انہی حالات کے تناظرمیں مرکز اطلاعات فلسطین نے حماس کے مرکزی رہ نما اور جماعت کے سیاسی شعبے کے سینیئر رکن محمد نزال سے ایک نشست کا اہتمام کیا۔ محمد نزال نے اپنی طویل گفتگو میں دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ان کی جماعت کو آخر تک یہودی آباد کاروں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں۔ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ جاری سیکیورٹی تعاون کی مذمت کی اور قومی حکومت پر زور دیا کہ وہ غزہ میں حماس کی حکومت کے واجبات فوری ادائی کا اہتما کرے تاکہ شہریوں کو درپیش معاشی مشکلات کا ازالہ کیا جاسکے۔
ذیل میں محمد نزال سے مرکز اطلاعات فلسطین "پی آئی سی” کی گفتگو کو سوال جواب کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
پی آئی سی:۔ الخلیل شہرnسے تین یہودی لڑکوں کی گم شدگی کے بارے میں اسرائیلی میڈیا اور حکومت حماس کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ کیا یہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی دشمن کو جنگی قیدی بنانے کی کارروائی ہے۔ آپ اس بارے میں کیا تجزیہ کریں گے؟
محمد نزال:۔ یہ بات میں پوری وضاحت کے ساتھ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اور حماس باضابطہ طور پر اپنا موقف بھی بیان کر چکی ہے کہ ہمارے پاس اس کارروائی کے بارے میں کسی قسم کی معلومات نہیں تھیں۔ تاہم جب سے تینوں یہودی لڑکے غائب ہوئے ہیں۔ حماس کا ان کے بارے میں رویہ یہی رہا ہے کہ انہیں دشمن کے جنگی قیدیوں کے طور پر ڈیل کیا جائے۔
اسرائیل کے تین نوجوان لڑکے لاپتا ہوئے لیکن اس کے جواب میں اسرائیل نے حماس کے کارکن اور رہ نماؤں کو چن چن کر حراست میں لیا۔ میں پوچھتا ہوں کہ حراست میں لیے گئے تمام فلسطینیوں کا تین یہودیوں کے اغواء یا ان کے قتل سے کوئی تعلق تھا یا محض انتقامی کارروائی کے طور پر حراست میں لیا گیا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ تین یہودی آباد کاروں کے اغواء کے بعد اسرائیل کے سیکیورٹی، سیاسی اور عوامی حلقے خوف کا شکار ہیں۔ میڈیا نے ان کے خوف کو مزید بڑھا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور حماس کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے۔ حالانکہ حماس کا اس کارروائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
البتہ ایک چیز واضح ہے، وہ یہ کہ یہ اس کارروائی میں مزاحمت کاروں کا ہاتھ ہو سکتا ہے اور اسے دشمن کو یرغمال بنانے کی "کارروائی” قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم میں یہ ماننے سے قاصر ہوں کہ یہ سب ڈرامہ اسرائیل نے خود رچایا تاکہ فلسطینیوں یا حماس کے خلاف کارروائی کی راہ ہموار کی جاسکے۔
پی آئی سی:۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسرائیل نے تین یہودی آباد کاروں کے اغواء اور قتل کا ڈرامہ رچا کر دراصل حماس کے خلاف کارروائی کے لیے جواز پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسرائیل نے یہ اقدام اس لیے بھی کیا تاکہ فلسطینیوں کے مابین مفاہمت ختم اور قومی حکومت کو چلتا کیا جاسکے، نیز امن مذاکرات کی ناکامی کے بعد اسرائیل کو درپیش عالمی تنہائی سے نکالا جاسکے۔ ان مقاصد کے لیے اسرائیل کو کسی ایسے ڈرامے کی ضرورت تھی جس کے نتیجے میں صہیونیوں کو عالمی ہمدردیاں سیمٹنے کا موقع ہاتھ آجائے۔
محمد نزال:- میرے خیال میں اس سوال کے جواب کے تین پہلو ہیں۔ اولا یہ کہ اسرائیلی سوسائٹی نسبا "کھلا ڈلا” سا معاشرہ ہے، جس میں اس نوعیت کا ڈرامہ رچانا کسی حکومت کے لیے اتنا آسان بھی نہیں۔ گو کہ اسرائیلی حکومتیں مختلف نوعیت کی سازشوں کی آڑ میں فلسطینیوں کے خلاف مہم جوئی کی راہ ہموار کرتی رہی ہیں، لیکن جہاں حکومت کو شدید نوعیت کے سیاسی مقابلے کا سامنا ہو وہاں پر ایسی کوئی کارروائی عملی شکل میں لانا ناممکن نہ بھی ہو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ اسرائیل کی موجودہ حکومت کے لیے بھی ایسی ہی کیفیت ہے۔ اگر سیاسی اور سیکیورٹی اداروں میں حکمراں طبقے کے حامی موجود ہیں تو مخالفین کی بڑی تعداد بھی ان کی نگرانی کررہی ہے۔ اس لیے نیتن یاھو کے لیے ایسا ممکن نہیں کہ وہ اپنی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک سکے۔
دوم یہ کہ اگر یہ کارروائی اسرائیل کی اپنی "اختراع” ہے تو یہ صہیونی حکمرانوں کو یہ بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس نوعیت کے واقعات کے اسرائیلی معاشرے پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، ہرف طرف خوف کی فضاء پھیل جاتی ہے اور عوام کا سیکیورٹی اداروں پر اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اس لیے بھی اس کا امکان نہیں ہے۔
تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اگر اسرائیل فلسطینی جماعتوں میں مفاہمت ختم کرانا چاہتے ہیں تو انہیں تین یہودی لڑکوں کی قربانی دینے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ یہ کام دیگر ذرائع سے بھی کرسکتے ہیں۔ مغربی کنارے میں حماس کے انفرااسٹرکچر کی تباہی اور جماعت کی قیادت کو جیلوں میں ڈالنے کے لیے تین یہودیوں کے خون کی ضرورت نہیں تھی، اسرائیل کوئی بھی دوسرا بہانہ تراش سکتا تھا۔ ماضی میں حماس اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مظالم پر کس نے صہیونیوں کو پوچھا ہے۔ وہ جب اور جو چاہتے ہیں کر گذرتے ہیں۔
جہاں تک اسرائیل کی "سیاسی تنہائی” کا معاملہ ہے تو یہ ایک سنجیدہ سوال ہے۔ اسرائیلی تاریخ میں پہلی بار امن مذاکرات کی ناکامی کو عالمی، علاقائی اور مغربی سطح پر صہیونی ریاست کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
لیکن ہمیں افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اسرائیل امریکا اور مغرب کا "لاڈلا بچہ” ہے۔ یہ ممالک اسرائیل کے لیے جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ امریکا اور مغرب کی جانب سے اسرائیل کی ڈانٹ ڈپٹ کا اتنا ہی اثر ہوسکتا ہے جتنا کہ ایک لاڈلے بچے کو اس کے والدین کی معمولی سرزنش کا ہوتا ہے جس کا بچے پرکوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔
پی آئی سی:۔ سیاسی سطح پر تین یہودی آباد کاروں کے اغواء کے بعد قتل کے بارے میں کئی امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں لیکن آپ اس بات پر مصر ہیں کہ یہ اغواء ہی کی کارروائی ہے۔ آپ ایسا کیوں سمجھتے ہیں؟
محمد نزال:۔ میں نے ہمیشہ خود سے سچ بات کہنے کی کوشش کی ہے۔ میں وہی بات دوسروں سے بھی کہتا ہوں جس میں صداقت ہوتی ہے۔ ممکن ہے میرے تجزیے پر کوئی دوسری رائے دی جائے مگر میں جو بات پہلے بیان کی اب بھی اس پر قائم ہوں کہ تین یہودی آباد کاروں کی گم شدگی دشمن کو یرغمال بنانے کی کارروائی ہوسکتی ہے اور اس کا احتمال زیادہ ہے۔
میں اس لیے بھی اپنی بات پر قائم ہوں کیونکہ دوسرے لوگ جب اسے ایک "سازشی کارروائی” قرار دیتے ہیں تو مجھے اس میں شک ہونے لگتا ہے۔ جو لوگ اس واقعے کو سازش کے ساتھ جوڑتے ہیں وہ دراصل خطے میں رو نما ہونے والے ایسے ڈرامائی واقعات سے زیادہ متاثر ہیں۔ انہیں ہر پردے کے پیچھے کسی سازشی عنصر کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے۔ یہ بھی ہے کہ وہ لوگ فلسطینی مزاحمت کے زندہ ہونے کے بارے میں کوئی تازہ گواہی پیش نہیں کرسکتے ہیں۔ اس لیے انہیں یہ بھی ایک سازشی کہانی لگتی ہے۔ میرا یقین ہے کہ فلسطینیوں کی مسلح مزاحمت اب بھی نہ صرف زندہ ہے بلکہ وہ پہلے سے زیادہ طاقتور بھی ہے۔ مزاحمت کشی کی تمام تر فلسطینی، صہیونی سازشوں کے باوجود قوم میں دشمن کے خلاف وہی جذبات موجود ہیں جو ماضی میں رہے ہیں۔
فلسطین میں مزاحمت کے خاتمے پر یقین رکھنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ جب سے امریکی جنرل کیتھ ڈائیٹون نے فلسطینی سیکیورٹی اداروں کی برین واشنگ کرتے ہوئے ان کی تربیت کی ہے تب سے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ فلسطینیوں میں اسرائیل مخالف مزاحمتی جذبات ختم ہوگئے ہیں۔ چند لوگوں کے ذہن کی تبدیلی سے پوری قوم کےذہن تبدیل نہیں ہوسکتے ہیں۔
پی آئی سی:۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حماس نے تین یہودی لڑکوں کے اغواء پر خاموشی اختیار کی تھی لیکن آپ نے جماعت کے فیصلے برعکس خاموشی توڑ دی ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے ؟
محمد نزال:۔ میرے خیال میں حماس نے "چپ کا روزہ نہیں رکھا”۔ اگر ایسا ہوتا میں تو خاموش رہنے والوں میں بھی شامل ہوتا۔ آپ کو اس کارروائی کے بارے میں یہ فرق ذہن نشین کر لینا چاہیے۔ ایسی کسی بھی کارروائی کی ذمہ داری حماس کا عسکری ونگ القسام بریگیڈ ہی قبول کرسکتا ہے۔ کارروائی کی ذمہ داری قبول کرنا اور بات، اور اس پر تبصرہ کرنا الگ بات ہے۔ تبصرہ تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔
یہ بات سب کے علم میں ہونی چاہیے کہ جب سے تین یہودی لڑکے اغواء ہوئے ہیں حماس کے سیاسی حلقوں میں یہ ایشو بھی موضوع سخن رہا ہے۔
پی آئی سی:۔ آپ کے خیال میں یہ مزاحمت کاروں کی کارروائی ہے۔ اگر یہ مفروضہ درست مان لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی ذمہ داری کیوں قبول نہیں کی گئی۔ تین ہفتوں کے بعد اب یہودی لڑکوں کی میتیں بھی مل گئی ہیں لیکن ابھی تک اس سارے عمل میں کوئی نام سامنے نہیں آیا ہے؟ ذمہ داری قبول کرنے میں اجتناب کیوں برتا گیا ؟
محمد نزال:۔ میں اس کارروائی کو مزاحمت کاروں کی ایک دلیرانہ اور "شجیع” اقدام سمجھتا ہوں۔ جہاں تک اس کی ذمہ داری قبول نہ کرنے کا سوال ہے تو میرا خیال ہے کہ مزاحمتی تنظیمیں ایک نئے انداز میں سوچنے لگی ہیں۔ اغواء کاروں نے خود کو سامنے نہ لانے کا فیصلہ کر کے ماضی کے تجربات سے سبق سیکھا ہے۔ ماضی میں ایسی کارروائیوں کی فوری ذمہ داری قبول کرنے کے مضمرات کو سامنے رکھتے ہوئے اب کی بار اسے صیغہ راز میں رکھا گیا۔
بہر حال میں اس کارروائی کو "کامیاب” اور ہر اعتبار سے بہترین حکمت عملی کا مظہر قرار دیتا ہوں۔ اسرائیلی کے جنگی ماہرین اور عساکر کو بھی یہ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ فلسطینی مزاحمت کار ایسا بھی کر سکتے ہیں۔
پی آئی سی:۔ آپ کے خیال میں تین یہودیوں کے اغواء کے بعد قتل کی کارروائی پر فلسطینی اتھارٹی کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حماس کے ساتھ قومی حکومت مین شریک الفتح کو بھی سبکی کا سامنا ہے اور تجزیہ نگار اس کارروائی کو فلسطینی مفاہمت کے تابوت میں آخری کیل قرار دے رہے ہیں۔ آپ کیا کہیں گے؟
محمد نزال:۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے دشمن کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی پر کوئی فلسطینی شرمندہ نہیں ہوتا بلکہ ایسے موقع پر صہیونی دشمنوں کا محاصرہ کرنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔ دشمن کے کسی شہری کو جنگی قیدی بنایا جاتا ہے تو اس کے بدلے میں اپنے شہریوں کی رہائی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اس پر کسی کو پریشان اور شرمندہ ہونے کی آخر کیا ضرورت ہے۔ ایسی کارروائیاں تو قومی مفاد میں ہیں۔
جہاں تک فلسطینی مفاہمت کا معاملہ ہے تو یہ فلسطینیوں کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس کا اسرائیل کے غیض وغصب اور دشمن کی ناراضگی سے کیا تعلق ہے۔
پی آئی سی:۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے "الخلیل کارروائی” کی مذمت کی اور محمد المدنی کی قیادت میں الفتح کا ایک وفد مقتول یہودیوں کے لواحقین کی دلجوئی کے لیے بھی بھیجا۔ آپ اس کو کیسے دیکھتے ہیں؟
محمد نزال:۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور الفتح کی قیادت کی جانب سے الخلیل کارروائی کے رد عمل میں جو طرز اپنایا گیا وہ ان کی پیشانی پر بدنما داغ رہے گا۔ فلسطین میں تحریک مزاحمت کی تاریخ میں ایسا شرمناک موڑ کبھی نہیں آیا کہ کوئی مظلوم فلسطینی رہ نما ظالموں کا ماتھا چومنے اس کے گھر چلا جائے۔
فلسطینی عوام کی جانب سے صدر محمود عباس اور الفتح کے طرز عمل سے عوام میں مایوسی پیدا ہوتی ہے اور عوام کی جانب دشمن کی دلجوئی کو قابل مذمت سمجھا جاتا ہے۔
پی آئی سی:۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مصر کے سابق منتخب صدر محمد مرسی کی فوج کے ہاتھوں برطرفی کے بعد حماس سخت مشکل سے دوچار ہوئی ہے، کیونکہ جماعت اخوان المسلمون جیسی حلیف طاقت سے محروم ہوگئی ہے۔ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی معاشی پابندیوں نے حماس کی مشکلات دو چند کی ہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں؟
