پنج شنبه 01/می/2025

مسلمہ اصولوں اور مزاحمتی تسلسل کی بنیاد پر فلسطینی مصالحت پر تیار ہیں: شیخ ابو طیر

ہفتہ 23-اپریل-2011

نوجوانوں جیسی بہادری کے جوہر اور بزرگوں جیسی حکمت لیے بیت المقدس کی اس شخصیت نے دعوت، قومیت، مزاحمت اور سیاست کے میدانوں میں ایک ساتھ اپنی جوہر دکھائے اور فلسطینی قوم کے لیے ایک رول ماڈل بن گئے۔ تیس سال قید کی صعوبتیں کاٹنے کے عرصے میں قوم سے دوری کے باوجود یہ شخصیت ہر فلسطینی کے وجدان کا حصہ بنی رہی۔ 

القدس سے زبردستی دور کر دینے کے باوجود اس نے فلسطین کے سیاسی، اقتصادی، جمہوری اور مالیاتی دارالخلافہ رام اللہ میں رہنے سے انکار کر دیا۔ اور بیت المقدس کے شمالی قریب ترین گاؤں کفر عقب میں رہنے کو ترجیح دی تاکہ یہاں سے بھی وہ اس مقدس شہر کی زیارت کرتا رہے اور گنبد صخرہ اور قبلہ اول مسجد اقصی کی زیارت کرکے اپنی نگاہوں کو تسکین دیتا رہے۔

القدس اور مسجد اقصی کے ساتھ والہانہ لگاؤ رکھنے والے فلسطینی رکن پارلیمان محمد ابوطیر نے ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کو ایک خصوصی انٹرویو دیا جو قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔

آپ کی ولادت اور تربیت کہاں اور کیسے ہوئی؟
میں 1951ء میں مقبوضہ بیت القدس کے جنوب مشرق اور صور باھر ٹاؤن سے ملحق علاقے ام طوبا میں پیدا ہوا۔ یہ ایک عرب اسلامی گاؤں تھا جس کی تاسیس عہد کنعانی میں رکھی گئی تھی۔ یہاں پر بسنے والے لوگ مسلمان فلسطینی تھے جن کا طرز زندگی، طرز معاشرت، القدس اور اسلامی مقدسات سے والہانہ لگاؤ انہیں منفرد بناتا تھا۔ اس گاؤں میں متعدد مساجد تھیں، میں نے بھی گاؤں کی مسجد میں 35 سال امامت کی، اللہ کے فضل سے میری شادی ہوئی، میری پانچ بیٹیاں اور دوبیٹے ہوئے اور اب میرے دس پوتے بھی ہیں۔

اپنی تعلیم اور تربیت کے بارے میں کچھ بتائیے؟
میں نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے سکول سے ہی حاصل کی پھر میں اپنے محبوب شہر القدس کے سیکنڈری اسکول میں داخل ہوا۔ ہمارے سکول کا ہیڈ کوارٹر مسجد اقصی کے قریبی باب السلسلہ میں تھا، اس مدرسہ شرعیہ سے ہی میں نے ایمان اور وطن کی محبت کا درس حاصل کیا۔ اس دوران ہم میں یہ فکر پیدا ہوئی کہ اپنے وطن کی حفاظت کیسے کی جائے۔ اس مدرسے میں ہم نے شریعت کے احکامات تو سیکھے ہی ساتھ ساتھ وطن کی محبت اور اس کے لیے قربانیاں دینے کا جذبہ بھی ہمیں یہیں سے ملا۔ اس مدرسے کے معلمین کا دعوت، جہاد اور سیاست میں اہم کردار تھا۔ مسجد اقصی کے قرب وجوار میں مزاحمت کی آواز بھی یہیں سے بلند ہوئی۔ پھر میں عمان منتقل ہوگیا جہاں میں نے بیروت کی عرب یونیورسٹی میں دو سال تک تدریس کی تاہم وہاں کے سیاسی حالات اور انقلابی تحریک کے سبب یہ کام جاری نہ رہ سکا۔ اب میں نے اپنی تیس سالہ حراست کے حالات پر مشتمل ایک کتاب مرتب کرلی ہے۔

القدس کو یہودیانے کا عمل جاری ہے، یہاں کی تاریخ اور معاشرت مسخ کی جارہی ہے، آپ کہاں ہیں، القدس کے باسیوں نے القدس اور مسجد اقصی کے لیے اب تک کیا کیا ؟

