یہ ماہر نشانچی عقابی نطروں سے،لوگوں کو اردن سے اسرائیلی سرحد تک لانے والی بسوں کی نگرانی کر رہے تھے۔ بسوں سے اتر کر ہم قطاروں میں کھڑے ہو گئے تاکہ ویزا حاصل کر سکیں۔ کھڑکی میں کھڑی نوجوان ویزا آفیسر نے باریک بینی سے ہمارے پاسپورٹ کا معائنہ شروع کیا، جائے پیدائش کے خانے میں لفظ ”پاکستان ”یقیناً اس کی نظروں کے سامنے سے اوچھل کر آیا ہو گا۔ ”آپ کہاں جا رہی ہیں” اس نے دریافت کیا۔ ہم جوا دیا ”یروشلم”۔ اس نے پھر پوچھا:”کیوں”ہم نے بتایا ”سیاحت کی غرض سے ”اس کا اگلا سوال تھا کہ آیا ہم یروشلم میں کسی کو جانتے ہیں یا کسی سے ملنے جا رہے ہیں ۔ ہم نے سر نفی میں ھلاتے ہوئے جواب دیا کہ”نہیں” اس کے بعد اس کا سوال تھا کہ ہم وہاں ٹھریں گے کہاں؟ ہم نے بتایا کہ ایک ہوٹل میں۔اس پر اس اس نے ہوٹل کی ریزرویشن دکھانے کے لیے کہا جو ہم نے دکھا دی۔وہ پھر بھی قدرے تذبذب میں رہی، اس نے ہمارے چہرے پر دوبارہ ایک نظر ڈورائی، پاسپورٹ کو پھر سے جانچااور اس کے بعد ہمیں داخلے کا پروانہ ایک پرچی کی صورت میں تھما دیا۔ ہمارے پاسپورٹ پر کوئی مہر نہیں لگی کیوںِ؟ہم نے پوچھنے کی جسارت ہی نہ کی۔
سفید پہاڑیوں کے ایک سلسلے کے دونوں اطراف گزرنے والی ایک ہموار ہائی وے پر پنتالیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم ہوٹل پہنچے۔رمضان نامی ڈرائیور نے راستے میں ہمیں مشرقی یروشلم میں شہر قدیم کے قبضے کے حصول کے لیے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری دیرینہ جدوجہد کے بارے میں اپنا ایک اجمالی تجزیہ پیش کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ بہت حساس علاقہ ہے، یہاں حالات ایک لمحے میں بگڑ سکتے ہیں، اسی لیے یہاں بڑی تعداد میں پولیس موجود ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اسرائیلی پولیس کے قلعہ نما ہیڈ کواٹر کی طرف اشارہ کیا جو القدس (شہر قدیم) کے بالمقابل واقع ہے۔اس کے اردگرد چالیس فٹ اونچی قدیم پتھریلی دیواریں کھڑی ہیں جو سیلمان ذی شان نے اس لیے تعیمر کرائی تھی کہ عیسائیوں کی جان سے مزید صلیبی جنگ کو روکا جا سکے۔
آج اسرائیل بائبل کی ایک پیش گوئی کی تکمیل کی غرض سے ایک ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے پرعزم ہے۔ اس پیش گوئی میں کہا گیا ہے کہ شہر قدیم میں جسے یہودی الہیکل کہتے ہیں (اور مسلمان القدس شریف)اور جہاں اس وقت مسجد اقصی اور قبتہ الصخرہ واقع ہیں، وہاں ان کے دو معبدوں کی تباہی کے بعد ہیکل الثالث کا ظہور ہو گا۔ پچھلے تیرہ سو برسوں سے یہ مقامات مکمل طور پر مسلمانوں کی عبادت گاہیں رہی ہیں۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ رات کو القدس کے نیچے بھاری مشینری کی حرکت سنائی دیتی ہے۔ یہ کھدائیاں اس امید کے ساتھ کی جا رہی ہیں کہ یہودیوں کے ان دو قدیم ہیکلوں کا کوئی”ثبوت”دریافت کیا جا سکے جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ بالترتیب 586قبل مسیح اور سن 70عیسوی میں تباہ کر دیے گئے تھے۔
