جمعه 02/می/2025

"فلسطینی پناہ گزینوں کو اجتماعی سزا دینے کی پالیسی قبول نہیں”

پیر 1-اگست-2011

فلسطین میں سنہ 1948ء کے دوران "اسرائیل” کے نام سے یہودیوں کی ناجائز ریاست کے قیام اور اس کے ما بعد فلسطین سے بے دخل کیے گئے لاکھوں فلسطینی قرب و جوار کے ممالک میں آباد ہوئے۔ انہی میں ایک بڑی تعداد پڑوسی ملک لبنان میں بھی پناہ گزین ہے۔

لبنان میں فلسطینی مہاجرین دیگرعرب ممالک میں مُقیم فلسطینیوں کی نسبت زیادہ کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں کیونکہ لبنانی حکومت کے ہاں فلسطینیوں کے لیے مساوی حقوق فراہم نہیں کیے گئے۔ لاکھوں مہاجرین کی گذر اوقات عالمی امدادی اداروں کی امداد پر ہوتی ہے۔ وہ نہ اپنا مکان بنا سکتے ہیں اور نہ انہیں روزگار کے مواقع حاصل ہیں۔

لبنان میں پناہ گزینی کی زندگی بسر کرنے والے انہی لاکھوں فلسطینیوں کا احوال جاننے کے لیے مرکز اطلاعات فلسطین نے بیروت میں متعین اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے مندوب علی برکہ سے بات چیت کی۔
 
لبنان میں مہاجرین کے شب و روز کس طرح بسر ہو رہے ہیں؟، انہیں کس نوعیت کی مشکلات کا سامنا ہے اور عالمی امدادی ادارے اور لبنانی حکومت فلسطینی پناہ گزینوں کے بارے میں کیا "رول” ادا کر رہے ہیں۔ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں، جن کے بارے میں حماس رہ نما سے مفصل گفتگو ہوئی ہے۔ 

مرکز اطلاعات فلسطین کے ساتھ علی برکہ کی گفتگو پیش خدمت ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔ سب سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ حماس لبنانی پناہ گزینوں کی بہبود کے لیے کیا کردار ادا کر رہی ہے؟
 علی برکہ:۔ میں یہ بتاتا چلوں کہ لبنان میں مقیم فلسطینیوں کا معیار زندگی دیگر عرب ممالک میں موجود فلسطینی پناہ گزینوں سے بہت خستہ ہے اور مجموعی طور پر فلسطینی مہاجرین کے تمام کیمپ زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اس کے کئی اسباب ہیں تاہم تین بڑے اسباب یہ ہیں کہ ایک تو یہ تمام لوگ کئی سال سے ھجرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں، دوم یہ کہ اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی براے امور پناہ گزین”اونروا” نے بھی اپنی سروسز کم کر دی ہیں اور تیسرا سبب یہ ہے کہ لبنانی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کو وہ بنیادی حقوق فراہم نہیں کیے گئے جو عام لبنانی شہریوں کو حاصل ہیں۔ یہ وہ تین بنیادی اسباب ہیں جو فلسطینی مہاجرین کی مشکلات کا باعث ہیں۔ رہا یہ سوال کہ حماس پناہ گزینوں کی بہبود اور بحالی کے  لیے کیا کر رہی ہے اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ حماس شروع دن سے فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کے لیے تمام میدانوں چاہے وہ سیاسی ہو، سماجی ہو، میڈیا کی سطح پر ہو یا ثقافتی ہو ہرسطح پر ان کے مسائل کو اٹھاتی ہے۔ مہاجرین کے مسائل کے حل کے لیے حماس نے بیروت میں ایک دفتر بھی قائم کر رکھا ہے۔ جہاں اس دفتر کا لبنانی حکومت اور امدادی اداروں بشمول اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی سے رابطہ ہے وہیں ہم فلسطینی مہاجرین کی سیاسی اور قانونی مدد کے لیے ہر وقت ان سے تعاون کرتے ہیں۔ لبنان میں فلسطینی مہاجرین کی بہبود کے لیے حماس کا ایک تفصیلی پروگرام ہے۔ اس پروگرام کے تحت لبنان میں مقیم فلسطینی مہاجرین کو عام شہریوں کے مساوی سماجی، سیاسی اور ثقافتی حقوق دلوانے کا معاملہ سر فہرست ہے۔ حماس نے کئی مرتبہ لبنانی حکومت سے رابطہ کیا اور انہیں فلسطینیوں کو حق ملکیت اور روزگار کے حقوق کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ مختلف مہاجر کیمپوں، نہرالبارد اور دیگر مقامات پر موجود فلسطینیوں کی مدد کے لیے بیروت اور اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی سے رابطہ ہے۔ ہم مسلسل بیروت حکومت کو فلسطینی مہاجرین کے بارے میں کیے گئے وعدے یاد دلاتے رہتے ہیں۔ حماس کے پناہ گزینوں کی بہبود کے لیے ترتیب دیے گئے پروگرام کا دوسرا نقطہ دیگر فلسطینی تنظیموں سے باہمی رابطہ اور مل کر مہاجر کیمپوں میں امن وامان کی بحالی ہے۔ حماس نے فتح اور دیگر فلسطینی جماعتوں کے تعاون سے مہاجر کیمپوں کی سیکیورٹی اور ان کی صفائی کے لیے عوامی کمیٹیاں قائم کر رکھی ہیں۔ ان کمیٹیوں کے اراکین کو باقاعدہ معاوضہ فراہم کیا جاتا ہے اور انہوں نے کیمپوں میں بڑی اور نمایاں تبدیلیاں بھی لائی ہیں۔غریب خاندانوں کی مدد اور ان کی مالی اعانت کے سلسلے میں بھی حماس کسی دوسرے تنظیم  سے پیچھے نہیں۔ حماس کی جانب سے مختلف مواقع امدادی پیکیج بھی دیے جاتے ہیں اسکے علاوہ غریب گھرانوں کے لیے مسلسل وظیفوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔ کچھ عرصہ پیشتر لبنانی حکومت نے فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کے لیے ایک قانون بھی منظور کیا تھا۔ کیا آپ اس فارمولے سےاتفاق کرتے ہیں؟

علی برکہ:۔ لبنان حکومت کی جانب سے فلسطینی پناہ گزینوں کے ساتھ کیے گئے وعدے سب کے سب تو پورے نہیں ہوئے تاہم انہی میں سے ایک وہ قانون بھی ہے جس میں فلسطینی مہاجرین کو حق ملکیت دینے اور انہیں روزگار فراہم کرنے کے لیے حقوق کی سفارش کی گئی ہے۔ تاہم میرا خیال ہے کہ مثبت ہونے کے ساتھ یہ فارمولہ ناکافی اور نامکمل ہے۔ لبنانی حکومت نے نہر البارد کیمپ کی تعمیر نو کے سلسلےمیں مالی اعانت کی یقین دہانی کرائی تھی۔ لیکن ان کا یہ مطالبہ بھی تاحال پورا نہیں کیا گیا۔ اسی ضمن میں مَیں اس انٹرویو میں مرکز اطلاعات فلسطین کے  توسط سے لبنانی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ فلسطینیوں کی حق ملکیت پر پابندی کا قانون ختم کرے اور انہیں مساوی شہریوں کا درجہ دیا جائے۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔ لبنانی حکومت کے تیار کردہ فارمولے میں کون کون سےاہم  نکات ہیں؟

علی برکہ:۔ بیروت کی جانب سے فلسطینی پناہ گزینوں کی بحالی کے سلسلہ میں جو مسودہ تیار کیا گیا ہے اس میں بہت سے اہم نکات شامل کیےگئے ہیں۔ ان میں پہلا نقطہ یہ ہے کہ بیروت مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے سیاسی، سماجی اور اقتصادی شعبوں سمیت ہر سطح پر تعاون کرے گا۔ نیز فلسطینی مہاجرین کی دوبارہ ان کے وطن کی بحالی اور وطن  واپسی کی پرزور حمایت کی جائے گی۔ دوسرے نقطے میں لبنانی حکومت نے فلسطینیوں کے حق ملکیت کو تسلیم کیا ہے۔ فلسطینیوں کو لبنان میں تمام شعبوں میں روزگار کی فراہمی کے علاوہ انہیں سوشل سیکیورٹی دینے بھی وعدہ کیا گیا ہے۔ تیسری اہم بات جس پرفارمولے میں تاکید کی گئی وہ فلسطینی مہاجرین کے کیمپوں کی تعمیر اور مہاجرین کی ہر ممکن مدد ہے۔ لبنان حکومت نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ملک میں فلسطینیوں کے سب سے بڑے مہاجر کیمپ نہر البارد کی تعمیر کے کام میں مقامی کمیٹیوں سے مل کر کام کرے گی۔ اس کے علاوہ مختلف تنازعات اور واقعات میں گرفتار فلسطینی مہاجرین کی رہائی کا مسئلہ بھی حل کیا جائے گا۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔ "نہر البارد” کیمپ کے تنازعہ کے حل کے لیے کوئی پیش رفت ہو سکی؟

علی برکہ:۔ لبنان میں فلسطینی مہاجرین کے سب سے بڑے کیمپ "نہر البارد” کا مُعمہ کئی سال سے جوں کا توں ہے۔ کیمپ کے چاروں طرف اب بھی لیبنانی سیکیورٹی فورسزکا کڑا پہرا ہے اور مہاجرین کے کیمپوں میں آمد و رفت مشکل بنا دی گئی ہے۔ حماس نے متعدد مرتبہ بیروت حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ نہر البارد کے تنازع کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کرے لیکن ان کا ہر مطالبہ سرد خانے میں ڈالا گیا۔ وہ آج بھی اس اہم معاملے کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ فوج کو کیمپ سے دور کیا جائے۔ اس کے راستوں پر قائم چوکیاں ختم کی جائیں۔ امدادی اور فلاحی اداروں کو کیمپ تک رسائی دی جائے تاکہ وہ وہاں کیمپ کی تعمیر نو کا کام کر سکیں۔ اس کے علاوہ کیمپ کی مشترکہ نگرانی کے لیے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی فلسطینی  اور لبنانی شخصیات پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے، جو کیمپ کے معاملے پر نظر رکھے۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔ مہاجر کیمپوں کے باہر لبانی فوجی چوکیوں کے بارے میں حماس کا کیا موقف ہے؟

علی برکہ:۔ حماس فلسطینی مہاجرین کے کیمپوں کو فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل کرنے کی لبنانی سیاست کی شدید مذمت کرتی رہی ہے۔ یہ ہم بات قطعا پسند نہیں کرتے کی کسی کیمپ میں لبانی فوج کا کوئی مطلوب چھپا ہوا ہے، اس کی تلاش کے لیے پورے کیمپ کو اجتماعی سزا دی جائے۔ جیسا کہ میں نے  پہلے بھی ذکر کیا کہ حماس مہاجرکیمپوں کے باہر کھڑے فوجیوں اور کیمپوں کے گھیراؤ کومسترد کر چکی ہے۔ ہم کیمپوں کے تحفظ کی بات کرتے ہیں لیکن وہ تحفظ کیمپوں کو فوجی چھاؤنیوں میں تبدیل کرنے سے نہیں ہو سکتا۔ حماس لبنانی حکومت سے مطالبہ کرتی آئی ہے کہ وہ فلسطینی پناہ گزینوں کے امور کے لیے باضابطہ طور پر ایک الگ سے وزارت اور محکمہ قائم کرے تاکہ مہاجرین کے مسائل کے حل میں مدد مل سکے۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔ اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی”اونروا” نے ایک مہم شروع کر رکھی ہے جس کے تحت فلسطینی پناہ گزینوں کو مستقل طور پر لبنان کا شہری قرار دینا اور ان کے حق واپسی کو ختم کرنا ہے۔ حماس اس حوالے سے کیا اقدامات کر رہی ہے؟

علی برکہ:۔ جہاں تک اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی برائے پناہ گزین”اونروا”  کا فلسطینی مہاجرین کی مدد اور بحالی کا تعلق ہے تو ریلیف ایجنسی کا کردار قابل تحسین ہے۔ گذشتہ دو سال سے حماس اور اونروا نے فلسطینی مہاجرین کی بحالی بالخصوص تعلیم، صحت اور دیگر امور کے لیے کئی مشترکہ پروجیکٹ پر کام بھی کیا ہے۔ لیکن حال ہی میں دو اہم امور "اونروا” کے حوالے سے سامنے آئی ہیں۔ ایک بیروت میں ریلیف ایجنسی کی کرپشن کی ہوشربا کہانی اور دوسرا ایجنسی کے ڈائریکٹر "سلفاٹوری لمبارڈو” کے فلسطینی پناہ گزینوں کے بارے میں متنازعہ ریمارکس ہیں۔ میں یہ بتاتا چلوں کہ حال ہی میں اونروا کی کرپشن کی کہانی کے بعد معلوم ہوا ہے کہ ایجنسی کے 74 غیرملکی ملازمین کام کر رہے ہیں ان میں سے بیشتر اہلکار ایسے ہیں جن کی تنخواہیں پانچ پانچ لاکھ ڈالرز ہیں جبکہ ایجنسی سے وابستہ ایک عام فلسطینی کو ایک ہزار ڈالرز زیادہ نہیں دیے جاتے۔ تنخواہوں میں اتنا بڑا تضاد ریلیف ایجنسی کی مقامی انتظامیہ کی کرپشن کی بدترین مثال ہے۔ حماس نے اونروا کی کرپشن کی کہانی کو اس لیے منکشف کیا ہے تاکہ فلسطینی پناہ گزینوں کے حوالے سے اپنی قومی ذمہ داری پوری کیا جاسکے کیونکہ لوٹ مار کی گئی رقوم فلسطینیوں کی مدد کے لیے آئی تھیں نہ اونروا کے غیر ملکی ملازمین کی جیپں بھرنے نے کے لیے دی گئی تھیں۔

مختصر لنک:

کاپی