کا گرین سگنل دینے اور اس کی سیاسی پردہ پوشی پر بھی افسوس ہے. فلسطینیوں پر مظالم اور ان کی حق تلفیاں پوری عرب قوم کی حق تلفیاں ہیں. عرب ممالک کو مذاکرات کے ڈھونک کی حمایت کے بجائے ایسے ٹھوس فیصلے کرنا چاہییں جن سے صہیونی ریاست اپنے جارحانہ اقدامات روکنے پر مجبور ہو سکے.
مرکز اطلاعات فلسطین:…اگر فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ کوئی معاہدہ کر لیتی ہےتو حماس کا کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی؟
ڈاکٹر خلیل حیہ….ان مذاکرات میں صرف حماس نہیں بلکہ پوری قوم کی حمایت حاصل نہیں. یہ صرف ایک مخصوص ٹولے کے صیہونی ریاست کے ساتھ مذاکرات ہیں. مذاکرات اور ان کے نتائج کو مسترد کرنے پر پوری قوم کا اجماع ہے. ہم ان مذاکرات کے نتائج کے کسی بھی قیمت پرپابندی نہیں کریں گے. فلسطینی عوام کو اپنے حقوق کے دفاع کا حق حاصل ہے. محمود عباس نے قومی حقوق اور اصولوں سے دستبرداری اختیار کی تو انہیں اپنے کیے کی سزا بھگتا ہو گی قوم اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہو سکتی.
مرکز اطلاعات فلسطین:…. مغربی کنارے میں عباس ملیشیا کی حماس مخالف مہم قوم کے منتخب نمائندوں اور جامعات کے اساتذہ تک وسیع ہو چکی ہے. حماس کو اس کا اندازہ ہے اور اس سلسلے میں حماس نے کیا حکمت عملی تیار کی ہے؟
ڈاکٹر خلیل حیہ….. مغربی کنارے میں حماس سمیت تمام مزاحمتی قوتوں کے خلاف فلسطینی اتھارٹی جو کھیل کھیل رہی ہے وہ نہایت شرمناک ہے. ہم نے تو جہاد اسلامی کے بھائیوں سے یہ بھی سنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی انہیں یہ کہہ کر گرفتار کر رہی ہے کہ "تمہارا ٹھکانا اسرائیلی جیلیں ہیں یا محمود عباس کے عقوبت خانے ہیں”. یہ صورت حال نہایت خوفناک ہے. محمود عباس نے اپنی سیکیورٹی فورسز کو مکمل طور پر اسرائیلی منصوبے میں مدغم کر دیا ہے. اب یہ سیکیورٹی فورسز جسے فلسطینی عوام کا محافظ ہونا چاہیے تھا اسرائیل کے لیے” شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفادار” ثابت ہو رہی ہے. اس حوالے سے موجودہ اوسلو اتھارٹی کا کہنا ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے مرحلے میں ہیں. ایسے میں مذاکرات کی حمایت ترک کرنے اور اتھارٹی کے سامنے "انکار کی جرات” کرنے والوں کو مذاکرات اور امن دشمن سمجھ کر انہیں پابہ جولاں کیا جاتا ہے. اسرائیل نے بھی اوسلو اتھارٹی کو یہ ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ مذاکرات مخالف اور مزاحمت حامی کے چاہے وہ کوئی بھی ہو اس کے ہاتھ پاٶں کاٹ دے تا کہ ہم اپنے منصوبے کو آگے بڑھا سکیں.مغربی کنارے میں محمود عباس اوران کے گروہ کو اتھارٹی اور پاور حاصل ہے. اس کے ساتھ اسے اسرائیل کی سرپرستی اور امریکی اشیرباد بھی مل رہی ہے. یہی وجہ ہے کہ عباس ملیشیا کی طرف سے مزاحمت کاروں کے تعاقب میں تمام حدود پامال کی جا چکی ہیں. حماس کے منتخب قومی نمائندوں کو گرفتار کیا جاتا ہے. یونیورسٹیوں، اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کر سڑکوں پرگھسٹیا جا رہا ہے.آئمہ مساجد اور علماء کے ساتھ نہایت توہین آمیز سلوک ہو رہا ہے. گھروں میں داخل ہو کر خواتین اور بچوں کو ہراساں کرنے کا جو کھیل صہیونی فوج کھیل رہی ہے وہ عباس ملیشیا نے بھی شروع کر رکھا ہے.ایسے میں حماس مسلسل فلسطینی اتھارٹی سے اور قوم کا درد اور زندہ ضمیر رکھنے والی قیادت سے سوال کرتے ہیں کہ اپنی ہی قوم کو فتح کرنے کا کھیل کب تک جاری رہے گا.سیاسی اختلافات تو ہر کہیں ہوتے ہیں لیکن اس کی بنیاد پر ہر محب وطن شہریوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرنا کونسی اخلاقی روایت ہے. موجودہ حالات میں ہمیں محمود عباس یا اس کے گروہ کی طرف سے خیر کی توقع نہیں کیونکہ یہ لوگ قوم کو بیچ کرمال کما رہے ہیں اور مسئلہ فلسطین کے بنیادوں اصولوں سے دستبردارہو کر امریکا اور اسرائیل کو خوش کر رہے ہیں وہ فلسطینی قوم کو خوش نہیں رکھ سکتے. البتہ فتح کی زندہ دل قیادت کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے مغربی کنارے میں کھیلا جانے والا کھیل آخر کیا رنگ لائے گا.
