جمعه 02/می/2025

القسام بریگیڈ کے اسیر مجاہد کمانڈر عباس السید کا جیل سے انٹرویو

جمعرات 27-اکتوبر-2011

اسرائیلی جیل میں فلسطین کی آزادی کے لیے جدوجہد کی پاداش میں زیرحراست فلسطینی مجاہد کمانڈر عباس السید نے مرکز اطلاعات فلسطین کواپنے ایک خصوصی انٹرویو میں اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” اور اسرائیل کے درمیان طے پائے معاہدہ احرار کو”فتح عظیم” اور فلسطینی قوم کی تاریخ کا ناقابل فراموش واقعہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ فلسطینی عوام کا فلسطینی مزاحمتی اور جہادی قوتوں پر اعتماد میں اضافہ ہوا اور اسرائیلی فوج کو اپنے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے میں سخت سبکی اور ندامت کا مظاہرہ کرنا پڑا ہے۔

اسرائیلی جیل”الرامون” میں زیرحراست حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام شہید بریگیڈ کے کمانڈر عباس السید نے کہا کہ "مومن کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا۔ جب فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو جنگی قیدی نہیں بنایا تھا اس وقت تک صہیونی جیلوں میں ایک سناٹا طاری تھا اورکسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ مزید کتنا عرصہ صہیونی جیلوں میں گذاریں گے، لیکن مجاہدین کے طاقت کے باعث ایک ہزار ستائیس فلسطینی اسیران کو صہیونی عقوبت خانوںسے رہائی ملی چکی ہے۔ باقی رہ جانے والے اسیر بھی مایوس نہیں ہیں۔ وہ اپنی رہائی سے زیادہ فلسطینی مجاہدین کی فتح ونصرت کے لیے دعا کرتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں اسیر مجاہد رہ نما نے کہا کہ چند ایک افراد کے سوا پوری فلسطینی قوم "وفاء اسیران” معاہدے کی اہمیت سے واقف ہے اور جو لوگ اس معاہدے پر تنقید کر رہے ہیں وہ کسی اور بات کا غصہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاء احرار معاہدے نے فلسطینی عوام کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے جس کے بعد ملک میں تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کے لیے بہترین فضا پیدا ہوئی ہے۔ پوری قوم کو اس سے قبل کبھی بھی اتنا یکسو اور متحد نہیں دیکھا گیا جتنا وفاء اسیران معاہدے کے دوران دیکھا گیا ہے۔

ایک دوسرے سوال کے جواب میں القسام بریگیڈ کے اسیر کمانڈر نے کہا فلسطبنی ریاست کے بارے میں بعض جماعتیں تشکیک کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ فلسطینی ریاست کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسرائیل فلسطینیوں کی پوری سرزمین خالی نہیں کر دیتا۔ جلا وطن کیے گئےتمام فلسطینیوں کو ان کے وطن میں آباد نہیں کر دیا جاتا اور اسرائیلی جیلوں سے تمام اسیران کی رہائی کا بندوبست نہیں ہوتا اس وقت تک کسی فلسطینی ریاست کے لیے بات کرنا فضول ہے۔

کمانڈر عباس السید نے فلسطینی مجاہدین پر زور دیا کہ وہ صہیونی دشمن کے خلاف اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور مزاحمت کا ہتھیار مزید تیز کرتے ہوئے مزید اسرائیلی فوجیوں کو جنگی قیدی بنائیں تاکہ بقیہ فلسطینی اسیران کو بھی صہیونی جیلوں سے رہا کرایا جا سکے۔ مرکز اطلاعات فلسطین سے عباس السید کا تفصیلی مکالمہ حسب ذیل ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ قیدیوں کے تبادلے کا سمجھوتہ طے پانے کے بعد آپ نے کیسا محسوس کیا اور جیل میں قیدیوں کی رہائی تک آپ کی کیا سرگرمیاں رہیں؟

