جمعه 15/نوامبر/2024

جیل میں قید فلسطینی رہنما نے 10 نکاتی قومی مفاہمتی فارمولہ پیش کردیا

بدھ 20-اپریل-2016

اسرائیلی جیل میں قید سرکردہ فلسطینی سیاست دان اور تحریک فتح کے سیںٹرل کونسل کے سینیر رکن مروان البرغوثی نے اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ اور اپنی جماعت فتح پر قومی مفاہمت کے لیےمذاکرات کو حتمی شکل دینے کا مطالبہ کیا۔

مروان البرغوثی نے اسرائیلی جیل سے مرکزاطلاعات فلسطین کودیے گئے خصوصی انٹرویو میں 10 نکامی قومی مفاہمتی فارمولہ بھی پیش کیا ہے جس میں تمام فلسطینی دھڑوں بالخصوص فتح اور حماس پر زور دیا گیا ہے کہ وہ قومی مفاد اور قومی یکجہتی کے لے مضبوط تزویراتی حکمت عملی اختیار کریں۔

انٹرویو میں مروان البرغوثی نے فلسطین کی موجودہ صورت حال پراپنا جامع انداز میں تجزیہ پیش کیا ہے اوراہم قومی مسائل اور ان کے حل کے لیے قابل عمل تجاویز پیش کی ہیں۔

قومی مفاہمت کے لیے دس نکاتی فارمولے میں انہوں نے حماس اور فتح کے درمیان قومی مفاہمت کا عمل آگے بڑھانے پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس اور فتح مل کر ملک میں قومی حکومت قائم کریں اور سیاسی شراکت کے ساتھ آگے چلیں۔

ان کا کہنا ہے کہ فلسطین میں جاری حالیہ تحریک انتفاضہ کو پوری فلسطینی قومی قیادت کی رہ نمائی اور مالی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ اس تحریک کو نتیجہ خیز بنایا جاسکے۔

فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان سیکیورٹی تعاون پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون نہیں بلکہ دشمن کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہے۔ یہ کوئی دانش مندی نہیں کہ ایک طرف تو مزاحمت جاری ہو اور دوسری طرف دشمن کے ساتھ اپنے قوم کے خلاف تعاون بھی جاری ہو۔

فلسطینی اتھارٹی کی صدارت کے نامزدگی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں مروان البرغوثی نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ فلسطینی قوم کا مجھ پر اعتماد کا اظہار ہوگا اور میری طرف سے اپنی قوم کو وفاداری کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔

خیال رہے کہ مروان البرغوثی اسرائیلی جیل میں قید ہیں۔ حال ہی میں مرکزاطلاعات فلسطین نے ان سے تفصیلی انٹرویو لیا ہے۔

مروان البرغوثی سے ہونے والی گفتگو کوچند اہم عنوانات کےساتھ بیان کیا گیا ہے۔ان کے ساتھ ہونے والی بات چیت پیش کی جاتی ہے۔

انتفاضہ القدس:۔

1۔۔ فلسطین میں جاری تحریک انتفاضہ اپنے چھٹے ماہ میں داخل ہوچکی۔ آپ اسےکس زاویہ نگاہ سےدیکھتے ہیں؟ نیزآپ کے خیال میں تحریک انتفاضہ کے توسط سے فلسطینی قوم نے کیا پیغام دیا ہے؟۔

البرغوثی:۔ فلسطین میں جاری عوامی بیداری کی تازہ تحریک کی کئی تعبیریں بیان کی جاسکتی ہیں۔ اس کی ایک تعبیرتو یہ ہے کہ فلسطینی قوم نے بہ حیثیت مجموعی بالخصوص نوجوان نسل نے صہیونی ریاست کا غاصبانہ قبضہ، یہودی توسیع پسندی، جنگ و جارحیت، غزہ کی ناکہ بندی، فلسطینی آبادی کو بھوک وننگ میں مبتلا کرنے اور ان پربدترین مظالم ڈھانے کی پالیسی کویکسر مسترد کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس تحریک نے فلسطینی قوتوں کے اندر پائے جانے والے انتشار،بے اتفاقی اور المیے کی حد تک بڑھی ہوئی ایک دوسرےسے نفرت اور فلسطینی سیاسی نظام میں پائی جانے والی کجیوں اور خامیوں کو بھی مزید بے نقاب کردیا ہے۔

تحریک انتفاضہ سے یہ بھی عیاں ہوا ہے کہ فلسطینیوں کی نئی نسل نے اپنے جذبہ حریت اور قربانی سے یہ ثابت کیا ہے کہ ہماری قوم قربانی کے لازوال جذبات سے سرشار اور مالا مال ہے اور یہ جذبہ کہیں اور کسی بھی طرح ختم ہونے والا نہیں ہے۔ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم چاہے کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہوجائیں اور مصائب کتنی ہی بڑھ نہ جائیں فلسطینی قوم میں آزادی، حق واپسی اور تمام بنیادی حقوق کے حصول کا جذبہ پوری قوت سے موجود رہے گا۔

فلسطین میں جاری تحریک انتفاضہ نے فلسطینی قومی اور سیاسی قوتوں کو بھی ایک بارپھر مل کرآگے بڑھنے اور باہمی اختلافات بھلانے کا سنہری موقع فراہم کیا ہے۔ یہ تحریک فلسطین میں سیاسی نظام کی از سرنو تشکیل کے لیے بھی کھلی کتاب اور واضح پیغام ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ فلسطین کی تمام سیاسی قوتیں اور تمام قومی دھارے ایک قوت بن کر تحریک انتفاضہ کے دست وبازو بن جائیں۔

2:۔ تحریک انتفاضہ کو ایک جامع تحریک بنانے کے لیے ایسے کون کون سے چارہ کار اہم ہیں اور سب مل کر کیسے تحریک انتفاضہ کو تقویت دے سکتےہیں؟۔

البرغوثی:۔ جب ہم تحریک انتفاضہ میں تمام قومی دھاروں کی شمولیت کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ فلسطین کے تمام سیاسی ادارے، سیاسی جماعتیں، سماجی تنظیمیں، عوام کی نمائندہ انجمنیں، ذرائع ابلاغ اور مالی اور عسکری طورپر اس کو سپورٹ کرنے والے افراد اور ادارے مل کر تحریک میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ مگریہ اجتماعیت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک فلسطین میں قومی مفاہمت کا پودا تندرست و توانا نہ ہوجائے۔ جب تمام قوتیں تحریک انتفاضہ کےحوالے سے ایک صفحے پرآجائیں تو اس کے بعد قدم سے قدم ملا کرآگے بڑھا آسان ہوجاتا ہے۔ پھر فلسطینیوں کی اجتماعی تحریک کسی فصل کے لیے پانی اور تازہ ہوا کی مانند مفید اور کارگرثابت ہوتی ہے۔ وطن کی آزادی کے لیے لامحالہ فلسطینیوں کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا پڑے گا۔ ہمیں ایک بار پھر تحریک آزادی کے اگلے مرحلے کی شرائط وضوابط اور عزم واستقلال کے تقاضوں میں جان ڈالنی ہوگی۔ دامے، درہمے، سخنے ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ فلسطینی قوم ایک غاصب صہیونی استعماری طاقت کے خونی پنجوں میں جکڑی ہوئی ہے اور آزادی کے لیے پوری اجتماعی قوت سے برسرپیکار ہے۔

اسرائیل سے سیکیورٹی تعاون

3:۔ فلسطین کے علاقوں میں جہاں ایک طرف فلسطینی نوجوان اسرائیلی مظالم کے خلاف مزاحمت کے لیےجدو جہد کرتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانی دے رہے ہیں۔ دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی اس تحریک کو کچلنے کے لیے صہیونی دشمن کا ساتھ دے رہی ہے۔آپ کے خیال میں فلسطینی اتھارٹی کا اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کیسا ہے؟۔

البرغوثی:۔ فلسطینی قوم اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ ایسے میں فلسطینی اتھارٹی کا اسرائیل کے ساتھ فوجی تعاون کسی بھی صورت میں مناسب نہیں۔ کوئی عقل مند یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایک طرف آپ آزادی کے لیے جدو جہد کریں اور دوسری جانب ساتھ ہی دشمن سے فوجی تعاون بھی جاری رکھیں۔ یہ دو الگ الگ اور متضاد راستے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کو لازما اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کی پالیسی پرنظرثانی کرنا ہوگی۔ اس وقت فلسطینی قوم یہی چاہے گی کہ فلسطینی اتھارٹی بھی تحریک انتفاضہ کو سپورٹ کرے مگر پہلے ضروری ہے کہ ایسی فلسطینی اتھارٹی قائم کی جائے جو سب کی نمائندہ ہو جو آزادی کے حصول، اسرائیل کے ناجائز قبضے اور یہودی توسیع پسندے کے خاتمےکے لیے فلسطینی قوم اور جدو جہد آزادی میں ایک پل کا کردار ادا کرسکے۔ لمحہ موجود میں فلسطینی اتھارٹی اس سے عاجز دکھائی دیتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ فلسطینی اتھارٹی تحریک انتفاضہ کو سپورٹ کرے گی۔

4:۔تنظیم آزادی فلسطین کی مرکزی کونسل نے اسرائیلی ہٹ دھرمی کے پیش نظرصہیونی ریاست کے ساتھ ہرقسم کے معاہدے ختم کرنے کی سفارش کی، مگر فلسطینی اتھارٹی نے سینٹرل کونسل کے فیصلوں بالخصوص اسرائیل سے فوجی تعاون روکنے کے فیصلے پرعمل درآمد نہیں کیا ہے۔ اس پرآپ کی کیا رائے ہے؟

البرغوثی:۔ میں سمجھتا ہوں کہ فلسطین کا موجودہ سیاسی نظام انتہائی کھوکھلا، کمزور اور ناکام سسٹم ہے اور فلسطینی اتھارٹی بند گلی میں جا چکی ہے۔ اپنا قبلہ درست کرنے کے لیے میں ایک بار پھرپہلے سے بیان کردہ اس بات کا اعادہ کروں گا کہ فلسطینی اتھارٹی کو جامع قومی پلان کی طرف پلٹنا ہوگا اور قومی پروگرام کے تمام تقاضوں کو مد نظر رکھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ اس وقت اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی جاری تحریک کو سپورٹ کرنے، اسے مضبوط کرنے اور فلسطینیوں کے حقوق کے منصفانہ حصول کے لیے جدو جہد تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی سطح پر فلسطینی صنعت ،زراعت اور دیگر شعبوں کو مضبوط بناتے ہوئے اسرائیلی بائیکاٹ کی تحریک کو مزید کامیاب بنانا ہے۔

ہمیں پوری دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنا ہے کہ فلسطینیوں پرڈھائے جانے والے مظالم صہیونیوں کی نوآبادیاتی استعماری پالیسیی کا تسلسل ہے۔ فلسطینی قوم اور مسئلہ فلسطین جس نازک دور سے گذر رہا ہے اس میں ہمیں ایک مضبوط اور جاندار جذبے والی قیادت کی ضرورت ہے۔ ہم ایسی ڈھیلی ڈھالی اور کمزور و ناتواں قیادت کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں جو فلسطینی قوم کا عالمی اور علاقائی سطح پر مقدمہ پوری قوت سے نہ لڑسکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ فلسطین کے اندر بھی جمہوری ادارے مفلوج رکھنے کے بجائے انہیں مضبوط اور طاقت ور بنایا جائے۔ مجھے تو ایسے لگ رہا ہے کہ فلسطین کے موجودہ سیاسی نظام پر بڑھاپا طاری ہوچکا ہے۔ فکری طور پرہم دیوالیہ پن کا شکار ہونے لگے ہیں۔ فلسطین میں کمزور سیاسی نظام اور جمہوری اقدار نہ ہونے کی وجہ سے سول سوسائٹی اور ذرائع ابلاغ کا گلا بھی گھونٹا گیا ہے۔ جہاں تک مرکزی کونسل کے فیصلوں کو نظرانداز کرنے یا انہیں بائی پاس کرنے کی بات ہے تو یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ ماضی میں بھی فلسطینی اتھارٹی اسی طرح مان مانے اصولوں پر چلتے ہوئے قومی قیادت کے اجتماعی فیصلوں کو بالائے طاق رکھتی چلی آ رہی ہے۔

امن عمل اور مذاکرات

5:۔ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل سے مذاکرات ملتوی کرنے کے اعلان کے باوجود در پردہ نام نہاد بات چیت کسی نہ کسی شکل میں جاری رہتی ہے۔ نام نہاد امن بات چیت کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟۔

البرغوثی:۔اسرائیل کے ساتھ نام نہاد بات چیت پچھلی ربع صدی سے جاری ہے۔ سنہ 2000ء میں شروع ہونے والی دوسری تحریک انتفاضہ کے بعد بے سود مذاکرات کا بوجھ کندھوں سے اتار پھینکنے کا بہترین موقع ہاتھ آیا تھا مگر فلسطینی اتھارٹی اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکی بلکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی ایک بار پھر مذاکرات کے سراب میں الجھ کر رہ گئی۔ حالانکہ امن بات چیت کے کئی ناکام مراحل نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسرائیل بات چیت میں سنجیدہ نہیں بلکہ وہ صرف وقت حاصل کرتے ہوئے فلسطین میں اپنی توسیع پسندی کے سرطان کو پھیلانے کے لیے کوشاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی سنجیدہ مساعی کے باوجود امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔

فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے مذاکرات کے لیے جس قدر لچک کا مظاہرہ کیا گیا، اسرائیل کی جانب سے اسی نسبت سے انتہا پسندانہ اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ دیکھا گیا۔ فلسطینی مذاکرات کاروں کا واسطہ اسرائیل کے انتہا پسند سیاست دانوں سے پڑا جو فلسطینیوں کے حق خود ارادیت پر یقین تو کیا رکھیں گے فلسطینیوں کی الگ مملکت کے حامی نہیں ہیں۔

میں اسی وجہ سے فلسطینی سیاسی قوتوں پر زور دے رہا ہوں کہ وہ نئی قومی تزویراتی پیش بندی کریں۔ فلسطینیوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ نہتے شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن، بیت المقدس اور غرب اردن میں یہودی توسیع پسندی اور غزہ کہ ناکہ بندی جیسے مظالم کے تسلسل میں مذاکرات کسی صورت میں سود مند نہیں ہوسکتے۔

6:۔ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت بالخصوص صدر محمود عباس کو ان کے عہدے سے ہٹا کران کی جگہ ان کے نائب کو فلسطینی اتھارٹی کا سربراہ مقرر کرنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں مروان البرغوثی کا موقف کیا ہے؟۔

البرغوثی:۔ فلسطینی قوم کا رہ نما صرف وہی ہوسکتا ہے جسے پوری قوم نے اپنی ووٹ کی طاقت سے منتخب کیا ہو۔ کسی کو اپنی سیاسی طاقت کی بنیاد پرفلسطینی قوم کی گردنوں پر مسلط ہونے، فلسطینیوں کی اجتماعی سوچ اور فیصلے کو نظرانداز کرنے اور اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ فلسطین میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے جو جماعت بھی کامیاب ہو اسے حکومت بنانے کا حق حاصل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ فلسطینی قوم میں اپنے لیے صدر اور دیگر قایدین کے انتخاب کی پوری صلاحیت موجود ہے۔

سیاسی شراکت کا فارمولہ

7:۔ گوکہ آپ اس وقت دشمن کی قید میں ہیں، اس کے باوجود آپ کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کس حد تک حقیقت پسندانہ ہے۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ آپ جلد قید سے رہائی پا لیں گے؟۔