مرکز اطلاعات فلسطین:… اسرائیل نے بیت المقدس میں یہودی آبادکاری کے ساتھ ساتھ وہاں مقیم فلسطینیوں پر تشدد کا سلسلہ بڑھا دیا ہے. آپ کو کیا دکھائی دیتا ہے اسرائیل کس طرف بڑھ رہا ہے؟
ڈاکٹر خلیل حیہ…. مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ سب فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے مذاکرات کی حمایت کی آڑ میں کر رہا ہے. بیت المقدس کو یہودیت میں تبدیل کرنے کے اسرائیل کے سامنے تین اہم مقاصد ہیں.اول یہ کہ اسرائیل بیت المقدس میں یہودی آبادی اتنی زیادہ کرنا چاہتا ہے تاکہ القدس مذاکرات میں سے کوئی متنازعہ معاملہ ہی نہ رہے اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہے. سنہ 1993ء میں ہونے والے اوسلو معاہدے کے بعد اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کےدرمیان مذاکرات کےجتنے دور ہوئےان میں القدس کا موضوع شامل ہی نہیں کیا گیا. مذاکرات بھی چلتے رہے اور القدس میں یہودی آبادکاری بھی جاری رہی. یہ اسرائیل کی ایک بڑی اور خطرناک چال تھی جو اب بھی جاری ہے.دوم یہ کہ اسرائیل بیت المقدس میں یہودی آبادی بڑھانے کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں کو بھی اپنا مستقل علاقہ قراردینے کے لیے کوشاں ہے. محمود عباس اسرائیل سے اراضی کے تبادلے کے لیے پرامید ہیں جبکہ اسرائیل ان کی اس خام خیالی کی آڑ میں ایک ایک انچ زمین کو اپنے قبضے میں لے رہا ہے. اس کے لیے اس کے پاس سے سب بڑا اور موثر ہتھیار یہودی آبادکاری اور کالونیوں کی تعمیر ہے جسے وہ جنگی بنیادوں پر جاری رکھے ہوئے ہے.بیت المقدس میں یہودی آبادکاری میں تیزی اور شہریوں پر تشدد میں اضافے کا تیسرا مقصد مقبوضہ فلسطین سے نکالے گئے شہریوں کی واپسی کی راہ روکنا ہے.یوں اسرائیل کی طرف سے فلسطینی ریاست کے دعوے بھی ایک ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں. بیت المقدس پر یہودی غالب، مغربی کنارے پر بھی ان کا قبضہ ہو اور فلسطینی پناہ گزینوں کو بھی واپس آنے سے روک دیا جائے تو اس پر کے بعد کہاں اور کونسی فلسطینی ریاست قائم کی جائے گی.
