چهارشنبه 30/آوریل/2025

"القدس اور مسجد اقصیٰ کی خاطر ہزار بار جیل جانے کو تیار ہوں”

پیر 7-مئی-2012

فلسطین کے سنہ 1948ء کے اسرائیلی قبضے میں چلے گئے شہروں میں فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم "تحریک اسلامی” کے صدراور ممتاز حریت پسند فلسطینی لیڈر شیخ رائد صلاح نے کہا ہے کہ جولوگ اسرائیل کے ویزے پر بیت المقدس یا مسجد اقصیٰ کا دورہ کرتے ہیں وہ اسرائیل کے پروگرام پرچل رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے بیت المقدس پر جب تک اسرائیل کا قبضہ برقرار ہے اس وقت تک فلسطین کے باہر سے کسی اسلامی یا عالمی شخصیت کے لیے یہ بات قطعی طورپر جائز نہیں ہے کہ وہ صہیونی ریاست سے ویزہ لے کربیت المقدس کا دورہ کرے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے یہ تاثر جاتا ہے کہ القدس پر اسرائیل کا قبضہ درست ہے۔

شیخ رائد صلاح کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے گردوپیش میں یہودی آباد کاری اور قبلہ اول کی بنیادوں تلے کھودی گئی سرنگوں کے باعث مسجد کو سنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ عالمی برادری بالخصوص مسلم امہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ فلسطینی حریت پسند لیڈر نے ان خیالات کا اظہار "مرکزاطلاعات فلسطین”  کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے انہیں مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس میں جانےسے روکنے کے لیے ان کےخلاف جعلی مقدمات تیار کرنا شروع کیے ہیں، تاہم وہ قبلہ اول اور بیت المقدس میں جانے کی غلطی باربار کریں گے، چاہیے انہیں کئی بار جیل کیوں نہ جانا پڑے۔ ذیل میں ان کا یہ انٹرویو اردو قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

(یہاں یہ بات اردو قارئین کی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ شیخ رائد صلاح گذشتہ برس جون میں برطانیہ میں ایک فلسطینی فورم میں خطاب کرنے گئے تو برطانوی پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا تھا، بعد ازاں انہیں ملک بدرکرنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے برطانیہ کی عدالت میں اپنے آئینی دورے کا مقدمہ لڑا اور کامیاب رہے۔ برطانوی پولیس کو مقدمہ میں شکست ہوئی اور وہ ایک سال کے بعد مقدمہ جیت کر ایک پہلے وطن واپس لوٹے ہیں”۔

پی آئی سی:۔ برطانیہ میں آپ کے خلاف جاری مقدمہ اور ادھر اسرائیل کی طرف سے مسجد اقصیٰ میں داخلے پر پابندی سے متعلق امورمیں کیا پیش رفت ہے؟

شیخ رائد:۔۔ابھی تک توصہیونی حکومت کی جانب سے مجھے بیت المقدس میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایک فوجی قانون کے تحت مجھے بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ میں جانے سے روکا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ مجھے ان مقدس مقامات کی زیارت سے روکنے کے لیے مسلسل دباؤ کا سامنا ہے۔ اسرائیلی حکومت اور فوج نے میرے خلاف جعلی مقدمات کی تیاری شروع کی ہے۔ یہ مقدمات آئندہ چند ماہ میں دائر کردیے جائیں گے۔ ان کا اصل مقصد مجھے بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی زیارت سے محروم رکھنا ہے۔ پہلے مجھے اور اسرائیلی رکن کنیسٹ حنین زعبی کوفریڈم فلوٹیلا میں شرکت کے تحت ایک مقدمہ چلا کر پھنسانے کی ناکام کوشش کی اب اور کئی اوربہانے تراش لیے گئے ہیں۔