محمد نزال:۔ مزاحمتی تنظیمیں اور آزادی کے لیے جدو جہد کرنے والی قوتیں کبھی بھی مثالی خوش حالی میں نہیں ہوتیں۔ فلسطینی تحریکوں کا معاملہ تو اس کے سواء ہے۔ حماس اپنے قیام کے بعد سے ہی مشکلات کا سامنا کرتی چلی آ رہی ہے۔ تاہم حماس کے سامنے میدان ہمیشہ وسیع رہا ہے۔ مشکلات کے باوجود کبھی کبھار بحرانوں میں حماس نے معجزانہ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں اور صبرو تحمل کے ساتھ مشکلات کے پل پار کیے ہیں۔
میں اس امر سے انکاری نہیں کہ مصر میں آنے والی سیاسی تبدیلی سے حماس متاثر نہیں ہوئی ہے۔ لیکن یہ کوئی پہلی مرتبہ ہوا ہے اور نہ آخری بار ہوا۔ حماس نے اب بحرانوں سے نمٹنا سکیھ لیا ہے۔ ماضی میں بعض بحران حالیہ مشکلات سے بھی زیادہ سنگین تھے۔
میں سمجھتا ہوں کہ حماس اگر تمام تر دباؤ اور مشکلات کے باوجود اپنے اصولی موقف پر اب بھی قائم ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بحران اور مشکلات حماس کو اس کی راہ سے نہیں ہٹا سکی ہیں۔ حماس اپنے اصولوں پر چلتے ہوئے انشاء اللہ فلسطین آزاد کرائے گی۔
پی آئی سی:۔ آپ ایک طرف اپنے اصولوں پر قائم رہنے کی بات کرتے ہیں لیکن دوسری جانب ماضی میں حماس اور الفتح کے درمیان مفاہمتی معاہدوں میں صدر محمود عباس کی بعض ایسی شرائط بھی تسلیم کرلی تھیں جن نے جماعت کی کمزوری کا تاثر پیدا کیا۔ کیا یہ درست ہے؟
محمد نزال:۔ مئی سنہ 2011ء میں مصر اور فروری 2012ء میں قطر کے صدر مقام دوحہ میں حماس اور الفتح کے درمیان مفاہمتی معاہدے طے پائے۔ چونکہ سابق مصری صدر حسنی مبارک صدر محمود عباس اور الفتح کی جانب جھکاؤ رکھتے تھے، اس لیے اس وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے حماس نے غیرمعمولی لچک کا مظاہرہ کیا۔ تاہم معاملہ اس وقت بگڑا جب صدر عباس نے سلام فیاض کو قومی حکومت کا وزیراعظم بنانے پر اصرار کیا۔ حماس نے یہ تجویز مسترد کردی جس کے بعد اعلان قاہرہ آگے نہ بڑھ سکا۔ مصر میں حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کے بعد جب سیاسی تبدیلی آئی تو صرف تین ماہ کے اندر اندر دونوں جماعتوں نے مفاہمتی معاہدے پر دستخط کردیے تھے۔
فروری 2012ء میں قطر کی ثالثی سے مفاہمتی معاہدہ ہوا۔ اس میں بھی محمود عباس نے سلام فیاض کو وزیراعظم بنانے پر اصرار کیا۔ حماس کے سیاسی شعبے کے صدر خالد مشعل نے امیر قطر سے ملاقات میں غیرمعمولی لچک دکھائی لیکن قومی حکومت کی قیادت کے بارے میں کوئی اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ حماس کا موقف تھا کہ سلام فیاض امریکا اور اسرائیل کا پسندیدہ امیدوار ہے اور حماس اسے وزیراعظم کے طور پر قبول نہیں کرے گی۔
دونوں جماعتوں کے درمیان مفاہمتی مساعی میں ناکامی کے بعد صدر محمود عباس نے اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا جس کے نتیجے میں مفاہمتی کوششیں مزید تعطل کا شکار ہوگئیں۔ جب صدر عباس کو اسرائیل سے مذاکرات سے بھی کچھ حاصل نہ ہوسکا تو انہوں نے دوبارہ حماس کے ساتھ مفاہمت کی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوں سات سال تک مفاہمتی مساعی کے لیے کئی نشیب و فراز آئے کہ حال ہی میں مصر اور بعض دوسرے ممالک کے تعاون سے قومی مفاہمت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا ہے۔
پی آئی سی:۔ حماس نے حالیہ مفاہمت میں بھی اپنے کئی مطالبات سے دستبرداری کا فیصلہ کیا۔ مثلا حماس نے ریاض المالکی کو وزارت خارجہ کا قلم دان سونپے جانے کی شدید مخالفت لیکن اس کے باوجود انہیں قومی حکومت میں شامل بھی کرلیا۔ کیا یہ اصولوں سے پسپائی نہیں؟
محمد نزال:۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حماس نے قومی مفاہمت کی منزل کے حصول کے لیے لچک کا آخری حد تک مظاہرہ کیا ہے۔ حماس کی لچک صرف قومی مفادات کے لیے ہے۔ حماس نے پہلے تو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے دستبرداری اختیار کی اور قومی مفادت کے لیے یہ عہدہ فتح کو دیا۔ لیکن وزیراعظم رامی الحمد اللہ کے نام پر حماس کا بھی اتفاق تھا اس لیے انہیں بغیر کسی اعتراض کے قبول کر لیا گیا۔
حماس نے دیکھا کہ جہاں پر لچک قومی مفاد میں ہے تو وہاں اپنا فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ اسے پسپائی کا نام دیا جائے یا کچھ اور لیکن حماس اسے عیب نہیں سمجھتی۔ کیونکہ قومی مفاد میں اگر کسی ایک مطالبے سے دستبرداری اختیار کرنا پڑتی ہے تو یہ بھی کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ حماس نے لچک کا مظاہرہ اعتماد سازی کی فضاء قائم کرنے کے لیے کیا۔
پی آئی سی:- حماس کے مطالبے کے باوجود قومی حکومت غزہ کی پٹی میں سابقہ ملازمین کو تنخواہیں دینے اور رام اللہ اتھارٹی کو منوانے میں حماس کیوں ناکام رہی ہے؟
محمد نزال:۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور تحریک فتح کی قیادت نے غزہ کی پٹی کے بارے میں جو معاندانہ پالیسی اپنائی ہے وہ ایک بڑی غلطی کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ حماس کے موقف کو کمزور سمجھتے ہیں تو یہ ان کی اپنی سوچ ہے۔ حماس مشکلات کا شکار ضرور ہے لیکن یہ ایک بڑی اور موثر عوامی طاقت بھی رکھتی ہے۔ اندرون اور بیرون ملک جماعت کے مراکز موجود ہیں۔ جماس کے قوت کے یہ مراکز جماعت کو عالمی تنہائی سے نکالنے میں بھی بھرپور مدد فراہم کریں گے۔
جہاں تک حماس کو قومی دھارے سے خارج کرنے کی سازشوں کی بات ہے تو یہ کوئی نئی نہیں۔ غزہ کی پٹی میں حماس کی حکومت سے وابستہ رہنے والے ملازمین کو تنخواہوں سے محروم کرکے حماس کو عوامی دھارے سے نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود حماس اپنی جگہ پرعزم ہے اور آخری فتح حماس ہی کی ہوگی۔
غزہ کی پٹی کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کا معاملہ حل طلب ہے۔ اس ضمن میں حماس کی مشاورت کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے۔ ہم تحریک فتح کے دانش مند رہ نماؤں سے اپیل کریں گے کہ وہ ماہ صیام کا خیال رکھتے ہوئے غزہ کے ملازمین کی تنخواہیں دینے میں مزید تاخیر سے کام نہ لیں۔
پی آئی سی:۔ حماس کی بعض پالیسیوں اور مسلسل تبدیل ہوتے فیصلوں کی وجہ سے تنظیم سے ہمدردی رکھنے والے لوگ بدظن ہوئے ہیں۔ شام کے بارے میں حماس کے موقف پر ایران نے جماعت کی امداد روک دی۔ مصر میں معزول صدر محمد مرسی کی بے جا حمایت پر انہیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ساری صورت حال کے دوران حماس سے ہمدردی رکھنے والے لوگ جماعت سے دور ہوئے ہیں۔ کیا یہ تاثر درست ہے؟
محمد نزال:۔ بیرون ملک حماس سے ہمدردی رکھنے والوں اور مخالفین کی کوئی کمی نہیں ہے۔ میں یاد دلاتا چلوں کہ حماس ایک عشرے تک اردن میں رہی لیکن جماعت کو وہاں سے نہایت افسوسناک طریقے سے نکالا گیا۔
حماس نے شام کو اپنا مرکز بنایا اور قریبا ایک عشرے تک وہاں قیام کیا تا آنکہ شام میں عوامی بغاوت کی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ حماس کو وہاں سے بھی نکلنا پڑا۔ شام سے حماس کا انخلاء اضطراری اور مجبوری کی حالت میں تھا کیونکہ بغاوت کی تحریک نے شام کو "غیر محفوظ” ملک بنا دیا تھا۔ ایسے حالات میں حماس کے لیے وہاں قیام کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔
میرے خیال میں شام سے حماس کی نقل مکانی نہ تو عاجلانہ فیصلہ ہے اور نہ ہی غلط بلکہ یہ موقع کی مناسبت اور حالات کے تقاضوں کے عین مطابق تھا۔ نیز یہ جماعت کے کسی فرد واحد کا نہیں بلکہ قیادت کا اجتماعی فیصلہ تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ حماس نے شام سے نکلنے کے بعد دوبارہ اپنی اندرون اور بیرون ملک سرگرمیوں کو فعال انداز میں شروع کیا ہے۔ حماس کی مسلسل ایک سے دوسرے ملک کی طرف نقل مکانی درآصل قرآن کے اس حکم کا مصداق ہے کہ "کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں، لہٰذا تم اس میں ھجرت کرو؟”۔ ھجرت بھی بہتری کی سفر کا حصہ ہوتی ہے۔ جب ایک جگہ زندگی تنگ ہوجائے تو اسے چھوڑ دینا اللہ کا حکم ہے۔ حماس نے اسی حکم کو مد نظر رکھتے ہوئے، اردن سے شام اور وہاں قطر ھجرت کی۔ کل کو زمین وہاں بھی تنگ کردی گئی تو حماس قطر کو بھی خیر آباد کہہ دے گی۔
خلاصہ یہ ہے کہ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ہمیں ایک سے دوسرے ملک کی طرف ھجرت کو خسارے کا سودا نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس سے تحریکوں کے سامنے نئے جہاں ابھرتے ہیں۔ حماس نے جب بھی ایک ملک میں خود کو تنگ محسوس کیا تو بلا توقف نقل مکانی کا فیصلہ کرلیا۔
جہاں تک مزاحمت کے محور کا تعلق ہے تو میں کچھ چیزیں واضح الفاظ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ آج کے دور میں طاقت ور میڈیا کسی کو مزاحمت مخالف اور کسی کو حامی قرار دینے میں کوشاں ہے۔ لیکن ہم ان تمام پہلوؤں سے دور ہیں۔ ہمیں قوم کے تلف شدہ حقوق کے حصول کے لیے مزاحمت کا راستہ اپنانے پر فخر ہے۔ اس محور میں جو بھی ہوگا وہ مزاحمت سے انکار نہیں کرسکے گا۔
حماس چونکہ عوامی ضمیر اور مسلم امہ کی آواز ہے۔ حماس کی طرف داری ہمیشہ ضمیر کی طرف ہوتی ہے۔ حماس کے بنیادی اصول جن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا وہ آزادی کے لیے جدو جہد اور غاصب دشمن کی غلامی سے انکار ہے۔ حماس کی یہی جرات انکار تنظیم کو دشمن سے برسر جنگ رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس سے ہمدردی رکھنے والے تنظیم کی پالیسی سے مطمئن ہیں۔ عوام کے اسی تعاون کو لے کر حماس آزادی کے لیے ہر محاذ پر جدو جہد جاری رکھے گی۔