عباس السید:۔۔ پہلے تومیں خداوند تعالیٰ کا شکر ادا کروں گا کہ اس نے ہمارے سیکڑوں بھائیوں اور بہنوں کو دشمن کی جیلوں سے رہائی کا موقع عطا فرمایا ہے۔ ہم  اس نعمت پر خدا کا جتنا بھی شکر ادا کریں تووہ کم ہے۔ البتہ جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ جب سے حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا سمجھوتہ طے پایا اس وقت سے قیدیوں کی رہائی تک جیلوں میں ہماری کیا مصروفیات رہی ہیں تو یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ جب ہم نے سنا کہ حماس نے اپنی شرائط کے مطابق جیلوں سے ایک ہزار ستائیس اسیران کی رہائی کا معاہدہ کر لیا ہے اسیران کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ میں اور میرے دیگر تمام اسیر ساتھ مسلسل اخبارات کا مطالعہ کرتے اور اطلاعات رسانی کےجتنے وسائل ہمیں میسرتھے ہم انہیں مانیٹر کرتے رہے۔ ہمیں چونکہ اسیران کی فہرست کا علم نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ ہم یہ تو نہیں جان سکتے تھے کہ رہائی پانے والوں میں کون کون سے خوش نصیب ہو سکتے ہیں، تاہم ہمارے لیے یہ بھی خوشی کی ایک بڑی بات تھی کہ چلیں کوئی تو رہائی پائے گا۔ جیل میں اسیران کی ایمانی کیفیت ایسی تھی کہ کوئی اسیر یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ تو رہا ہو جائے لیکن اس کے دیگرساتھی بدستور قید رہیں، چنانچہ جیلوں میں تمام اسیران ایک دوسرے کی بھلائی اور رہائی کے لیے دعائیں کرتے تھے۔

مرکزاطلاعات فلسطین:۔ آپ اس معاہدے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی مجاہدین نے گیلاد شالیت کورہا کرکے اپنا ہدف پورا کیا ہے؟

عباس السید:۔۔”وفاء احرار” ایک سمجھوتہ ہے جسے میں فلسطینی تاریخ کا اہم ترین اورقوم کی تزویراتی فتح قرار دوں گا۔ کامل اور اکمل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور انسانوں کے اعمال میں خامیاں ہوتی ہیں، لیکن جہاں تک حماس کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ کیے گئے قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل کا معاملہ ہے، میرے خیال میں اس پر انگلی اٹھانے کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ اس سمجھوتے سے پوری فلسطینی قوم خوش اور مطمئن ہے۔ اگرکچھ افراد نے اس پر کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ معاہدہ ناکام ثابت ہوا ہے۔ فلسطینی عوام نے دشمن کے ساتھ سنہ 1985ء کے بعد سے ایسا بے مثال معاہدہ نہیں دیکھا جس میں صہیونی دشمن کو اپنی شرائط کے سامنے اس قدر جھکایا گیا ہو۔

میں یہ بھی کہوں گا کہ ابھی تک اسیران سمجھوتے پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو پایا ہے۔ کیونکہ اسرائیل نے پہلے مرحلے میں تمام فلسطینی اسیرات کو رہا کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اس کےباوجود نو اسیر خواتین تاحال حراست میں ہیں۔ اس کے علاوہ ابھی 550 فلسطینیوں کا دوسرے مرحلے میں رہا کیا جانا باقی ہے۔

میں اپنے فلسطینی بھائیوں سے یہ بھی کہوں گا کہ وہ اپنے اسیرعزیزوں کی رہائی پر خوشی ضرور منائیں لیکن ان کی خوشی اس وقت مکمل ہو گی جب صہیونی جیلوں میں موجود تمام اسیران رہا ہوں گے۔ فلسطینیوں کو جس پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کے لیے بھی اسی طرح کوششیں کرنی چاہئیں جس طرح پہلے کی جاتی رہی ہیں۔ اسیران یہ نہیں چاہتے کہ وہ انہیں دس بیس حتی کہ پانچ سال کے لیے بھی مزید جیلوں میں رکھا جائے۔ ہم تمام اسیروں کویہ امید ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب ہم سب بھی اپنے عزیز و اقارب اور دیگر ہم وطنوں کے ساتھ آزادی کی خوشیاں منا رہے ہوں گے۔

مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ "وفاء احرار” کے بعد آپ کیا محسوس کرتے ہیں کہ آپ کو اپنی رہائی کی کب تک توقع ہے؟

عباس السید:۔۔ صہیونی جیلوں سے رہائی کی امید کبھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ ہم جتنا جتنتا جیل میں وقت گذار رہے ہیں، ہمارے اندر اپنی رہائی کے لیے امید اور اللہ پر یقین اور بھی پختہ  ہوتا جا رہا ہے۔ گیلاد شالیت کی گرفتاری کے بعد تمام اسیران کی اپنے فلسطینی مزاحمت کاروں پر بھی اعتماد بڑھا ہے۔ قیدیوں کو یقین ہے کہ فلسطینی مجاہدین اپنی جانوں پر کھیل کران کی رہائی کے لیے میدان عمل میں مصروف ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ اسرائیل کے ساتھ اسیران کی ڈیل کے ابتدائی لمحات میں بعض اطرف کی جانب سے اس سمجھوتے کو سطحی طور پر دیکھا گیا اور اس کی قوت کے پہلو کو یکسر نظرانداز کیا گیا۔ آپ اس پر کیا کہیں گے؟

عباس السید:۔۔ موجودہ حالات میں ہم (اسیران) اور تمام فلسطینی عوام خوشی اور مسرت کے دور سے گذر رہے ہیں۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ انسان ہونے کے ناطے ہر شخص میں کچھ کمزوریاں ہو سکتی ہیں۔ ممکن ہے”وفاء اسیران” کی ڈیل میں بھی کوئی ایسا کمزوری کا پہلو تلاش کر لیا جائے۔ اگر اس طرح کا کوئی ٹھوس ثبوت اور دلیل کے ساتھ بات کی جائے تو اس کا دلیل ہی کے ساتھ جواب بھی دیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں المیہ یہ ہے کہ ہمارے مخالفین کو یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ اسیران کے تبادلے کی ڈیل حماس کی کامیابی ہے۔ اس ڈیل کا حماس کو عوامی اور سیاسی سطح پر فائدہ پہنچے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ افراد نے وفاء احرار میں تشکیک پیدا کرنے اور اس میں ابہام تلاش کرنے لوگوں کو حماس سے بدظن کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا کوئی ایسا گہرا منفی اثر سامنے نہیں آئے گا کیونکہ عوام جانتے ہیں کہ حماس کی ڈیل  میں کس قدر حقیقت ہے اور اس کے مخالفین کے پروپیگنڈے میں کتنی صداقت ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مخالفین مجاہدین کی اس کامیابی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔

مرکز اطلاعات فلسطین:۔ جب معاہدے کی ابتدائی تفصیلات سامنے آئیں تو کیا آپ کو یہ توقع تھی کہ آپ نام بھی اس فہرست میں شامل ہو گا۔ فہرست میں اپنا نام شامل نہ پاکر آپ کے جذبات کیا تھے؟

عباس السید:۔۔یہ درست ہے کہ میں اور میرے ساتھ تمام اسیران کو یہ توقع تو تھی کہ ممکنہ طور پر ان کے نام بھی رہائی پانے والے خوش نصیبوں میں شامل ہوں گے۔ لیکن جب مجھے حتمی فہرست اور اس میں میرے نام کی عدم موجودگی کا علم ہو گیا تو بھی مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ میں اس فہرست سے مکمل طور پر راضی تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ میری جگہ کوئی دوسرا میرا بھائی رہا ہوا ہے مجھے امید ہے کہ میں بھی جلد رہائی حاصل کر لوں گا۔ میں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ اسیران میں قید کے دوران ایثار اور قربانی کے جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم سے کئی سال پرانے قیدی بھی موجود تھے۔ وہ ہم سے زیادہ رہائی کے حقدار تھے۔

مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ فلسطینی سیاسی دھڑے گذشتہ پانچ سال سے متحد ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن اس میں ناکامی کا سامنا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وفاء احرار فلسطینیوں کے درمیان اتحاد اور یگانگت کی کوئی راہ ہموار کرنے میں کردار ادا کرے گا؟

عباس السید:۔۔ فلسطینی دھڑوں کے درمیان باہمی اختلافات کی بنیادی وجوہات بھی ہیں۔ ان میں ایک دھڑے کا فلسطینی پناہ گزینوِں، بیت المقدس اور اسیران کے بارے میں موقف مختلف ہے۔ جب تک ان تمام امور میں اصولی قومی موقف پر تمام دھڑوں کا اتفاق رائے نہیں ہو جاتا اس وقت تک مفاہمت کی کوششیں ثمرآور ثابت نہیں ہو سکتیں۔  جہاں تک وفاء احرار کے کردار کا تعلق ہے تو اس معاہدے نے فلسطینی عوام کی صفوں میں اتحاد پیدا کر دیا ہے۔ تمام فلسطینی اب ایک لڑی میں پرو گئے ہیں۔ اب یہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ قوم کے اس موڈ اور مفاہمت کی سازگار فضاء سے فائدہ اٹھاتے ہوئے  تمام اختلافات کو بھلا کرقومی اصولوں کی بنیاد پر اتحاد کا اعلان کریں۔ یہ وقت کی ضرورت اور قوم کا دیرینہ مطالبہ بھی ہے اور اس کو نظرانداز کرنا ناشکری ہوگی۔

مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی فوجیوں کے اغواء کے بغیر اسیران کی رہائی کا کوئی اور راستہ ہو سکتا ہے؟

عباس السید:۔۔ قطعا ایسا نہیں، کیونکہ تجربے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ صہیونی حکومت کے ساتھ آج تک کی بات چیت میں کسی فلسطینی کو رہا نہیں کرایا جا سکا ہے۔ یہ ایک غیر منطقی بات ہے کہ فلسطینی انتظامیہ اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں فلسطینیوں کو رہا کرایا جا سکے گا۔ فلسطینی اتھارٹی ہزار معاہدوں پر دستخط کرے لیکن وہ نہ آج فلسطینیوں کو محض بات چیت سے رہا کرا سکتی  ہے اور نہ ہی بیس سال کے بعد۔ اس کا واحد راستہ مزاحمت کاروں کے ہاتھوں دشمن کے فوجیوں کا اغواء ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین:۔۔ آپ آزادی کے ان متوالوں کے نام کیا پیغام دیں گے جو حال ہی میں طویل اسیری کے بعد رہا ہوئے؟

عباس السید:۔۔ میں اس موقع پر یہی کہوں گا کہ ان کی رہائی کی خوشی ہماری خوشی ہے، ان کی خوش قسمتی ہم سب کی خوش قسمتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں آزادی مبارک کرے۔ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ خوشیوں بھری زندگی بسر کریں۔

خوشی کے اس موقع پر میں جیلوں سے رہائی پانے والے اپنے بھائیوں اور بہنوں سے یہ اپیل کروں گا کہ وہ فلسطینی قوم کی آزادی اور اس کے حقوق کے لیے اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں۔ ان کی رہائی کے بعد صہیونی جیلوں کی سلاح کے پیچھے ابھی ہزاروں آزادی کے مجاہد پابند سلاسل ہیں۔ ان کی رہائی کے لیے بھی آپ لوگ ہی انتظام کریں۔ مجھے امید ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی رنگ لائے گی۔ انہیں نہ صرف آزاد ملک میں سانس لینے کا موقع ملے گا بلکہ صہیونی جیلوں میں پابند سلاسل فلسطینیوں کو بھی دشمن کے مظالم سے نجات ملے گی۔

مختصر لنک:

کاپی