اس سانحے کو شروع ہوئے ایک صدی سے اوپر ہو چلا ہے۔ اب جہاں اسرائیل ہے، وہاں صدیوں تک فلسطین تھا اور مسلمان تھے۔ پھر ساری دنیا کے یہودی یہاں آکر بسنے لگے، مقامی افراد سے اونے پونے جائیدادیں خریدیں۔ فلسطینیوں کو کیمپوں میں دھکیل دیا گیا اور اسرائیل کا علم چارسو لہرانے لگا۔ دنیا نے چیخ و پکار مچائی تو فلسطینیوں کو دو یونین کونسلوں پر مشتمل ایک علاقہ مختص کر دیا، یہ بھی اسرائیل کے تسلط میں ہے۔ اسرائیل جب چاہے ان علاقوں پر وحشیانہ بمباری شروع کر دیتا ہے۔ ان دنوں بھی اسرائیل پر وحشت طاری ہے، اس کے بمبار اور ڈرون فلسطینیوں کے گھروں پر تین دنوں سے میزائیل اور بم برسا رہے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا تو یہ ہے کہ وہ حماس کے خلاف کاروائی کر رہا ہے اور چونکہ حماس کے جنگجو عام لوگوں کے گھروں میںجا چھپتے ہیں، اس لئے سویلین نقصان بھی ہو رہا ہے۔ مگر میں یقین سے کہتا ہوں کہ اسرائیل شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر پاک فوج کی کاروائی کا انتقام لے رہا ہے اور مجھے یہ بھی خدشہ ہے کہ کسی بھی وقت بھارت کو جھر جھری آ جائے گی اور وہ کشمیریوں پر آگ برسانے لگ جائے گا، شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کو بھارت اور اسرائیل کی کھلی پشت پناہی حاصل ہے، پاک فوج ان کا کچومر نکال رہی ہے تو اسرائیل نے معصوم فلسطینی بچوں اور بوڑھی عورتوں کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔
نئی نسل کو پتہ ہی نہیں کہ فلسطین کے لئے گول میز کانفرنسوں کا انعقاد ہوا کرتا تھا اور علامہ اقبال اس میں شریک ہوا کرتے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر مسجد اقصی کی دیواروں کے سائے میں دفن ہوئے اور کتنی جنگیں ہیں جو صلاح الدین ایوبی اور اسلامی سپاہ سالاروں نے اس ارض مقدس کے لئے لڑیں۔ مگر صدر ناصر، یاسر عرفات،حافظ الاسد، صدر سادات اور شاہ حسین ہزیمتوں کے سپاہ سالار ٹھہرے اور شاہ فیصل آنسو بہاتے رہ گئے۔ انہوں نے کشمیریوں کی بدقسمتی پر بھی شاہی مسجد لاہور کے کشادہ صحن میں آنسو بہائے تھے۔ اور اب میرے قلم سے ٹپ ٹپ آنسو بہہ نکلے ہیں۔
فسلطینی مر رہے ہیں ! انکے گھروں پر وحشیانہ بمباری ہو رہی ہے، مکان ملبے کے ڈھیر میں تبدیل نہیں ہو رہے، بلکہ ان کی جگہ بیس فٹ گہرے اور بیس فٹ چوڑے گڑھے پڑ چکے ہیں۔ اور عمارتیں ان میں اوندھے منہ گر گئی ہیں اور گھروں کے مکیں قیمہ بن گئے ہیں، آپ میں ہمت ہو تو گوگل پر سرچ کریں کہ حالیہ اسرائیلی بمباری سے کتنے بچے شہید ہوئے تو آپ کے سامنے چیتھڑے بنی لاشوں کا ڈھیر لگا ہو گا، آپ پتھر دل ہوں گے جو اس منظر کوبرداشت کر پائیں گے۔
میری معلومات کا ذریعہ فلسطینی یا عربی اخبارا ت نہیں ہیں بلکہ میں نے یورپی اخبارات کو کھنگالا ہے اور ہر ایک نے اسرائیلی وحشیانہ قیامت کو بے نقاب کیا ہے، میرا خیال ہے ان اخبارات کا مقصد حق اور صداقت کا ساتھ دیتے ہوئے رپورٹنگ کرنا نہیں بلکہ اسرائیل کی دھاک بٹھانا مقصودہے کہ جواس کے رستے میں آئے گا، کٹ جائے گا۔ معاف کیجئے، یہ ترانہ ہم نے لکھا اور گایا۔ مگر اس پر عمل اسرائیلی فوج کر رہی ہے۔