ہم نے رمضان سے پوچھا کہ خدا تعالی کی قدرت نے یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کو ایک ہی علاقے میں کیوں یکجا کیا ہوا ہے؟ اس نے اپنی لا علمی ظاہر کی لیکن یہ ضرور سوچا ہو گا کہ ہم اس سے یہ سوال کیوں کر رہے ہیں ؟ مرسڈیز کار کا جدید ترین ماڈل چلاتا ہوا اور رے بین کا چشمہ آنکھوں پر سجائے رمضان نامی یہ فلسطینی دوسرے فلسطینیوں سے مختلف ہے۔ اس میں کافی حد تک مغربیت جھلکتی ہے اور یہ خاصا پر اعتماد بھی ہے اس میں ایسی بے باکی ہے جس کی بدولت فلسطینی علاقے سے اسرائیل میں داخلہ اس کے سہل ہو جاتا ہے۔
اس کے مطابق اسرائیلیوں کی اخلاقیات کاموں سے وابستہ ہیں اور اسی وجہ سے وہ فلسطینوں سے زیادہ خوشحال ہیں۔ فلسطینی سہل پسند ہیں اور اپنی مدد کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔بدقسمتی یہ ہے کہ فلسطینی لیڈروں کو دسروں کے معیار زندگی میں بہتری لانے کے بجائے اپنی جیبیں بھرنا زیادہ پسند ہے۔اس نے بتایا کہ ابھی کل ہی وہ فلسطینی وی آئی پی سخصیات کے ایک گروپ کو ٹیلی ویژن انٹرویو کیلیے دوسرے شہر لے کر گیا، وہاں انہوں نے کیمرے کے عملے کا کافی دیر تک انتظار کیا لیکن وہ لوگ نہیں پہنچ پائے۔ ان کی
عدم آمد کا کوئی سبب بھی نہیں بتایا گیا اس کے بعد انہیں ایک مہنگے ریستوران لے جایا گیا جہاں انہوں نے خوب دنڑ کیا اور نماز پڑھنے مسجد چلے گئے۔ ریستوران میں ان کے کھانے کا خرچہ پہلے سے اداشدہ تھا کیا ایسے غیر ذمہ دار لوگ اس قابل تھے کہ انہیں مہنگے کھانے کھلائے جائیں؟ بالکل نہیں!رمضان کے مطابق اس دورے میں ڈرائیونگ کیلیے فلسطینی اتھارٹی کی انتظامیہ کی جانب سے تین ہزار ڈالر دیے گئے، لیکن اس سرگرمی کا کیا نتیجہ رہا؟ صفر۔۔۔ پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے اور حساب کتاب کچھ نہیں۔
وہاں فلافل فروشی کی ایک دکان ہے جسے فلسطینی باپ بیٹا مل کر چلاتے ہیں اور اب مشرقی یروشلم میں رہائش پذیر ہیں۔جب ہم نے انہیں بتایا کہ ہم کہاں سے آئے ہیں تو انہوں نے بڑی گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا۔باپ کا نام اسعد تھا۔ اس نے ہم سے پوچھا کہ اگر آپ واقعی مسلمان ہیں تو پھر عرب عورتوں کی طرح اپنا سر سکارف سے کیوں نہیں ڈھانپا؟ہم نے کہا ہمارے ملک میں سر ڈھانپنا اختیاری ہے پھر ان کی توجہ دیوار پر چسپاں ایک پوسٹ کی طرف مبذول کراتے ہوئے جس پر ”آزاد فلسطین”لکھا تھا۔ ہم نے پوچھا: کیا اسرائیلی قبضے کے تحت آپ آزادی سے رہ سکتے ہیں؟ آزادی سے کام کر سکتے ہیں ؟ اس کا جواب نفی میں تھا۔ اس نے بتایا کہ ہم ایک نسل کش حکومت کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، یہودی ہمارے ساتھ انتہائی امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں۔ القدس سے محرومی کے خطرے کے امکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسعد نے ایک نئے انتفاضہ سے بھی متنبہ کیا۔
مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قبضے کے خلاف پہلا انتفاضہ 1987ء میں شروع ہوا تھا۔ دوسرے انتفاضہ کا آغاز2000ء میں اس وقت ہواجب اسرائیلی لیڈر ایریل شیرون نے ایک ہزار اسرائیلی پولیس اور فوجیوں کے ہمراہ مسجد اقصی کا دورہ کیا تھا۔ اس نے بڑے گھمنڈ سے یہ عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ مسلمانوں سے یہ مقدس مقامات چھین کر رہے گا۔ اس کے بعد کئی سال تک وہاں لڑائی، خودکش بموں اور دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔
اس وقت القدس کا انتظام ایک اسلامک ٹرسٹ کے سپرد ہے جو یہ ذمہ داری اردن کے زیرسرپرستی نبھا رہا ہے۔ اسعد کے بیٹے محمد نے بتایا کہ گزشتہ رمضان میں لیلتہ القدر کے موقع پر پورے مشرقی یروشلم میں اسرائیلی پولیس اور نمازیوں کے مابین تصادم ہوا تھا،جمعقہ الوداع کے موقع پر مجھے مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے سے روک دیا گیا تھا کیونکہ پولیس نے تشدد کے خدشات کے پیش نظر پچاس سال سے کم عمر مردوں کے القدس میں داخلے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔
مغربی کنارے پر یروشلم سے 32کلومیٹر شمال میں واقع شہر جبرون کی جانب جاتے ہوئے متعدد یہودی آبادیوں سے ہمارا گزر ہوا۔ عبرانی یں جبرون کا مطلب ہے”دوست” ۔ اس شہر کا عربی نام ”الخلیل”کا بھی یہی مطلب ہے۔ سفید پہاڑیوں پر جہاں زیتون کے درخت نقطوں کی صورت دکھائی دیتے ہیں وہاں ہلکی ہلکی دھوپ میں سرخ ٹائلوں سے تعمیر کردہ یکساں ساخت مکانات بھی میلوں تک پھیلے نظر آتے ہیں۔ رمضان نے ہمیں بتایا کہ مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کے بعد اسرائیل نے یہاں آبادکاروں کے لیے مکانات تعمیر کروائے تھے جن کی اکثریت یہودی انتہا پسندوں پر مشتمل ہے۔ عالمی مذمت کے باوجود اسرائیل ان کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے تاکہ مقدس اسلامی مقامات میں سٹیٹس کو میں تبدیلی لائی جائے۔ دلیل ان کی یہ ہے کہ فلسطینی مسلمہ طور پر ان کی سرزمین ہے۔ ان آباد کاروں کے پاس بھاری اسلحہ ہے جس کے باعث فلسطین دیہات میں امن کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔
رمضان کے مطابق اصل مسئلہ اسرائیلی قبضے کے تحت زندگی بسر کرنا نہیں بلکہ اسرائیلی حکومت اور پولیس کا ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کے مابین تنازع کر رمضان نے ایک لفظ میں سمو دیا۔۔۔۔۔۔”زمین”۔۔۔۔۔۔ رہ کہ رہا تھا:آپ نے غور کیا ہو گا کہ اس پہاڑی علاقے میں ہموار زمین بہت کم ہے، اسی لیے رہائشی علاقوں کی تعمیر کیلیے اسرائیلی بلڈوزر 1987ء سے ہمہ وقت زمین ہموار کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، یورپی یونین،امریکہ ، روس ، فرانس اور انگلستان سب نے بار بار کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے یہودی آبادیوں کی توسیع کا عمل غیر قانونی ہے۔ لیکن سن کون رہا ہے؟
بشکریہ روزنامہ دنیا