جمعه 15/نوامبر/2024

فلسطینی شہروں کے لغوی اور اصطلاحی معانی

جمعرات 21-اپریل-2016

ممتاز فلسطینی ماہرقانون ڈاکٹر حنا عیسی نے فلسطین کے بڑے شہروں کے لغوی اور اصطلاحی معانی پر روشنی ڈالی ہے ۔ذیل میں ان مفاہیم کی اردو میں وضاحت پیش ہے۔
القدس
‘القدس’کا لغوی معنی پاکیزگی اور طہارت کے ہیں۔بیت المقدس کا مطلب ہے”پاک گھر”بیت المقدس کو یہ نام اس کے ہرقسم کے گناہوں اور برائیوں سے پاک مقام ہونے کی بدولت دیا گیا۔القدس کو ”قودش”اور”قودس”بھی کہا جاتا ہے۔سامی زبانوں میں اس کا معنی صاف ستھرا، پاکیزہ اور بلند تر ہے۔
رام اللہ
”رام اللہ”دو الفاظ کا مرکب ہے۔ رام اور لفظ ”اللہ”(جل جلالہ) اہل عرب دونوں الفاظ کو ایک ہی نام کے لیے استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔کنعانی زبان میں”رام”بلند وبالا مقام کے معنوں میں استعمال ہوتا رہا۔عربوں نے اس کے ساتھ”اللہ”کا لفظ شامل کیا۔صلیبی بھی”رام اللہ”ہی کہتے تھے۔تاریخی مصادر وماخذ کے مطابق سولہویں صدی عیسوی کے اواخر اور سترہویں صدی کے اوائل میں ایک عرب قبیلے نے یہاں سکونت اختیارکی ۔اس وقت یہ ایک چھوٹی سی بستی تھی۔انہوں نے بھی اس کا نام رام اللہ ہی رکھا۔
البیرہ
یہ کنعانی زبان کا اسم مشتق ہے۔کنعانی میں ”بیئرون”کو عربی میں ا”بار”اور اردو میں کنواں کہا جاتا ہے۔موجودہ رام اللہ سے چند کلو میٹرکی مسافت پرواقع یہ شہر چشموں اور آبشاروں کی وجہ سے”البیرہ”مشہور ہوا۔چشمہ القصعہ ، چشمہ ام الشرایط، چشمہ جنان اور چشمہ الملک اس کے مشہور چشمے ہیں۔رامی زبان میں اس کا نام ”بیرتا”بتایا جاتا ہے جس کا معنی”قلعہ یا فصیل بند شہر ہے۔
الخلیل
کنعانی العناقیین قبیلے کی نسبت سے اس شہرکو ”اربع”کے نام سے جانتے تھے۔بعد میں اس کا نام”حبرون”اور”حبری”بھی مشہور رہا۔جبل الراس میں بیت ابراہیم سے متصل ہونے کی بنا پر اسے الخلیل، خلیل الرحمان النبی ابراہیم علیہ السلام کا نام دیا گیا۔سنہ 1099 میں صلیبی اسے ابراہام کے نام سے پکارتے تھے۔صلیبیوں کے بعد یہ شہر الخلیل کے نام سے جانا جانے لگا۔الخلیل شہر کی نسبت حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔
جنین
تورات میں جنین کا لفظ پانی، سبزے اور وجیہ چہرے کے لیے استعمال ہوا ہے۔
طولکرم
طولکرم کا پرانا نام ”بیرا زورقا”ہے۔بیرات اور البیرہ پانی کے چشمہ کے لیے مستعمل ہے۔ جب کہ” البئر سورق” کا معنی”چنیدہ یا پسندیدہ”ہے۔موجودہ نام میں طول اور کرم دو الگ الگ الفاظ ہیں۔طول کا مطلب چشموں کا مقام ہے۔فرنگیوں نے اسے”الطور”کا نام  بھی دیا۔بعد ازاں طور کو طول میں تبدیل کردیاگیا۔
بیت لحم
عربانی میں اس کا نام”ایلولاھاما”ہے جس کے معنی خدا کے گھر کے ہیں۔ارامی زبان میں لحم کو ”لاخاما”کہا جاتا ہے جس کا معنی روٹی کے گھر کے ہیں۔معروف معنوں میں یہ نام اس کی زرخیزی کی وجہ سے دیا گیا۔
