جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیل تزویراتی اور اقتصادی مفادات کیلیے افریقا کے کچھ حصوں میں قدم جمانا چاہتا ہے

منگل 26-فروری-2013

مالی میں فرانس کی مداخلت سے پیدا ہونے والی صورتحال کو اسرائیلی تبصرہ نگار صہیونی ریاست کے لیے ”سفارتی موقع”کی خاطر استعمال کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں ۔ اسرائیل کی بہت پرانی خواہش ہے کہ وہ تزویراتی (سٹریٹیجک)اور اقتصادی مفادات کیلیے افریقا کے کچھ حصوں میں قدم جمائے۔ یہ وسیع و عریض براعظم توانائی کے وسائل اور پانی سے مالا مال ہے، مستقبل کی ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ بھی ہے
 
اسرائیل پہلے ہی افریقا کے اکثر غیر مسلم ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکا ہے لیکن مالی نیجر اور اسی طرح کے کئی دوسرے ممالک نے اس کیساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔اسرائیل یہ کوشش کریگا کہ وہ ساحل کے ان ممالک کو اپنا دوست اور شمال میں دشمن عرب اقوام کے خلاف اپنا پشت پناہ بنائے۔ یہ کام وہ انہیں عرب دنیا کا مخالف بنانے یا ان کے میں پہلے سے موجود مخالفانہ جذبات کو ہوا دے کر کرنا چاہتا ہے۔ مالی کے نئے صدر دیون کونڈاترورے گزشتہ کئی ہفتوں سے اسی طرح کے بیانات دے بھی رہے ہیں ۔ جنوری کے آخری ہفتے کے دوران صدر اترورے نے عدیس ابابا میں افریقن یونین کے سربراہی اجلاس میں کہا کہ وہ عرب ممالک سے خطرہ محسوس کرتے ہیں ۔
 
دوسری جانب عرب رہنماوں نے افریقا میں فرانس کی فوجی مداخلت کو ہدف تنقید بنایا ۔ انہوں نے کہا کہ فرانس انتہا پسند مسلم جنگجوؤں کو مالی سے نکالنے میں ناکام رہا ہے ۔ مالی کے کچھ اخبارات نے بھی مضامین شائع کیے جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عرب مالک اور ایران اسلامی جنگجوؤں کی فعال حمایت کر رہے ہیں ۔لامائن نامی اخبار نے فلسطینی حریت پسند آرگنائزیشن (پی ایل او)کے بماکو میں سفیر کو اس ضمن میں شدید نکتہ چینی کا ہدف بنایا ہے ۔ اسرائیل کے لیے سفارتی موقع اس کے باوجود موجود رہا کہ رواں ماہ قاہرہ میں اسلامی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا جس میں ستاون ارکان کی حمایت سے ایک قرار داد منظور کی گئی جس میں مالی حکومت کے اتحاد اور جغرافیائی سلامتی کیلیے اس کی کوششوں کی حمایت کرنے کے علاوہ مغربی افریقا میں دہشت گردی کی بھر پور مذمت کی گئی۔

اسرائیل نے تزویراتی  طور پر اہم افریقی ممالک کی ہمدردیاں حاصل کرنے کا آغاز 2009ء میں جب وزیر خارجہ اویگڈور لیبر مین (جن پر آج کل فراڈ اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا مقدمہ چل رہا ہے)کی قیادت میں اسرائیلی تاجروں کا ایک وفد افریقا لے گئے تھے۔ اس وفد میں توانائی ، آبپاشی ، اسلحہ فروشی اور دوسرے کئی شعبوں کے لوگ شامل تھے۔یہ وہی لیبر مین ہیں جو کبھی اسوان ڈیم کو تباہ کرنے اور مصر کو ڈبو دینے کی دھمکیاں دیتے رہے لیکن اب وہ افریقی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کی راہیں تلاش کرنے اور ان کے ساتھ اسلحے کے معاہدے کرنے کے لیے بے چین ہیں ۔ یہاں یہ نکتہ پیش نظر رہے کہ نو آبادتی دور میں جو معاہدے ہوئے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ مصر اور سوڈان نیچے آتے دریا نیل کے پانی کے بہت بڑے حصے پر اپنے حق کا دعویٰ کرتے تھے اور آج بھی وہ اس سے دستبردار نہیں ہوئے۔ اس صورتحال کو اسرائیل اپنے مذموم مقاصد کیلیے استعمال کر رہا ہے ۔ وہ دریا کے بہاو کے اوپر والے حصوں کے قریب واقع ممالک کو اپنی محرومی کا احساس دلا رہا ہے ۔ وہ انہیں ہائیڈروپروجیکٹ ۔۔۔۔ ڈیم اور آبپاشی کا نظام تعمیر کرنے کے ترغیبیں دے رہا ہے۔