البرغوثی:۔ اگر فلسطینی عوام مجھ پراعتبارکریں تو یہ میرے لیے باعث عزت وافتخار ہے۔ میری قوم کا مجھ پراتنا اعتبار کافی ہے کہ وہ مجھے فلسطینی صدر کے عہدے کے لیے منتخب کریں۔ اگرایسا ہوتا ہے کہ میں بھی اپنی قوم کے ساتھ کسی قسم کی بدعہدی نہیں کروں گا۔ فلسطینی قوم کو بحران سے نکالنے کے لیے میرے پاس اپنا ایک ایجنڈا ہے۔ میں حماس اور اسلامی جہاد سمیت تمام فلسطینی سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کرچلنا چاہتا ہوں۔ ہمارے ایجنڈے میں نیشنل کونسل کا از سرنو انتخاب بھی شامل ہے تاکہ فلسطین میں نئی قیادت کو آگے آنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ میں قوم کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے والوں میں نہیں ہوں۔ یہ فیصلہ عوام ہی کو کرنا ہے کہ آیا وہ کسے صدر منتخب کرتے ہیں۔ عوام کا ہر فیصلہ ہمیں قبول ہوگا۔

8:۔ حماس سے تعلقات اور فلسطین کی سیاسی قوتوں میں پائے جانے والے اختلافات کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟۔

الرغوثی:۔ اس بات پرایمان کی حد تک میرا یقین ہے کہ جب تک فلسطینی سیاسی اور قومی دھڑے مل کرکسی ایک موقف پرچلنے کو تیارنہیں ہوتے اس وقت تک ہم قومی مقاصد اور اہداف حاصل نہیں کرسکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے فلسطین میں ’ایک خون ایک فیصلہ‘ کا نعرہ لگایا۔ یہ وہ وقت تھا جب فلسطین میں دوسری تحریک انتفاضہ جاری تھی۔ میں تمام فلسطینی قوتوں کو باہم دست وگریباں دیکھ کر شرمسار ہی نہیں دکھی ہوتا ہوں کیونکہ ہم اپنی قوت کو خود ہی منشتر کررہے ہوتے ہیں۔ فلسطین میں ابھرنے والی انتفاضہ تحریکیں بھی قوم کو ایک دھارے میں لانے کا بہترین موقع ہوتی ہیں مگر ہم ان تحریکوں سے بھی فایدہ نہیں اٹھا سکتے۔ سنہ 2003ء، اس کے بعد سنہ 2006 ء اور اسی سال فلسطینی اسیران کی جانب سے قومی میثاق کا اعلان فلسطینی قوم کو متحد کرنے کی مساعی کا حصہ تھا۔ ہم نے غزہ کی پٹی میں حماس کے سیاسی کنٹرول کے باوجود قومی مفاہمت کا عمل آگے بڑھانے کی بات کی۔حماس اور فتح کی قیادت کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے بعد گوکہ دونوں طرف زخم بہت گہرے ہوگئے تھے مگرانہیں بھرنے کی مساعی جاری رہنی چاہئیں تھیں۔

قومی مفاہمت بالؒخصوص حماس اور فتح کے درمیان مفاہمت کے لیے 10 نکاتی مفاہمتی فارمولہ پیش کررہا ہوں۔ جس کے نکات کچھ ہوں گے۔

1۔ حماس کے سیاسی شعبے اور تحریک فتح کی سینٹرل کمیٹی کے درمیان مخلصانہ، واضح اور صداقت پرمبنی بات چیت کا آغاز شروع کیا جائے۔ بات چیت کو چند ہفتےتک جاری رکھا جاسکتا ہے مگر قومی مفاہمتی مذاکرات تین ماہ سے زیادہ عرصے تک نہیں چلنے چاہئیں۔ بات چیت کو حتمی شکل دینے کے لیے دونوں جماعتیں ایک مہلت مقرر کریں اور پھر اس کے اندر اندر مذاکرات مکمل کریں۔

دونوں جماعتوں میں بات چیت جامع سیاسی شراکت کے اصولوں، بلا کم وکاست تزویراتی شراکت، تنظیم آزادی فلسطین، فلسطینی اتھارٹی، فلسطینی حکومت، نیشنل کونسل، مجلس قانون ساز، سول اور سیکیورٹی اداروں میں تحریک فتح کے ساتھ ساتھ حماس کو بھی اس کی حیثیت کے مطابق حصہ دیا جائے۔