مرکز اطلاعات فلسطین:… اسرائیل نے حالیہ دنوں میں غزہ اور اس کے مضافات میں بمباری میں بھی اضافہ کر دیا ہے. حالیہ حملوں میں القسام بریگیڈ کے کمانڈوز کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے. تازہ جارحیت کوحماس کس نظر سے دیکھتی ہے؟
مرکز اطلاعات فلسطین:… حماس کی جانب سے مزاحمت کے ساتھ اٹوٹ وابستگی کے باعث یہ شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حالیہ دنوں میں اسرائیلی کالونیوں پر راکٹ حملے بھی حماس ہی نے کیے تھے. آپ اس پر کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر خلیل حیہ…حماس ایک مزاحمتی تنظیم ہے اور مزاحمت ہی فلسطینی عوام کی اصل محافظ ہے. سوال یہ نہیں کہ حماس راکٹ فائر کر رہی ہے. اصل تکلیف یہ ہے فتح مذاکرات کر رہی تو حماس اس کی مخالفت کیوں کرتی ہے. اگرکچھ دیر کے لیے یہ مان لیا جائے کہ غزہ پر اسرائیلی بمباری حماس کے راکٹ حملوں کی وجہ کی جا رہی ہے. ہمیں بتایا جائے مغربی کنارے میں حماس نے کون سے راکٹ داغے ہیں کہ وہاں حماس کے راہنماٶں اور کارکنوں کا جینا دو بھر کر رکھا ہے.مزاحمت صرف راکٹ داغنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک وسیع میکنزم ہے جس کے ذریعے فلسطینی عوام کے حقوق کے دفاع کی جنگ لڑی جا رہی ہے. حماس پر شکوک شبہات صرف تنظیم کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے ورنہ سب جانتے ہیں کہ راکٹ حملوں میں کتنی صداقت ہے اور یہ راکٹ کہاں سے داغے گئے تھے.
مرکز اطلاعات فلسطین:….غزہ کی پٹی میں حماس کو حکومت کا ایک اچھا تجربہ ہوا ہے.یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ حماس کی انتظامیہ نے بعض معاملات مثلاً مفاد عامہ اور معاشی ناکہ بندی کے حوالے سے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے اور حماس کی سیکیورٹی انتظامیہ کی بھی دیگر سیاسی گروپوں کے ساتھ ان بن رہی ہے. اس پرآپ کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر خلیل حیہ… جہاں تک حماس اور دیگر جماعتوں کے تعلقات کا معاملہ ہے تو وہ غزہ کی پٹی میں تمام جماعتوں کے ساتھ بہت اچھے اور خوشگوار تعلقات ہیں. اس میں دیگر سیاسی دھڑے حماس کی انتظامیہ کی مسلسل معاونت بھی کرتے ہیں. البتہ حکومت کا تجربہ ایک ایسا سوال ہے جس پر میں یہ کہوں گا کہ حماس کے پاس حکومت کرنے کے اسباب ہی کتنے ہیں. جب آپ کے پاس حکومت کے اسباب ہی سرے سے نہیں توآپ اسے کس درجے کی حکومت قرار دیں گے. معاشی ناکہ بندی اور جنگ جیسے مشکل حالات میں حماس نے انتظامات اپنے ہاتھ سےنہیں چھوڑے. نہایت محدود اور کم وسائل کے باوجود حماس فلسطینی عوام کی خدمت کر رہی ہے.اگرکسی جگہ کسی کو انتظامی یا سیکیورٹی کے حوالے سے کوئی شکایت ہے تو اس کے ازالے کے لیے قانون موجود ہے.حماس افراد کو نہیں قانون کو بالادست سمجھتی ہے اور قانون کی نظرمیں سب برابر ہیں.
مرکز اطلاعات فلسطین:…حماس کی مغرب کے ساتھ ڈائیلاگ کی موجودہ کیفیت کیسی ہے. کیا اس سلسلے میں کوئی بڑا بریک تھرو ہوا ہے؟
ڈاکٹر خلیل حیہ… حماس نے مغرب کے سامنے پوری جرات کے ساتھ مسئلہ فلسطین، فلسطینی عوام کے حقوق اور اسرائیل کی حیثیت کو پیش کیا ہے. حماس نے یورپی اور مغربی دنیا پر کھلے الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل ایک غیرقانونی ریاست ہے جس کا مسلمہ عالمی قوانین سے قطعی کوئی تعلق نہیں. اس حوالے سے اچھی خبر یہ ہے کہ مغرب کی سیاسی اور غیرسیاسی اور آئین ساز حلقے حماس کی بات کو سمجھ رہے ہیں. اب مغرب میں یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ حماس اور فلسطینی قوم لازم ملزوم ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا.غزہ کی معاشی ناکہ بندی نے بھی مغرب اور حماس کے درمیان روابط بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے.