اسرائیلی حکام نےجمعہ کو مملکت سعودی عرب اور جمہوریہ ایران کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی بحالی کےاعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے ایک "خطرناک پیش رفت” اور "بنجمن نیتنیاہو کی حکومت کی پالیسی کی ناکامی” قرار دیا۔
اسرائیل کے سابقوزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ایران سعودی عرب معاہدے پر موجودہ وزیر اعظم بنجمن نیتنیاہو پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ "ایک زبردست ناکامی ہے، جو سیاسی غفلت،عمومی کمزوری، اور ریاست میں اندرونی تنازعات کے امتزاج سے پیدا ہوئی ہے۔”
بینیٹ نے نشاندہیکی کہ "ایران اور سعودی عرب میں تعلقات کی بحالی اسرائیل کے لیے ایک خطرناک پیشرفت ہے اور یہ ایران کی سیاسی فتح کی نمائندگی کرتی ہے۔”
درایں اثناء سابق اسرائیلی وزیر اعظم یائر لپیڈ نے کہا کہسعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ "بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کی خارجہپالیسی کی مکمل اور سنگین ناکامی ہے۔”
ایک بیان میں لپیڈنے نشاندہی کی کہ یہ معاہدہ "علاقائی دفاعی دیوار کا گرنا ہے جسے ہم نے ایرانکے خلاف تعمیر کرنا شروع کیا ہے۔”
کنیسٹ میں خارجہ امور اورسلامتی کمیٹی کے سربراہ یولی ایڈلسٹائن نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونےوالے معاہدے کو "اسرائیل کے لیے بہت برا” قرار دیا۔
سابق قابض فوج کےوزیر بینی گینٹز کا خیال ہے کہ ایران اورسعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی ایک "پریشان کن پیشرفت” ہے۔”اسرائیل کو درپیش سکیورٹی کے بڑے چیلنجز بڑھ رہے ہیں اور وزیر اعظم اور کابینہاس آمرانہ روش پر چل رہے ہیں۔
امریکی وال سٹریٹجرنل نے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ "بیجنگ کی سفارتی فتح کینمائندگی کرتا ہے، ایک ایسے خطے میں جہاں امریکہ طویل عرصے سے جغرافیائی سیاست پرغلبہ رکھتا ہے۔”
چند گھنٹے قبل ایراناور سعودی عرب نے ایک مشترکہ بیان میں مذاکرات اور سفارتی تعلقات بحال کرنے اور دوماہ کے اندر دونوں ممالک میں سفارت خانے دوبارہ کھولنے کے معاہدے کا اعلان کیاتھا۔
مشترکہ بیان کےمطابق "تہران اور ریاض کے درمیان مذاکرات کی بحالی چینی صدر کے اقدام کے جوابمیں ہوئی ہے۔