مقامی ذرائع نے مرکز اطلاعات فلسطین کے نمائندہ کو بتایا کہ درجنوں نوجوانوں نے مشرقی علاقہ میں کینٹینرز، پتھر اور جلتے ٹائر رکھ کر رستے بلاک کر دیے۔ نیز نوجوانوں نے پتھروں اور پیٹرول بموں سے اسرائیلی فوج کی گشت کرنے والی گاڑیوں پر حملہ کیا۔
ان جھڑپوں کا آغاز اس وقت ہوا جب بلڈوزروں اور گاڑیوں پر سوار اسرائیلی فوجیوں نے نابلس کے مشرقی کی گلیوں پر دھاوا بولا تاکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے مزار پر مذہبی رسومات ادا کرنے کے خواہش مند یہودی آبادکاروں اور ان کی گاڑیوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
اس سے پہلے یہودی آبادکاروں کی گاڑیاں فوج کی نگرانی میں حضرت یوسف کے مزار پر پہنچنے میں کامیاب ہو پاتیں عرین الاسد نامی مسلح مزاحمتی جنگجوؤں نے اسرائیلی فورسز پر فائرنگ اور ان کے گاڑیوں پر دھماکہ خیز مواد سے حملہ کیا۔
مقامی ذرائع کے مطابق قابض اسرائیلی فورسز کے زیر استعمال بلڈوزر نے گندگی کا ڈھیر سڑک میں لا کر عمان سٹریٹ کا راستہ بند کیا تو اس کے بعد نوجوان مظاہرین اور فوجیوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، جس کے بعد اسرائیل نے شہر کے مختلف علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں کے دروان مکانات اور صحافیوں پر شدید آنسو گیس شیلنگ اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔
جیسے ہی قابض فورسز کی گاڑیوں نے نابلس کے مشرقی علاقے میں داخلے کی کوشش کی تو مقامی ذرائع کے بہ قول نوجوانوں نے فوجیوں پر فائر کریکرز اور پیڑول بموں سے حملہ کرنے سے پہلے سڑک پر تیل چھڑکا اور پھر وہاں جلتے ہوئے ربڑ کے ٹائر لگا
کر سڑک بند کر دی۔
بعد ازاں ہلال احمر نے بتایا کہ انہوں نے فوجی جیپ تلے روندے جانے والے ایک نوجوان سمیت متعدد زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی۔ آنسو گیس شیل لگنے، ہڈی ٹوٹنے اور بلٹ سے چہرے پر لگنے والوں زخموں کے علاج کی خاطر متعدد افراد کو رفیدہ ہسپتال منتقل کیا
ہلال احمر کے طبی عملے نے ربڑ گولیاں لگنے سے زخمی ہونے والے پانچ شہریوں سمیت 35 ان افراد کو بھی طبی امداد فراہم کی جن کی حالت آنسو گیس سے غیر ہوئی تھی۔
درایں اثنا درجنوں یہودی آبادکار حضرت یوسف کے مزار کے احاطے میں جمع ہو گئے جہاں وہ گھنٹوں جنونی انداز میں بلند آواز گانے گاتے اور رقص کرتے رہے جس سے مزار کے اردگرد رہنے والوں کو شدید ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑا۔
یاد رہے کہ اسرائیلی فوجی اور آبادکار ہر ہفتے نابلس کے مشرقی علاقہ میں اپنی رسومات ادا کرنے آتے ہیں۔
انکا ماننا ہے کہ یہ حضرت یوسف علیہ سلام کی آخری آرامگاہ ہے جبکہ فلسطینی تاریخ دانوں نے قبر کی شناخت بطور ایک قدیم مسلم بزرگ یوسف الدویک کے نام سے کی ہے۔