بدھ کو اسرئیلی فوج نے حافظ حماد کے گھر کو نشانہ بنایا، یہ شخص ایک زمانے میں جہادی سرگرمیوں میں حصہ لیتا رہا مگر کئی برس سے وہ پر امن زندگی بسر کر رہا ہے۔ وہ رات گئے گھر کے صحن میں اہل خانہ کے ساتھ دو بنچوں پر بیٹھا خوش کلامی میںمصروف تھا،کہ ایک ڈرون نے میزائل داغا، جو دونوں بنچوں کے عین درمیان میں گرا۔ گھر کا کوئی فرد زندہ سلامت نہیں بچا، ان میں اس کے دو بھائی احمد اور مہدی، اس کی بیوی اور بیس سالہ جوان بیٹی۔۔ سبھی شہید ہو گئے۔
فلسطینیوں پر الزام ہے کہ انہوں نے حملے میں پہل کی اور اسرائیل پر چالیس میزائل پھینکے جو بیت المقدس کے نواح میں بھی جا گرے۔ مگر خود اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان میزائلوں سے اس کے شہریوں کا رتی بھر نقصان نہیں ہوا، ان مبینہ میزائل حملوں کے جواب میں اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں پر میزائلوں کی بوچھاڑ کر دی۔ دوسرے دن دو سو نشانوں پر میزائل پھینکے گئے۔ غزہ میں 43 فلسطینی شہیدہوئے۔
اور ان میں سے اکثریت سویلین کی ہے۔ المغادی کے مہاجر کیمپ پر داغے جانے والے راکٹ سے ایک ماں اپنے چار بچوں کے ساتھ ابدی نیند سو گئی۔ دو دنوںمیں کل 370 فلسطینی زخمی ہوئے۔ الشفا ہسپتال جو چند دن پہلے تک ایک صاف ستھرا اور پرسکون منظر پیش کر رہا تھا، اب اسکے باہر ایمبولینسیں چنگھاڑ رہی ہیں، راہداریاں زخمیوں اور ان کے لواحقین سے اٹی پڑی ہیں۔ اور مردہ خانے میںمیتیں رکھنے کی جگہ نہیں رہی۔
ابھی قیامت ختم ہونے میں نہیں آئی، اسرائیل نے دھمکی دی ہے کہ اگلے چند روز میں اس کی چالیس ہزار فوج زمینی آپریشن کرے گی۔ فلسطینی جانتے ہیں کہ زمینی آپریشن کا مطلب کیا ہو گا۔ دو سال قبل اسی طرح کا آپریشن 22 دن جاری رہا تھا اور اس میں 1400 فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا جن میں 300 بچے بھی شامل تھے۔ اسرائیلی انٹلیجنس منسٹر نے دھمکی دی ہے کہ کچھ عرصے کے لئے غزہ کو ٹیک اوور بھی کرنا پڑا توا س سے گریز نہیں کریں گے خواہ اس کی جو بھی قیمت چکانی پڑے۔
میں مشکور ہوں اسلام آباد کے ایک سافٹ ویئر انجینئر علی عمران صاحب کا جنہوں نے ایک میسیج کے ذریعے میری توجہ غزہ کی شہادتوں کی طرف مبذول کروائی۔ اگلی صبح نوائے وقت کی لیڈ اسٹوری نے میرا کلیجہ چھلنی کر دیا۔ مگر میں غزہ کے بچوں کوروئوں یا عراق میں خلافت قائم کرنے والے ابو بکر البغدادی کو روئوں یا فاٹا کے امیر المومنین ملا فضل اللہ کو روئوں یا لال مسجد کے غازی صاحب کوروئوں۔ یا میں کشمیر میں شہید ہونے والے بچوں کو روئوں۔
کیا میری اور آپ کی زندگی صرف رونے دھونے کے لئے ہے، ماتم پڑھنے کے لئے ہے، ایک کربلا کے بعد دوسری کربلا۔ نہ فلسطین کو آزاد کرانے والا کوئی صلاح الدین ایوبی باقی رہا۔ نہ ہندو لالے کو سبق دینے والا کوئی محمد بن قاسم، ابدالی یا غوری یا غزنوی۔ نہ یورپ کو للکارنے والا طارق بن زیاد۔ وہ کہاں ہیں جنکے گھوڑوں کے سموں سے بجلیاں لشکارے مارتی تھیں۔ عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت کب اور کس کے کام آئے گی۔ بھارت سے پیاز خریدنے والے جہاد کے جذبے کیا جانیں، نئی دہلی میں اسٹیل کے مشترکہ کاروبار کی منصوبہ نبدی کرنے والے کیا جانیں ! بھارتی قصاب نریندر مودی سے کشمیری شال کا تحفہ قبول کرنے والے کیا جانیں !
فلسطینی بچوں کی آخری سسکیاں اور ہچکیاں سن کر کون روئے گا۔
بہ شکریہ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