فلسطین کے دریائےاردن کے مغربی کنارے کے شمالی شہر جنین میں ایک تاریخی مقامی’ٹیلہ ترسلہ‘ یا ترسلہپہاڑی مشہور ہے۔ یہ مقام جبع کےجنوب میں واقع ہے جہاں حالیہ عرصے کےدوران یہودیآباد کاروں کی بڑی تعداد کو باربار دراندازی کرتے اور دھاوے بولتے دیکھا گیا۔یہاں ایک مسجد بھی ہے جہاں نماز کے لیے آنےوالے فلسطینی نوجوانوں اوران آبادکاروں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں۔
اس علاقے کوروزانہ حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کیونکہ قابض ریاست نے اس پر1967ء کے بعد اس پر ایک بستی اور ایک فوجی چوکیقائم کی تھی۔ پھر سنہ2005ء میں اسے انتفاضہ الاقصیٰ کے دوران فلسطینی مزاحمت کیطرف سے متعدد ٹارگٹ آپریشنز کا نشانہ بنانے کے بعد خالی کر دیا تھا۔
اس علاقے میںرہنے والے شہریوں کو ایک طرف قابض افواج کے حملوں کا سامنا ہے اور دوسری طرف آبادکاروں کی جانب سے اس پر قبضہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سےسنہ 2005ء کے بعد سے فلسطینی اتھارٹی کی عدم توجہی کا شکار رہنے کی وجہ سےیہ جگہایک بار پھر غاصب صہیونیوں کے لیے تر نوالہ ثابت ہو رہی ہے۔
ترسلا پہاڑی
یہ ایک فلسطینیتاریخی پہاڑی ہے جو جنین شہر کے جنوب میں واقع مرکزی سڑک پر واقع ہے جو جبع شہر کےقریب جنین اور نابلس کے گورنروں کو ملاتی ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً 60 دونم ہے اور یہ1967 سے پہلے اردنی فوج کے کیمپ کے طور پراستعمالکی گئی تھی۔
سنہ1967 کے بعداسرائیلی قابض ریاست نے قابض فوج کے لیے ایک بستی اور ایک فوجی چوکی قائم کی۔ پھر 2005 میں اسے خالی کرا لیا،جب اسے الاقصیٰ انتفاضہ کے دوران فلسطینی مزاحمت کی جانب سے متعدد ٹارگٹ آپریشنزکا نشانہ بنایا گیا۔
گذشتہ برسوں کےدوران ترسلہ المخالہ کی بستی اس کے قریب رہنے والے فلسطینیوں کے لیے زیارت گاہ بنگئی ہے، جہاں وہ اپنا وقت انفرادی اور غیر منظم طور پر ٹہلتے ہوئے گزارتے ہیں، جبکہ آباد کاروں کے گروہ اس کی طرف واپس جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
حال ہی میں آبادکاروں نے اس جگہ پر واپسی اور بستی کی تعمیر نو کے لیے راستہ ہموار کرنا شروع کیا۔چنانچہ مسجد میں نماز کی ادائیگی کا مرحلہ تقریباً دو سال قبل آیا تاکہ آباد کاروںکی اس میں واپسی اور دوبارہ آباد ہونے کی کوششوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔
وجہ تسمیہ
محقق خالد ابو علینے "فلسطین انفارمیشن سینٹر” کو بتایا کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ”ترسلہ” کا نام "خدا کی ڈھال” سے آیا ہے اور بہت سے لوگوں نےبتایا کہ یہ صلاح الدین ایوبی کی فوج کی طرف سے بنایا گیا ایک محافظ خانہ تھا۔ اورانہوں نے اسے اس نام سے پکارا۔
فلسطینی محقق نےمزید کہا کہ "ترسلہ میں گھومنے کے دوران میں نے ایک بہت بڑی پرانی عمارت دیکھی،جس کے کچھ حصے تباہ اور توڑ پھوڑ کا شکار تھے۔ اسے اب بھی المقاطعہ کے نام سے جاناجاتا ہے اور وہاں ایک پرانی مسجد اور اس کے مینار کے کچھ حصے اور اس کی کچھ دیواریںتباہ شدہ حال میں موجود ہیں کیونکہ آباد کاروں نے اسے بے دخلی سے پہلے ایک عبادتگاہ میں تبدیل کر دیا تھا۔”
ترسلہ تاریخ کی روشنی میں
ابو علی بتاتے ہیںکہ اسرائیل کی جانب سے 2005 میں جنین سے چار بستیوں کے ساتھ اسے خالی کرنے سے پہلےاسے سیکٹر "C” میں شاملکرنے کے اصرار کے باوجود اردن کی عرب فوجکی وہاں کی مسجد کی کہانی اب بھی عرب اور فلسطینیوں کی ثابت قدمی اور اس جگہ کیبقا کی نمائندگی کرتی ہے جسے اب بھی آباد کاروں اور نوادرات کے چوروں نے نشانہ بنایاہے۔
ترسالہ کا مقام ایکتزویراتی تاریخی پہاڑی پر ہے جس سے جنین کے جنوب میں آبادی کے مراکز جیسے جبع اور صانورکوصارف طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ نابلس کو جنین سے ملانے والی مرکزی سڑک بھی یہاںسے صاف دکھائی دیتی ہے۔ یہ پہاڑی پہلے اسلامی دور میں اہم تاریخی واقعات کا مشاہدہکرچکی ہے۔ یہاں تک کہ یہ صلیبی دور کی ایک یادگار ہے۔
برطانوی استبداد نےاسمیں اپنی افواج کے لیے ایک کیمپ اور ایک حراستی مرکز قائم کیا اور اس کے انخلاء کےبعد اردنی فوج نے اس جگہ پر ایک مرکز قائم کیا اور ایک مسجد تعمیر کی جس کےکھنڈرات ابھی تک کھڑے ہیں۔ یہاں تک کہ قابض افواج نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1978 میںاسے اپنے فوجیوں کے لیے ایک کیمپ میں تبدیل کر دیا اور اس جگہ پر ایک چھوٹی سی بستیقائم کی۔ سنہ 2005ء میں انہوں نے اسے خالی کر دیا اور علاقہ ویران ہے اور اس پر فلسطینیاتھارٹی کا کوئی منصوبہ نہیں دیکھا گیا۔