اتوار 14 مئی کو ’نکبہ‘ یا ’یوم قیامت‘ کے موقعے پر ہم فلسطینیوں کو پہنچنے والے اس صدمے کے 75 سال مکمل ہونے کی یاد مناتے ہیں جس سے وہ آج بھی دوچار ہیں۔
مجھے اپنے دادا دادی کا خیال آتا ہے جنہیں مئی 1948 میں صہیونی فوجی جتھوں نے فلسطین کے شہر حیفہ میں اپنے گھر سے زبردستی بےگھر کر کے لبنان میں پناہ گزین بنا دیا تھا۔
جو نکبہ کے دوران جلاوطن کیے جانے والے لاکھوں دوسرے فلسطینیوں کی طرح میرے دادا، دادی نے بھی سوچا تھا کہ ان کی واپسی چند دن، شاید چند ہفتے، یا زیادہ سے زیادہ چند مہینے بعد ہو جائے گی۔ لیکن پون صدی بعد وہ اب بھی جنوبی لبنان کے برج الشمالی پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہیں اور آج بھی اپنی واپسی کے حق کو استعمال کرنے کے منتظر ہیں۔
نکبہ نے بے دخلی، تشدد اور آباد کاری کا ایک مسلسل عمل دیکھا جسے آج تک محسوس کیا جاتا ہے۔ یہ فلسطینیوں کی جبری جلاوطنی تھی جس نے اسرائیلی ریاست کی بنیاد ڈالی۔ اور آج تک، برطانوی حکومت اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے اور فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم و ستم میں اسی طرح شریک ہے، جس طرح 75 سال پہلے تھی۔
اس دن، میرے خاندان سمیت فلسطینی عوام پر مسلط کی گئی تباہی میں برطانیہ کے تاریخی کردار کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ برطانیہ کو 1917 کے اعلان بالفور کے بعد فلسطینیوں کے ظلم و ستم میں اپنا حصہ تسلیم کرنا چاہیے۔
برطانیہ محض تماشائی نہیں تھا، اسی کی خارجہ پالیسیوں نے نکبہ اور اس کے آج تک محسوس کیے جانے والے اثرات کی بنیاد رکھی۔
فلسطینیوں کی نقل مکانی میں برطانیہ کا کردار 20 ویں صدی میں اس کے اقدامات تک محدود نہیں ہے۔
یہ بہت اہم ہے کہ برطانیہ کی حکومت اسرائیل کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کا از سر نو جائزہ لے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں حصہ نہ لے اور نہ ہی انہیں درگزر کرے۔
برطانوی سیکریٹری خارجہ جیمز کلیورلی کے متعدد بیانات کے باوجود کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیاں ’بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہیں،‘ برطانوی حکومت نے نہ صرف فلسطینی سرزمین پر جاری نوآبادیات کے براہ راست ذمہ داروں کو تحفظ فراہم کیا ہے، بلکہ اسرائیل کے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے سفارتی حمایت کی پیشکش کی ہے۔ اور وہ اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالتا رہی ہے۔
نکبہ نقل مکانی کا کوئی واحد واقعہ نہیں تھا، بلکہ ایک مسلسل عمل تھا، اور یہی وجہ ہے کہ میں، ایک برطانوی فلسطینی شہری کے طور پر، برطانیہ میں پیدا ہوئی اور وہیں پروان چڑھی۔
اسرائیل کی جانب سے ہماری تاریخ کو مٹانے کی کوشش کے مقابلے میں دوسروں کو نکبہ سے روشناس کروانا وہ کام ہے جو ہمیں اپنے دادا دادی سے وراثت میں ملا ہے۔ تارکین وطن میں رہنے والے تیسری نسل کے فلسطینی ہونے کے ناطے، یہ ایک فرض ہے، اور یہ کہانیاں سنائی جاتی رہیں گی۔
دو سال پہلے، اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر ایک اور بڑی فوجی جارحیت کا آغاز کیا اور اس پچھلے ہفتے ہم نے اسی علاقے میں فلسطینیوں پر دوبارہ اسرائیلی حملوں کا مشاہدہ کیا۔
مئی 2021 میں فلسطینوں کو درپیش حالیہ دور کا بدترین تشدد دیکھا گیا اور اسی دوران فلسطین کے حق میں برطانوی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج بھی ہوا۔ وہاں میں نے اپنے دادا دادی کی کہانی ایک لاکھ 80 ہزار سے زیادہ لوگوں کو سنائی جنہوں نے حمایت کے کلمات ادا کیے اور اپنے فلسطین کے جھنڈے میرے سامنے لہرائے۔
میرے دادا دادی کے زندگی کے تجربات ان لاکھوں فلسطینیوں کے آئینہ دار ہیں جو اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکتے۔ اس دن ہم نے جس اتحاد کو دیکھا اس نے مجھے یہ باور کرنے کی وجہ دی کہ ہم وہ نسل ہیں جو اپنے دادا دادی کو آزاد فلسطین اور ان کے گھر واپسی کا حق دلانے کے قابل ہو گی۔
ہر روز ہم اس تاریخی ناانصافی کو دور کرنے میں ناکامی کے پرتشدد اثرات دیکھتے ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے، نکبہ ہمارا کھلا زخم ہے جو اب تک بھر نہیں سکا ہے، اور کئی دہائیوں سے ہم نے جو نسلی صدمہ برداشت کیا ہے وہ جاری ہے۔
اس اہم سالگرہ کے موقعے پر، فلسطینیوں کے قبضے کو تیز کرنے کے وقت، پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ ہم نکبہ کو یاد رکھیں، اور صرف ماتم ہی نہیں بلکہ مزاحمت بھی کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
لیان محمد برطانوی فلسطینی شہری اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ ان کا زیر نظر مضمون انڈیپنڈنٹ اردو کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