اسرائیلی ریاستکی جیلوں میں چالیس سال تک قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد رہائی پانے والےفلسطین کے عظیم مجاھد اور بطل حریت کریم یونس کو پوری قوم کی طرف سے خراج تحسینپیش کیا جا رہا ہے۔
اگرچہ قابض فوج کیجانب سے کریم یونس کے استقبال پر فلسطینیوں کی خوشی کم کرنے کی کوشش کے باوجودفلسطین کے مختلف علاقوں میں ان کی رہائی کا جشن منایا جا رہا ہے۔
ویسے تو ہزاروںفلسطینی قابض عبرانی ریاست کی جیلوں میں قید کاٹ چکے ہیں مگر کریم یونس وہ فلسطینیہیں جن کی زندگی کے چالیس قیمتی سال قابض ریاست کی جیلوں کی نذر ہوئے۔ اس دورانقابض دشمن کی طرف سے انہیں طرح طرح کے ظلم کا نشانہ بنایا گیا مگردشمن کا کوئی واران کے پائے استقامت میں لرزش پیدا نہیں کرسکا۔
چالیس سال اسرائیلی زندانوں میں قید رہنے والےکریم یونس کی رہائی کے بعد فلسطین کے مختلف علاقوں میں ان کی رہائی کا جشن منایاجا رہا ہے۔ اس میں غزہ کی پٹی میں استقبالیہ تقریبات بھی شامل ہیں۔
فلسطینیوں نے سابقاسیرکریم یونس کی بہادری کو ایک دیوار پران کی تصویر کی پینٹنگ کے ذریعے انہیںخراج تحسین پیش کیا۔ دوسری طرف قابض اسرائیلی فوج نے فلسطین کے تمام شہروں میںکریم یونس کی رہائی پر ہر قسم کی جشن منانے سے روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کیاگیا۔
یہ دیوار غزہ شہرکے وسط میں انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کے ہیڈ کوارٹر کے قریب واقع ہے جس پرکریمیونس کی تصویر پینٹ کی گئی۔ ریڈ کراس کے دفتر کے قریب کریم یونس کی تصویر مجسمکرنے کا مقصد انسانی حقوق کے اداروں کو اسرائیلی زندانوں میں قید فلسطینیوں کےمصائب اور اسرائیلی ریاست کے جرائم اور مظالم کی طرف متوجہ کرنا ہے۔
غزہ شہر کی سڑکوںکو سابق اسیر کریم یونس کی بڑی بڑی تصویروں اور پوسٹروں سے سجایا گیا ہے۔ جب کہ انکی رہائی پر جشن اور خوشی کا ماحول دیکھا جا رہا ہے۔ جشن منانے والوں نے تمام قیدیوںکی جلد رہائی کی امید کا اظہار کیا۔
وفاداری کا لمس
ایسوسی ایشنبرائے اسیران وسابق اسیران کے ڈائریکٹر عبداللہ قندیل نے کہا کہ ان کی انجمن نے اسدیوار کی پینٹنگ کی۔ یہ دیوار وفاداری کےلمس اور کریم یونس کی رہائی پر خوشی اور مسرت کے مظہر کے طور پر تیار کی گئی ہے۔
قندیل نےمرکزاطلاعات فلسطین کو بتایا کہ یہ دیوار اس آزادی پسند مجاھد کے لیے خوشی اورعلامتی خراج تحسین ہے، جس نے مسلسل 40 سال قابض ریاست کی جیلوں میں گذارے۔ وہ اس اعزاز اور اس سے زیادہ کے مستحق ہیں۔
واعد ایسوسی ایشنکے ڈائریکٹر نے نشاندہی کی کہ رہائی کا طریقہ کار ہیرو کریم یونس اور ہمارے تمامخاندانوں کے خلاف قابض ریاست کی چھپی نفرت کا ثبوت ہے۔
اس دیوار میں سابقاسیر کریم یونس کی تصویر تیار کی گئی۔ اس کے ساتھ فلسطینی پرچم کی تصویر اٹھائے ایکنوجوان کودکھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی قیدی یونس کا خاردار تار سے باہر نکلنے کا منظردکھایا گیا ہے۔
علامتی خراج تحسین
آرٹسٹ ثائر الطویلنے دیوارپینٹ کرنے کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے اور اس وال آرٹ میں خوب رنگبھرا ہے۔ اس نے اور ان کے ساتھیوں کے ایک گروپ نے کل رات سے پینٹ کرنا شروع کر دیا۔اس وال آرٹ کا مقصد فن کے ذریعے اتحاد و یکجہتیکا پیغام دینا ہے۔ یہ آرٹ فلسطینی خون اور جسم کی وحدت اور فلسطینی قوم کی مستقبلکی علامت ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطینکو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بطل حریت کریم یونس کی آزادی اس بات کی امیدہے کہ آزادی تمام قیدیوں کا مقدربنے گی خواہ اسیری کے سال کتنے ہی طویل کیوں نہہوں اور مصائب و آلام کی راتیں لمبی کیوں نہ ہوں۔ دیوار اسیران کے لیے ایک سادہعلامتی خراج تحسین ہے جسے ہم آزاد ہونے والے یونس کو پیش کر سکتے ہیں۔
فائن آرٹسٹ محمدابو لیلہ نے وضاحت کی کہ اس دیوار میں کافیغور و خوض کے بعد انہیں ان کے لیے ہیرو یونس کی تصویر سے بہتر کوئی تصویر نہیں ملی۔
ابو لیلہ نےہمارے رپورٹر کو بتایا کہ کریم یونس کی تصویر اور خصوصیات اس درد اور تکلیف کااظہار کرتی ہیں جو انہوں نے مسلسل چالیس سال تک قابض ریاست کی جیلوں میں برداشت کی۔انہوں نے کہا کہ ڈرائنگ میں استعمال ہونے والے رنگ آزادی کی علامت کا اظہار کر رہےہیں اور غروب آفتاب کے غروب ہونے کی نہیں بلکہ مشرق سے ایک بار پھر چمکنے کی علامتاور اسیران کی رہائی کی خوش خبری کی علامتہے۔