لیبر مین نے 2009 ء میں جن پانچ افریقی ممالک کا دورہ کیا ان میں سے تین دریائے نیل کے مختلف منبوں کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ تانا چھیل ایتھوپیا میں ہے جو نیلے دریائے نیل کا دہانہ جبکہ وکٹوریا جھیل  جہاں سے سفید نیل شروع ہوتا ہے مشترکہ طور پر کینیا اور یوگنڈا کے کنٹرول میں ہے۔

 2012ء میں اسرائیل نے تازہ تازہ علیحدگی اختیار کرنے والے ملک جنوبی سوڈان (جس کا زیادہ ترحصہ عرب ہے)سے باہمی تعاون کے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے جس میں اسرائیل سے عہد کیا کہ وہ اس نے
 نظام آبپاشی کی تعمیر اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں تعاون فراہم کرے گا۔2009ء میں لیبر مین کا دورہ اس حقیقت سے غیر متعلق نہیں تھا کہ ان سے چند ماہ قبل ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے بھی افریقہ کا دورہ کیا تھا۔ بظاہر ان کا مقصد یورینیم کے فراہم کنندگان کی تلاش تھی ۔ یہاں سے اب ہم واپس مالی کی جانب آتے ہیں ۔ساحل کے علاقے میں یورینیم دنیا کا پانچواں بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ نیجر میں ہے لیکن مالی میں بھی سترہ ہزار ٹن کے ذخائر موجود ہیں جنہیں ابھی ہاتھ نہیں لگایا گیا ۔ 2012ء میں اسی ملک کے شمال مغربی حصے میں یورینیم کے نئے ذخائر دریافت ہوئے ۔ انہی علاقوں میں مسلم جنگجوؤں نے اپنے ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں ۔

فرانس اپنی بجلی کی کل ضروریات کا اٹھہتر فیصد حصہ جوہری توانائی سے پورا کرتا ہے اور جوہری توانائی کیلیے درکار یورینیم کا پانچواں حصہ نیجرسے حاصل کرتا ہے ۔ یقینا ًیہی وجہ ہے کہ فرانسیسی صدر ہالینڈ نے مالی میں مداخلت کرنے کا فیصلہ کیا ۔ گزشتہ ہفتے فرانس کے خصوصی دستے نیجر کی سرحد پر تعینات کیے گئے تاکہ وہ آرلٹ نامی یورینیم کی کان کی حفاظت کریں ۔ فرانس نے صدر دیون کونڈاترورے کی عبوری حکومت کا دفاع کر کے دو مقاصد حاصل کیے ۔۔۔۔ مالی کو خوش کیا اور اپنے اہم توانائی کے ذخائر کو بھی محفوظ بنا لیا۔توانائی کی سفارت کاری جسے فوجی تعاون حاصل ہے افریقا میں داخل ہونے کا تازہ ترین ”راستہ ”ہے ۔ بعض مبصرین نے اسے نو آبادیات کی نئی شکل قرار دیا ہے ۔ 2011ء میں برطانیہ نے پہلی ”انرجی سیکورٹی سٹریٹیجی ”وضع کی تھی جس میں الجزائر اور لیبیا کے تیل و گیس کے وسائل کو بڑی اہمیت دی گئی تھی ۔ برطانیہ نے معمر قذافی کی معزولی کیلیے کی جانے والی فوجی کارروائی میں بھی فعال کردار ادا کیا تھا ۔ صحرائے اعظم میں یرغمالیوں کے بحران کے سلسلے میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے الجزائر کا خصوصی دورہ کیا جہاں انہوں نے برطانیہ کی شراکت داری اور سیکورٹی فورسز کو تربیت دینے کی پیشکش کی۔2011ء کی خانہ جنگی میں فرانس اور اسرائیل نے پراکسی وار میں حصہ لیا ۔ فرانس نے السان ٹاور کی زیر قیادت باغیوں کی حمایت کی جبکہ اسرائیل نے صدر لارنٹ بوگابگوکا ساتھ دیا ۔اب مالی میں اسرائیل کا خیال ہے کہ دونوں ملک (فرانس اوراسرائیل)ایک ہی طرف ہوں گے ۔

دونوں کا ہدف اسلامی جنگجو ہیں ۔ان تمام کوششوں کے باوجود بارہ افریقی ممالک تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام کو تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ یہ فیصلے دوسرے انتفاضہ میں 2008-09میں فلوٹیلا پر کمانڈو حملوں کے بعد ہوئے جس میں نو باشندے جاں بحق ہو گئے تھے

بشکریہ  دنیا

لینک کوتاه:

کپی شد