جہاں تک برطانیہ میں میری جبری جلا وطنی کا مقدمہ چل رہا تھا اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے میں نےاس میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ میں نے برطانوی وزارت داخلہ کے اس اقدام کو غیرقانونی ثابت کیا ہے جس میں انہوں نے مجھے برطانیہ سے نکالنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اس وقت برطانیہ میں دائر مقدمہ کے اس دوسرے حصے میں میرے وکلاء بھرپور دفاع کررہے ہیں۔ یہ مقدمہ ہم نے ان اخبارات، صحافیوں اور صہیونی نواز لابی کےخلاف کرایا تھا جو ہمیں برطانیہ کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینے کی کوشش کررہے تھے۔ اب میرے وکلاء برطانوی پولیس کے ہاتھوں ہونے والی تضحیک اور ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے اور اسرائیل کی جانب سے جعلی دستاویزات کی فراہمی کے مقدمات پرغور جاری ہے۔ ان تمام مقدمات میں مَیں انشاء اللہ بری ہوں گا اور ثابت کروں گا کہ میرے دورہ برطانیہ میں رکاوٹیں ڈالنے والوں میں اصل ہاتھ اسرائیل اور یہودی لابی کا تھا۔

پی آئی سی:۔۔ آپ کو مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے دورے سے روکنے جو سازش کی گئی ہے۔ آپ اس کا کس طرح تعاقب کررہے ہیں۔ کیا یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ پابندی عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے؟

شیخ رائد:۔ جہاں تک اسرائیل کا مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے ساتھ معاملہ ہے تو وہ کسی قاعدے اور قانون کے تحت ہے ہی نہیں۔ اسرائیل بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے بارے میں کسی عالمی یا علاقائی قانون تو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کی پوری کوشش یہ ہے کہ وہ بیت المقدس کو مکمل طورپر یہودیت کے رنگ میں رنگ دے اور مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کرے۔

اس وقت اسرائیل یہودی آبادکاری کے ایک "ہسٹیریا” کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے وہ جنگی بنیادوں پر مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کی سازشیں اور بیت المقدس کو یہودیت میں تبدیل کر رہا ہے۔ میں اس موقع پر بھی وہی بات کہوں گا جو میں پہلے بھی بار بار کہتا رہتا ہوں کہ اسرائیل کو ایک نہ ایک وقت بیت المقدس سے اپنا بوریا بستر اٹھانا ہوگا۔ کیونکہ ایک غیرآئینی حیثیت کبھی مضبوط نہیں رہ سکتی۔ اسرائیل کا قبضہ غیرآئینی تھا اور غیرآئینی ہی رہے گا۔ پوری دنیا اس قبضے کو غیرآئینی تسلیم کرتی ہے۔

پی آئی سی:۔۔ آپ کے خیال میں اسرائیلی حکومت نے آپ کے القدس اور مسجد اقصیٰ میں داخلے پرپابندی عائد کی ہیں۔ ان کے کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے اور القدس کے لیے آپ کی خدمات کس حد تک متاثر ہوں گی؟

شیخ رائد:۔۔ اسرائیل کی تمام تر پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود میں اس کوشش میں ہوں کہ میں زیادہ سے زیادہ وقت اپنا بیت المقدس میں گزاروں۔ گوکہ میں اس وقت القدس میں نہیں لیکن الحمد  للہ میں اہالیان القدس سے مسلسل رابطے میں ہوں۔ وہاں پرہونے والی کسی بھی قسم کی سرگرمی سے آگاہ ہوں۔ کون آ رہا اور کون جا رہا ہے۔ یہودی کیا کر رہے ہیں۔ فلسطینیوں کو کیا مشکلات درپیش ہیں۔ ان تمام باتوں کی مجھے پل پل کی خبریں مل رہی ہیں۔ ہم سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں کے شہر پہلے بھی القدس کے باشندوں کے سب سے بڑے حمایتی اور مدد رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ فلسطین میں صرف میں اکیلا نہیں ہوں بلکہ لاکھوں لوگ ہیں، اسرائیل کس کس پرپابندی لگائے گا۔ اسرائیل نے مفتی مسجد اقصیٰ شیخ عکرمہ صبری پرپابندی لگائی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ تمام پابندیاں ہمارے راستے میں رکاوٹ نہیں بنیں گی بلکہ اس سےہمارا یہ یقین اور ایمان اور پختہ ہوجائے گا کہ القدس پردشمن کا قبضہ ہے اور ہم نے مل کراسے قبضے سے چھڑانا ہے۔

پی آئی سی:۔۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے بیت المقدس میں یہودیت کے فروغ کی سرگرمیوں اور مسجد اقصیٰ پرچھاپوں کےاثرات مرتب ہو رہے ہیں؟

شیخ رائد:۔۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور بیت المقدس میں یہودیت کے فروغ کے لیے اس شدت سے کارروائیاں کر رہا ہے،جس سے ایسے لگتا ہے کہ اسرائیلیوں کوہسٹیریا ہو گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عالم عرب اور عالم اسلام کی طرف سے القدس کے معاملے میں وہ توجہ نہیں رہی جو دو سال پہلے تک تھی۔ تاہم یہ بھی ایک خوش آئند بات ہے کہ عرب ممالک میں عوامی شعور میں آنے والے انقلابات نے بھی القدس کی آزادی کی منزل کو قریب کیا ہے۔ ایک یہ احتمال بھی ہے کہ اسرائیل اس لیے جنگی بنیادوں پر اپنے منصوبے آگے بڑھا رہا ہے کیونکہ اسے دکھائی دے رہا ہے کہ عرب ممالک میں آنے والی تبدیلیاں مستقبل میں اسے اس طرح کی کارروائیوں کا موقع نہیں دیں گی۔ اس لیے اس نے اپنی سازشوں کو تیز سے تیر کرنا شروع کر دیا ہے۔

جہاں تک یہودی آباد کاری کے اثرات کا تعلق ہےتو یہ پوری دنیا کے سامنے عیاں ہے کہ فلسطینیوں کابیت المقدس میں ناطقہ بند کیا جا رہا ہے۔ ان کے گھروں کو مسمار کر کے انہیں وہاں سےنکالنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود فلسطینی القدس میں ڈٹ کر کھڑے ہیں اور وہ پوری قوت کے ساتھ صہیونیوں کے جرائم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

پی آئی سی:۔۔ حالیہ کچھ دنوں کے دوران کئی عالمی اسلامی شخصیات نے بیت المقدس اسرائیلی ویزے پر دورہ کیاجس پر ایک نئی بحث بھی شروع ہوچکی ہے۔ آپ ان دوروں کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ کیا یہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کی کوشش نہیں؟

شیخ رائد:۔۔ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ تمام مسلمانوں کی مشترکہ ملکیت ہے، اس کے دورے سے کسی  مسلمان کو نہیں روکا جا سکتا، لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت بیت المقدس کی حیثیت ایک متنازعہ علاقے بلکہ مقبوضہ علاقے کی ہے۔ اس وقت بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی زیارت کے لیے وہی شخص آ سکتا ہے جسے اسرائیل اجازت فراہم کرے۔ چنانچہ اسرائیل عالمی شخصیات کے دوروں کے لیے انہیں ویزے جاری کرتا ہے۔ حالانکہ مقبوضہ بیت المقدس کی زیارت بغیر کسی ویزے کے ہونی چاہیے۔ ایسے میں جولوگ اسرائیل سے ویزہ لے کربیت المقدس کی زیارت کرتے ہیں،وہ نہ صرف اسرائیل کا القدس پرقبضہ جائز تسلیم کرانے کی کوشش کررہے ہیں بلکہ وہ اس عالمی اسلامی موقف سے بھی انحراف کر رہے ہیں جو سال ہا سال سے عالم اسلام نے اپنا رکھا ہے۔ اسرائیل نے سنہ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل پرناجائز قبضہ کیا، اس کے بعد تمام مسلمانوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ اس قبضے کو ختم کرانے کے لیے تمام محاذوں پرجدوجہد کرتے، اسرائیل کا قبضہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے صہیونی ویزہ پالیسی کومسترد کر دیتے، لیکن ہمیں افسوس ہے کہ حالیہ کچھ عرصے سے کچھ لوگوں نے اسرائیلی حکومت سے ویزہ لینے کے بعد اسرائیلی فوج اور پولیس کی نگرانی میں بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کا دورہ کیا ہے۔ یہ صہیونی ریاست کوتسلیم کرنے، اس کا قبضہ درست قرار دینے، مسجد اقصیٰ کے خلاف جاری صہیونی کارروائیوں کی حمایت کرنے اور یہودی آباد کاری کو جواز فراہم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ کوئی بھی فلسطینی ان شخصیات کے دورہ القدس کو تسلیم نہیں کرتا۔

بیت المقدس کے کسی بھی علاقے میں چاہے وہ بیت صفافا ہو، عیسویہ ہو، سلوان، ہو، بستان ہو یا کوئی بھی جگہ ہواس کی زیارت کے لیے اسرائیل سے ویزہ لینے کے بعد وہاں آنا اسرائیل کے پروگرام کو آگے بڑھانا ہے۔ یہ تو اسرائیل کی خواہش ہے کہ وہ عالمی شخصیات کو زیادہ سے زیادہ ویزے جاری کر کے یہ باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ القدس میں اسلامی شخصیات بھی آ رہی ہیں۔ ان کی آمد اس بات کی علامت ہے کہ انہوں نے القدس پراسرائیل کا تسلط تسلیم کر لیا ہے۔

جن شخصیات نے بیت المقدس کے دورے کے لیے اسرائیل سے ویزہ لیا اور وہاں آئے، انہوں نے فلسطینی اورعالمی رد عمل بھی دیکھ لیا ہے۔ مجھے توقع ہے کہ اب وہ شخصیات دوبارہ اس طرح کی حماقت نہیں کریں گی۔

پی آئی سی:۔۔ آپ فلسطینی بھوک ہڑتالی اسیران کی بھوک ہڑتال تحریک کو کیسے دیکھتے ہیں؟

شیخ رائد:۔۔ فلسطینی اسیران قوم کے بنیادی اصولوں اور حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، وہ اسرائیلی جیلوں ہی میں نہیں بلکہ اب عالمی فورمز پر بالواسطہ طورپر”فلسطینی کاز” کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں۔ تمام اسیران کا جرم یہ ہے کہ وہ حق واپسی چاہتے ہیں۔ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ پر یہودہوں کے قبضے کو تسلیم کرنےسے انکاری ہیں۔ ہم فلسطینی اسیران کی بھوک ہڑتال میں ان کے ساتھ ہیں۔ ہمیں انہیں اپنی جانوں کو مشکل میں ڈال کر مسئلہ فلسطین کے لیے قربانیاں دینے کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

 مجھے یقین ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب تمام فلسطینی اسیران کو صہیونی جیلوں سے رہائی نصیب ہو گی اور یہ بھی میرا ایمان ہےکہ جب تک آخری فلسطینی اسرائیل کی جیلوں میں ہے اس وقت تک فلسطین آزاد نہیں ہوسکتا۔

پی آئی سی:۔ حماس اور فتح کے درمیان مفاہمتی مساعی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے۔ کیا آپ کو فلسطینیوں کے درمیان دور رس اتحاد کی توقع ہے؟

 شیخ رائد:۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ فلسطینی عوام اور قوم میں تو وحدت اور اتحاد موجود ہے۔ فلسطین کا ہر گھر وحدت کی علامت ہے، جس طرح ایک گھر میں مختلف افراد کی آراء مختلف ہو سکتی ہیں، بعینہ ایک قوم کےافراد کی آراء میں بھی اسی طرح کا اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔ فلسطینی قوم بھی اس اختلاف رائے سے خالی نہیں۔ البتہ سیاسی سطح پرمختلف سیاسی جماعتوں کو سرجوڑ کر بیٹھنے کی جتنی ضرورت آج ہے ماضی میں نہ تھی۔ فلسطینیوں کو تقسیم میں رکھنا اسرائیل کی خواہش ہے، فلسطینی سیاسی جماعتوں کو یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا وہ اختلافات کا شکار ہو کر کس کی خدمت کر رہے ہیں؟۔

مختصر لنک:

کاپی