میرے دل میں اس بات کا بے پناہ درد ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کا یہ شہر ہر گزرتے دن کے ساتھ یہودی رنگ میں رنگا جارہا ہے۔ ایسا اس شہر پر صہیونی قبضے سے بھی قبل سے جاری ہے۔ میں ان واقعات کا بھی چشم دید گواہ ہوں جب 1966ء میں اردن کی حکومت نے 500 فلسطینی خاندانوں کو حارہ الشرف سے بے دخل کرکے شعفاط کیمپ ہجرت پر مجبور کردیا تھا ایسا اردن اور اسرائیل کے مابین ایک معاہدے کے تحت کیا گیا تھا جس کے مطابق اس علاقے کو یہودی کالونی میں تبدیل کرنے کی تیاری تھا۔

میں نے اپنی ان آنکھوں سے اموی دور کے محلات اور القدس کی کالونیوں کو مسمار ہوتے بھی دیکھا ہے۔ مجھے وہ منظر بھی اب تک یاد ہے جب اگست 1969ء میں روھان کوہین نامی صہیونی نے مسلمانوں کے قبلہ اول اور حرم ثالث کو نذر آتش کیا تھا میں القدس کے نوجوانوں کے ساتھ مل کر اس آگ کو بجھا رہا تھا یہ آگ مسجد اقصی نہیں بلکہ ہمارے دلوں میں لگی ہوئی تھی۔

اس کے بعد مسجد اقصی کی بنیادوں میں کھدائیوں کا عمل شروع کر دیا گیا ہم ہمیشہ سے اقصی کے دفاع کی خاطر قربانیاں دینے والے اس امت کے سپہ سالاروں کے ساتھ رہے۔ ان جانبازوں کی سپہ سالاری شیخ اقصی مجاہد رائد صلاح کے پاس تھی۔ ہمارے علماء اور خطباء نے القدس کے دفاع بخوبی کیا علماء میں سب سے مقدم روحی خطیب، شیخ عبد الحمید السائح، شیخ حامی محتسب، شیخ سعید صبری، استاذ انجینئیر حسن القیق، الحاج حسین سلھب، الحاج راضی سلایمہ، الحاج رشدی الشویکی رہے۔ خطباء میں جہاد کی روح بیدار کرنے والوں میں شیخ عادل الشریف، شیخ جمیل الخطیب، ڈاکٹر شیخ محمد صیام، شیخ حامد بیتاوی، شیخ محمد فواد ابو زید، شیخ عکرمہ صبری اور شیخ رائد صلاح وغیرہ کا نام نمایاں ہے۔

فلسطینی قوم مسجد اقصی کے دفاع میں سیکڑوں شہادتیں پیش کی ہیں اور ہزاروں مسلمان زخمی بھی ہوچکے ہیں۔ یہ سب قربانیاں 1987ء کے پہلے انتفاضے، سرنگوں کے انتفاضے اور اقصی کے انتفاضے میں پیش کی گئیں۔ اقصی کے راہداریوں اور صحن میں بہایا جانے والا خون کا بڑا حصہ القدس کے باسیوں کا ہی تھا۔ عرب اور اسلامی دنیا کی جانب سے بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری قربانیوں پر بولنے والا کوئی نہیں۔ اب تک عرب لیگ کے درجنوں کانفرنسیں ہوچکیں، اسلامی سربراہی کانفرنس میں القدس کمیٹی کا قیام میں عمل میں آچکا ہے مگر یہ سب کچھ محض ہواؤں میں ہو رہا ہے، القدس کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو اس مقدس شہر کو یہودی رنگ میں رنگے جانے سے بچا سکیں۔

