چهارشنبه 30/آوریل/2025

عالم اسلام اپنے وسائل کا رُخ فلسطین کی طرف موڑ دیں

بدھ 12-اکتوبر-2011

فلسطینی مجلس قانون ساز کے ڈپٹی اسپیکر ڈاکٹر احمد بحر نے رام اللہ میں قائم فلسطینی انتظامیہ کےسربراہ محمود عباس پر زور دیا ہے کہ وہ قوم کے سامنے اس بات کی وضاحت کریں کہ آیا اسرائیل کے ساتھ اب تک کیے گئے بے سود مذاکرات سے کیا فائدہ حاصل کر سکے ہیں۔ انہوں نے فلسطین کی آزادی اور قبلہ اول کی پنجہ یہود سے آزادی کے لیے مشترکہ قومی حکمت عملی وضع کرنے کی بھی ضرورت پر زور دیا۔

فلسطینی مجلس قانون ساز کے اسپیکر ڈاکٹر احمد بحرنے ان خیالات کا اظہار ایران کے دارالحکومت تہران میں منعقدہ القدس انٹرنیشنل کانفرنس کے موقع پر تہران میں مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے اپنے خصوصی انٹرویو میں کیا ہے۔ اپنے اس انٹرویو میں ڈاکٹر بحرنے مسئلہ فلسطین کی تازہ صورت حال بالخصوص عرب ممالک میں جاری بہار انقلاب کے دوران فلسطینیوں پر پڑنے والے اس کے اثرات کا تجزیہ کیا۔

انہوں نےمسلم امہ اورعرب ممالک پر زور دیا کہ وہ قبلہ اول کو یہودیوں سے بچانے اور فلسطینی قوم کو آزادی دلانے کے لیے اپنے تمام تر مادی اور معنوی وسائل کا رخ فلسطینیوں کی طرف موڑ دیں۔ مرکز اطلاعات فلسطین کو دیے گئے ان کا انٹرویو ذیل میں پیش خدمت ہے۔

مرکزاطلاعات:ہمارا پہلا سوال تہران میں منعقدہ اس بین الاقوامی القدس کانفرنس کے بارے میں ہو گا، آپ کے خیال میں یہ کانفرنس مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کتنی اہمیت کی حامل ہو سکتی ہے؟

ڈاکٹر بحر:۔۔ایران کی میزبانی میں بیت المقدس کے بارے میں انٹرنیشنل کانفرنس میں دنیا کے سترسے زائد ممالک کے مندوبین شریک ہیں، اس اعتبار سے کانفرنس کو پوری دنیا کی ایک نمائندہ کانفرنس قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کانفرنس کی اہمیت اس وقت اور بھی دو چند ہو جاتی ہے جب اس کی نسبت ایران جیسے ملک کے ساتھ ہوتی ہے جو شروع دن سے فلسطینیوں کے حقوق کا پرزور حامی اور وکیل رہا ہے۔ ہم ایران کو اس طرح کی کانفرنس منعقد کرنے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں، کیونکہ تہران نے ایک ایسے وقت میں یہ کانفرنس منعقد کی ہے جب عالم عرب میں تبدیلی کا عمل جاری ہے۔

دوسری اہم بات یہ کہ اس کانفرنس میں ہم نے بیت المقدس کو اسرائیل کی جانب سے درپیش خطرات، یہودی بستیوں کی تعمیر، مسجد اقصیٰ کے گرد یہودیوں کا تنگ ہوتا حصار جیسے مسائل سے ہم دنیا کو آگاہ کر رہے  ہیں۔ اس سے دنیا بیدار ہو رہی ہے اور دنیا کو فلسطینیوں کے حقوق اور مسئلے کی اصل نوعیت سے آگاہی مل رہی ہے۔

انٹرنیشنل القدس کانفرنس کے فورم سے ہم ایسی قراردادیں منظور کر رہے ہیں جن میں فلسطین میں اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کی مذمت کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کو متحد کرنے اور خود فلسطینیوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔

مرکز اطلاعات:القدس فاؤنڈیشن اپنے قیام کے بعد سے اب تک تہران میں چار مرتبہ کانفرنسوں کا انعقاد کر چکا ہے۔ آپ کےخیال میں فاؤنڈیشن کےاہداف و مقاصد پورے ہو پائے ہیں؟

ڈاکٹر بحر:۔۔ میں نے سنہ 2004ء اور 2009ء کی بین الاقوامی القدس کانفرنسوں میں شرکت کی۔ آج یہ  تیسری بین الاقوامی کانفرنس ہے جس میں میں شرکت کر رہا ہوں۔ اس سے قبل جتنی بھی کانفرنسیں منعقد کی گئی تھیں۔ ان میں فلسطین میں اسرائیل کے جنگی جرائم، ریاستی دہشت گردی بالخصوص غزہ کی پٹی میں مسلط معاشی ناکہ بندی کے خاتمے پر کام کرنے کے لیے ایسی کمیٹیاں تشکیل دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ان کمیٹیوں نے خاطرخواہ اقدامات کیے ہیں اور صہیونی جنگی جرائم کو نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی عدالتوں تک پہنچایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فلسطینیوں کے حقوق کا یہ پیغام ہی دنیا تک پہنچانا ایک بڑی کامیابی ہے۔

مرکزاطلاعات:۔فلسطین کی داخلی صورت حال بالخصوص مفاہمت کے بارے میں آپ کیا کہیں گے۔ کیا وجہ ہےمتفق علیہ امور بھی نافذ العمل نہیں ہو پائے؟