2:۔ مذاکرات کی تکمیل کے موقع پر کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے جس میں ملک کی تمام سیاسی، سماجی تنظیموں، اقتصادی اداروں کے ماہرین، فکری شعبے سے وابستہ شخصیات، اسکالرز، خواتین اور نوجوانوں کے نمائندوں، اسیران کے مندوبین اور بیرون ملک مقیم فلسطینیوں کے نمائندگان کی موجودگی میں دونوں جماعتیں باہمی اتحاد کا معاہدہ کریں اور ان تمام مذکورہ قوتوں کو اس کا گواہ بنایا جائے۔

3:۔ تنظیم آزادی فلسطین کے تمام سیاسی اور سفارتی فیصلوں، مذاکرات یا مزاحمت، فلسطینی اتھارٹی، فلسطینی حکومت، غرب اردن، غزہ کی پٹی اور بیت المقدس میں مختلف سروسز فراہم کرنے کے امور پر متفقہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے اور کوئی گروپ سیاسی اور سیکیورٹی امور میں یک طرفہ مداخلت نہ کرے۔

4:۔ فلسطین میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات، نیشنل کونسل کے ارکان کے چناؤ اور ریاستی تاسیسی کونسل کے انتخابات کے لیے ٹائم فریم کا اعلان کیا جائے۔

5:۔ تمام ریاستی اداروں کے انتخابات میں ہرسیاسی جماعت پوری تیاری کے ساتھ حصہ لے اور شفاف اور آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والوں کو حکومت بنانے کا حق دیا جایے۔

6:۔ یہ بات سب کے ذہن میں رہے کہ ہم ایک غاصب ریاست کے خلاف قوم اور وطن کی آزادی کے لیے تحریک چلا رہے ہیں اور ہمیں متعین قواعد اور شرائط کے تحت تحریک آزادی کو آگے چلانے کے لیے متفقہ پروگرام پرعمل جاری رکھنا چاہیے۔

7:۔ فلسطین میں شخصی آزادی، سیاسی آزادی،صحافتی آزادی، آزادی اظہار رائے، عدلیہ کی آزادی، یونین سازی کی آزادی، سول سوسائٹی کی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔ سیاسی بنیادوں پر ہونے والی گرفتاریاں اور جیلوں میں سیاسی کارکنوں پر تشدد کا باب بند کرتے ہوئے خواتین کو بھی تمام شعبوں میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔

8:۔ آزادی اور سلب شدہ حقوق کے حصول کے لیے قومی مفاہمت کو بہترین ذریعہ قرار دیا جائے اور اس کی تمام اشکال کی حمایت اور سپورٹ کی جائے۔

9:۔ عالمی سطح پر اسرائیل کے بائیکاٹ کے لیے جاری تحریک BDS کی سرکاری اور قومی سطح پر جامع انداز میں سپورٹ کی جائے۔

10:۔ ملک میں ایک ایسی مخلوط قومی حکومت تشکیل دی جائے جو اپنی نگرانی میں پارلیمانی، صدارتی انتخابات کے ساتھ ساتھ نیشنل کونسل کے ارکان کا چناؤ کرے۔ غزہ کی پٹی کی تعمیر نو اور القدس کے باشندوں کی ہرممکن حد تک مدد اور حوصلہ افزائی کرے۔

9:۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے توسط سے آپ کیا پیغام دینا چاہئیں گے؟۔

البرغوثی:۔ میں پوری فلسطینی قوم اور ملک کے تمام باشندوں کو وہ جہاں جہاں بھی ہیں سلام پیش کرتا ہوں۔ میری تمام فلسطینیوں سے ہمدردانہ گذارش ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، دشمن کے مقابلے میں عزم واستقلال کے پہاڑ ثابت ہوں، فلسطین میں جاری تحریک انتفاضہ کی حمایت کریں، قومی مصالحت کے لیے جاری کوششوں کو سنجیدگی سے آگے بڑھائیں۔ نوجوانوں کو ملک کے تمام اداروں میں شمولیت کا موقع دیا جائے۔ تمام فلسطینی اپنے قومی، تاریخی، سیاسی اور جغرافیائی حقوق کے مطالبے پر ڈٹ جائیں،جلد یا بدیر ان کی قربانیاں رنگ لائیں گی۔

 

مختصر لنک:

کاپی