کل جمعرات کو اسرائیلی عقوبت خانوں میں میں تمام دھڑوں کینمائندہ انتظامی قیدیوں کے امور کی ذمہ دار کمیٹی نے انتظامی حراست کےاسرائیلی جرمکے خلاف فروغ پذیر اور جامع جدوجہد کے پروگرام کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔
اپنے بیان میں کمیٹی نے کہا کہ ہماری مزاحمت اور جدو جہد موسمی،جزو وقتی یا رد عمل کی حد تک محدود نہیں۔ اسرائیل کی عوفر جیل میں انتظامی قیدیوں نے ابتدائی طور پربہت سے اجتماعی اقدامات پر اتفاق کیا ہے جس میں جزوی اور کھلی نافرمانی، بڑے پیمانےپر جیل کے سیلز سے باہر نکلنا ، محدودبھوک ہڑتال ، چوکوں میں احتجاج اور دھرنے، ادویات کا بائیکاٹ ،واپسی اور کلینکسجانے سے انکار جیسے اقدامات شامل ہیں جنہیں وقت مقررہ پر باقی جیلوں تک بڑھا دیا جائےگا۔
کمیٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ احتجاجی تحریک کی پیش رفت کیبنیاد پر یہ دیکھا جائے گا کہ آیا قابض حکام ہمارے ساتھ کیا طرز عمل اختیارکرتےہیں۔ اس کے علاوہ اجتماعی بھوک ہڑتال کے وقت کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
اپنے بیان میں کمیٹی نے اس بات کی تصدیق کی کہ جب ہم اس نسلپرستانہ پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے اپنی آواز اٹھاتے ہیں تو ہم اس کا حق رکھتےہیں۔ ہمارے ساتھ نظر بندی میں یرغمالیوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ ہم اپنے لوگوں کے فعالاور ذمہ دارانہ کردار اور تمام عوامی اور سرکاریاطراف سے ان کی سرگرمیوں کی حمایت کے منتظر ہیں۔
صیہونی قابض ریاست نےاس سال کے آغاز سے لے کر گذشتہ جون کے آخر تک 1600 سے زائد انتظامی حراست کے حکمنامےجاری کیے ہیں۔
جون کے آخر تک انتظامی حراست میں لیے گئے افراد کی تعداد1132 تک پہنچ گئی، جن میں تین فلسطینی خواتین قیدی اور 18 بچے شامل ہیں جو 2003 کےبعد سب سے زیادہ فیصد ہے۔
انتظامی نظربندوں میں سے 80 فی صد سے زیادہ سابق قیدی ہیں جنہیںکئی بار انتظامی حراست میں ڈالا گیا ہے۔
انتظامی حراست فلسطینی قیدیوں کی گردنوں پر تلوار ہے، کیونکہقابض فوج انہیں بغیر کسی الزام یا مقدمے کے حراست میں لے لیتی ہے۔