ڈاکٹر بحر:۔۔ حماس فلسطینی سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت اور مصالحت کو ایک اہم ترین قومی ضرورت کے طور پر دیکھتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی ذہن نشین کرا رہے ہیں کہ ہماری یہ مفاہمت خالص فلسطینیوں کے مفادات کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ اس میں کسی امریکی اور صہیونی کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔

یہی بات میں فلسطینی صدرمحمود عباس سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ قوم کو بتائیں کہ آیا 20 سال کے اس طویل عرصے میں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں کیا حاصل کیا۔ فلسطینیوں کو اسرائیل یا کسی دوسرے ملک کے ساتھ مذاکرات کی نہیں بلکہ آپس میں مفاہمت اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ فلسطین میں اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کےذریعے نہ تو یہودی آبادکاری روکی جا کتی ہے اور نہ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام مکن ہے۔ اس کے لیے فلسطینیوں کو اپنی صفوں میں اتحاد اور یگانگت پیدا کرنا ہو گی

صدر محمود عباس قابض اسرائیل کے ساتھ جتنے بھی مذاکرات کرتے رہے لیکن اس کے جواب میں اسرائیل یہودی آباد کاری کے تھپیڑے رسید کرتا رہا ہے۔ اس کی تازہ مثال سلامتی کونسل میں فلسطینی ریاست کے لیے محمود عباس کی دی جانے والی درخواست پر اسرائیل کا ردعمل ہے۔ اسرائیل نے اسی تاریخ کو جب محمود عباس سلامتی کونسل میں آزاد ریاست کےلیے درخواست دیتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا اعلان کر رہے تھے اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس میں ایک ہزار ایک سو مکانات کی تعمیر کی منظوری دے رہا تھا۔

مرکزاطلاعات:آپ کےخیال میں فلسطینیوں کی مسلح جدو جہد آج بھی اپنے جوبن ہےاور مزاحمتی گروپ پہلے ہی کی طرح مضبوط ہیں؟

ڈاکٹربحر:۔۔کیوں نہیں۔ فلسطینی قوم اپنے وطن، مسجد اقصیٰ کی آزادی اور تمام بنیادی حقوق کےحصول کے لیے مسلح مزاحمت پر یقین رکھتے ہیں۔ فلسطینیوں کو معلوم ہے کہ ان کا مقابلہ ایک رعونت پسند قابض اور جارح ایٹمی ریاست کے ساتھ ہے، جو ہروقت جدید سے جدید تر اسلحےکی تلاش میں ہے۔ ایسےمیں فلسطینی نوجوان بھی اپنے دفاع سے قطعی غافل نہیں ہو سکتے۔

فلسطینی قوم کو اسلحے سے زیادہ اپنے ایمان اور خدا پر بھروسہ اور یقین ہے،کیونکہ فتح وشکست کا فیصلہ انسان کے نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔

پوری فلسطینی قوم آپس میں مفاہمت اوردشمن کےخلاف مزاحمت پر یقین رکھتی ہے۔ ہمارا یہ مطالبہ پورے عالم اسلام کے ساتھ بھی ہے کہ ہو محض مذمتی بیانات تک خود کو محدود رکھنےکےبجائے عملی اقدامات کریں۔ اپنے تمام تر مادی اور معنوی وسائل کا رخ فلسطینیوں کی طرف موڑ دیں تاکہ فلسطینیوں کو بھی آزادی کی نعمت سے بہرہ مند کیا جا سکے۔

مرکزاطلاعات:۔آپ کے خیال میں عرب ممالک میں جاری بہار انقلاب کے مسئلہ فلسطین پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟

ڈاکٹربحر:۔۔ عرب ممالک میں جاری انقلاب کی تحریک فلسطینیوں اور مسئلہ فلسطین کےحوالے سے ایک موسم بہارہے۔عرب ممالک میں جاری انقلاب کی تحریک دراصل فلسطینیوں کے لیے خوشخبری کی ایک تحریک ہے لیکن انقلاب کی ان تحریکوں کو مغربی ممالک کی جانب سے سبوتاژ بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس بارے میں میرا وژن یہ کہتا ہے کہ انقلاب کی تحریکیں ثمرآورہوں گی اور ان کے نتیجے میں فلسطینیوں کی آزادی کی راہ ہموار ہو گی۔

مرکز اطلاعات:۔۔آپ کے خیال میں مصری انقلاب کےغزہ کی پٹی پر کیا مثبت اثرات پڑےہیں ؟

ڈاکٹربحر:۔اس بات میں مَیں یہ کہوں گا کہ سابق مصری صدر حسنی مبارک کے خلاف کامیاب ہونے والے انقلاب کا پہلا اور سب سے بڑا براہ راست اثریہ پڑا ہے کہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی کو کم کرنے میں اس نے اہم کردارادا کیا ہے۔

مرکزاطلاعات:۔ فلسطین میں پارلیمانی انتخابات کی صورت میں حماس کی کامیابی کےامکانات کس حد تک ہیں۔

ڈاکٹر بحر:۔ مجھےاس بات پر پورا یقین ہے کہ اگر فلسطین میں انتخابات شفاف اور غیر جانب دار ہوتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ حماس کی کامیابی کی صورت میں سامنے آئے گا، کیونکہ حماس نےسنہ 2006ء کے پارلیمانی انتخابات کے بعد مشکل ترین حالات میں بھی فلسطینیوں کی ہر ممکن خدمت کی ہے۔ لیکن مجھے خدشہ ہے آئندہ انتخابات میں بیرونی مداخلت کے ذریعے محمودعباس کی حمایت کو موثر ثابت کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی