مسجد اقصیٰ کےمبلغ، مقبوضہ بیت المقدس میں سپریم اسلامی کمیشن کے سربراہ عکرمہ صبری نے کہا ہےکہ قابض اسرائیل کی طرف سے انہیں کل سوموارکو تحقیقات کے لیے ایک حراستی مرکز میںطلب کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے سمن کا مقصد بین الاقوامی قوانین پرہمارے اعتراض کے بعد میرا منہ بند کرنا اور اسرائیل کے انتہا پسند وزیر ایتمار بنگویر کے مکروہ عزائم کو آگے بڑھانا ہے۔
کل پیر کی صبحاسرائیلی قابض فوج نے الشیخ عکرمہ صبری کے گھر پر دھاوا بول دیا اور انہیں پوچھگچھ کے لیے سمن سونپا۔ اسرائیلی پولیس انہیں ساتھ لی گئی اور ایک حراستی مرکز میںکئی گھنٹے ان سےپوچھ تاچھ کی گئی۔
الشیخ صبری نےمرکزاطلاعات فلسطین کو بتایا کہ "یہ سمن اسرائیلی حکومت کی جانب سے بن گویرکے اختیار پر خطرناک گیارہ آئٹم پر مشتمل دستاویز شائع کرنے کے بعد آیا ہے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ "یہ سمن غیر قانونی اور بلاجواز ہے اور اس کا مقصد اس دستاویز کیمخالفت کو روکنا ہےلیکن ہم اپنے موقف کو غیر تبدیل شدہ عقیدے کی ایک اسٹریٹجک پوزیشنکے طور پر سمجھتے ہیں۔ اس کا تعلق مسجد اقصیٰ پر ہمارے قانونی مذہبی حق سے ہے اورہم مسجد اقصیٰ کو پہنچنے والے کسی بھی نقصان کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں۔”
صہیونی میڈیا نےحال ہی میں 11 آرٹیکلز پر مشتمل ایک دستاویز شائع کی تھی جس میں مسجد اقصیٰ کے لیےخطرے کی حد کو ظاہر کیا گیا ہے۔الشیخ عکرمہ نے ہمارے نامہ نگار کو بتایا کہ اس میںموجود ہر چیز اس سے پہلے کی چیز سے زیادہ خطرناک ہے۔
اسرائیلی وزیربرائے قومی سلامتی ایتمار بن گویرنے کل اتوار کی شام اعلان کیا کہ وہ مقبوضہ بیتالمقدس میں مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے جاری کردہ ایکمختصر بیان میں کہا کہ قابض پولیس کو مزید تقویت دینے کی تیاری کررہے ہیںتاکہ القدس میں ان کی افواج الاقصیٰ کےصحنوں پر حملے کے دوران بن گویر کو تحفظ فراہم کرے۔
ادھرصہیونی قابضحکام نے پیر کی شام سپریم اسلامک کمیشن کے سربراہ اور مسجد اقصیٰ کے امام و خطیب الشیخعکرمہ صبری کو کئی گھنٹے تک پوچھ گچھ کے بعد رہا کردیا۔
بیت المقدس کےذرائع نے بتایا کہ قابض حکام نے الشیخ "صبری” سے القدس کے المسکوبیہ تحقیقاتیمرکز میں پوچھ گچھ کی اور انہیں صبح تفتیش کے لیے سمن سونپ تھا۔
قابض انٹیلی جنسایجنٹوں نے السوانہ محلے میں اسّی سالہ الشیخ کے گھر پر دھاوا بولا اور اسے”المسکوبیہ” مرکز کے کمرہ نمبر 4 میں تفتیش کے لیے طلب کیا۔
گٓذشتہ برسوں کےدوران صبری کو متعدد بار گرفتار کیا گیا اور پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا گیا۔ کئی مہینوںکے لیے مسجد اقصیٰ اور اس کے گردونواح سے دور رکھا گیا ، ملک سے باہر سفر کرنے پرپابندی عائد کی گئی اور مقبوضہ اندرون فلسطین کی فلسطینی شخصیات کے ساتھ بات چیتسے بھی روکا گیا۔