مزاحمت میں شرکت کیسے کی اور اب تک کا جہادی سفر کیسا رہا؟
میں نے ہوش سنبھالتے ہی جہاد اور مزاحمت کی پکار پر لبیک کہا ہے۔ القدس میں زندگی گزارنے اور یہاں ہونے والے واقعات نے ہمارے دلوں میں مزاحمت کی چنگاری کو ہمیشہ تیز سے تیز تر کیا ہے۔ میں نے اپنے ثانوی تعلیم کے دوسرے مرحلے سے ہی خود کو فدائی کارروائی کے لیے پیش کردیا تھا۔ اسی مقصد کے لیے میں نے ملک کے باہر کا سفر کیا اور اردن میں ستمبر کی کارروائی میں حصہ لیا، 1970ء میں باقاعدہ گوریلا تربیت حاصل کی، 1974 تک سفر میں رہا۔ میں شام اور لبنان کی انقلابی تحریکوں میں حصہ لیتا رہا۔ میں نے فتح کی مرکزی سکیورٹی میں بھی کام کیا تاہم اختلاف کی بنا پر مغربی سیکٹر میں آگیا اور قائد سعد صایل ابو ولید کے ساتھ کام کیا۔ وطن واپس لوٹنے کے بعد 13 ستمبر 1974ء کو مجھے گرفتار کرلیا گیا۔

شیخ ابو طیر خارج کی طرح جیل کے اندر بھی فلسطینی مزاحمت کاروں کے قائد رہے۔ اسرائیلی عقوبت خانوں میں آپ کا قائدانہ دور کیسا رہا؟

جیل کے اندر میرا سب سے اہم کام اسلامی جماعت کی تاسیس تھی یہ جماعت حماس کی بنیاد بنی۔ یہ جماعت 1977ء میں رملہ جیل میں بنائی گئی تھی میں 1977 سے 1985 تک اس جماعت کا امیر رہا۔ اپنی اسیری کے دوران دوسرا کام جس میں بجا طور پر فخر کرسکتا ہوں وہ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہے، یہ معاہدہ پاپولر فرنٹ کی جنرل کمانڈ کی طرف سے کیا گیا جس میں مجھے باقاعدہ طور پر جنرل کمانڈ کا حصہ بنایا گیا۔

1992ء سے 1995ء تک میں الخلیل جیل میں حماس کا امیر رہا، 1996ء میں الخلیل جیل میں حماس کا امیر منتخب ہوا اور 1998 تک اسی عہدے پر فائز رہا، جیل میں رہ کر میں نے حماس کی مضبوطی کے لیے اقدامات اٹھائے جس کا جیل کے اندر موجود نوجوانوں پر بڑا مثبت اثر پڑا۔

آپ کو القدس سے بے دخل کیے جانے کے اسباب کیا ہیں؟
بلاشبہ میری جانب سے مزاحمت کارروائیوں کی حمایت اور اسرائیل کو للکارنے کے ساتھ ساتھ سیاست میں شمولیت اور پھر فلسطینی مجلس قانون ساز میں شرکت ہی وہ وجہ ہے جس کی بنا پر مجھے القدس سے نکالے جانے کا سبب بنی۔ اسی طرح مساجد اور یونیورسٹیوں میرے دعوتی کاموں کے سبب مجھے مسلسل گرفتار کیا جاتا رہا، 2006ء کے انتخابات میں کامیابی کے فورا بعد بھی مجھے گرفتار کرلیا گیا، مجھے 29 جون 2006 کو گرفتار کیا گیا اور 20 مئی 2010ء کو رہا کیا گیا، 08 دسمبر 2010 کو مجھے حماس کے ساتھ تعلق کی بنا پر القدس سے بے دخل کر دیا گیا۔ تاہم میری نظر میں میری بے دخلی کا بڑا سبب القدس کو اسلامی اور قومی رہنماؤں سے محروم کرکے القدس میں موجود فلسطینی قوم کو یتیم کرنا ہے۔

آپ سیاسی عمل میں شریک رہتے ہوئے مزاحمت پر یقین رکھنے والی حماس کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟
اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس بیک وقت ایک اصلاحی، سیاسی اور مزاحمتی جماعت ہے۔ اس کا انتخابی نعرہ ایک ہاتھ سے تعمیر ایک ہاتھ سے مزاحمت ہے۔ سیاست اور مزاحمت کا یہ امتزاج بڑا مبارک ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو اتنی کامیابی بھی حاصل نہ ہوپاتی، مساوات کو مکمل کرنے کے لیے دو نوں راستوں کو ملانے میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

موجودہ حالات میں فلسطینی مفاہمت کو کیسا دیکھتے ہیں؟
ہم اس شرط پر مصالحت کے بھرپور حامی ہیں کہ وہ فلسطینی مسلمہ اصولوں اور مزاحمتی حق کی بنیاد پر استوار ہو۔

مختصر لنک:

کاپی