نابلس
نابلس حضرت سلیمان علیہ السلام کے ھد ھد کی نسبت سے شہرت رکھتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ھد ھد حضرت سلیمان کے پاس مختلف قوموں کی خبریں لایا کرتا تھا۔ایک دفعہ پریشانی کے عالم میں ھد ھد حضرت سلیمان کے پاس پہنچا۔انہوں نے ھد ھد سے پوچھا کیا خبر لائے ہو؟ اس نے کہا کہ”کنعان”قوم کے ایک شہر(نابلس)کے لوگوں پر اللہ کے عذاب کی خبر لایا ہوں۔اللہ نے ان پر”لس”نامی ایک اژھاد مسلط کیا ہے۔اس زہریلے سانپ نے شہر کے پانی کے بڑے کنوئیں میں اپنے”ناب”یعنی منہ سے زہر ڈال دیا۔لوگوں نے وہ زہریلا پانی پیا اور سب مرگئے۔یوں ”ناب”اور”لس”کو ملا کر”نابلس”کردیا گیا۔
قلقیلیہ
قلقیلیہ ”جلجلا”کی موجودہ شکل ہے۔کنعانی لغت میں ”جلجل”دریائوں اور سمندروں کے کناروں پر پڑے گول بھاری پتھروں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔فلسطین کے مغربی ساحلی علاقوں کی پہاڑیوں اور بلندو بالا چوٹیوں کے لیے استعمال ہونے لگا۔بعد میں”جیم”کا حرف بول چال میں آسانی کے لیے”ق”میں تبدیل کردیا گیا۔یوں”جلجالیا””قلقالیا”میں تبدیل ہوا اور آج اسے”قلقیلیہ” کہا جاتا ہے۔
بعض مورخین کا کہنا ہے کہ قلقیلیہ کا منبع قدیم یونانی زبان ہے۔رومن عہد میں یہاں کے لوگ اس شہر کو کتاب والے ”کاف”سے ”کلکیلیا”کہا کرتے تھے۔
طوباس
طوباس کا پرانا کنعانی نام”تاباص”تھا رومن عہد میں اسے ”ثیبس”کہا جاتا تھا۔اسلامی خلافت کے زیرنگیں آنے کے بعد اسے”طوباس”کہا جانے لگا۔
سلفیت
سلفیت دو الفاظ”سل”اور”فیت”کا مرکب ہے۔موجودہ عربی لغت میں ”سل”لکڑی کے بنے ایک بڑے تھال کے لیے استعمال ہوتا ہے۔حیران کن امر یہ ہے کہ انگریزی میں بھی ”سل”سے ملتا جلتا لفظ ”وسل”اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔”فیت”کا معنی انگورہے۔ یوں دونوں کو ملا کراس کا معنی”انگور کا تھال”بنتا ہے۔یہ سلفیت کے انگوروں کے باغات کی طرف اشارہ ہے۔
المجدل
رامی زبان میں یہ برج کے معنوں میں استعمال ہوتا رہا ہے۔کنعانی دور میں اسے مجدل اور جاد کے ناموں سے بھی جانا جاتا تھا۔کنعانی لغت میں ”خدا”کے معنی میں استعمال ہوا۔
بیسان
بیسان کنعانی کے”بیت شان”کی نئی شکل ہے اس کا مطلب اللہ کا گھر قرار دیاجاتا ہے۔
عکا
فلسطین کے موجودہ شہر”عکا”کے ماضی میں مختلف نام رکھے جاتے رہے ہیں۔کنعانی دور میں اسے ”عکو”کہا جاتا تھا۔کنعانی لغت میں عکو گرم ریت کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔مصریوں نے اسے”عکا” اور”عک”کے نام دیے۔ عبرانی بھی اسے ”عکا”ہی کہتے رہے۔لاطینی اور یونانی میں اسے”عکی”کہا جاتا تھا۔
حیفا
حیفا شہر کا منبع ”حفا”بتایا جاتا ہے جس کا معنی ساحل سمندر ہے۔معروف عرب ادیب اور ماہر لسانیات یاقوت عبداللہ نے معجم البلدان میں حیفا کا منبع”الحیف”بیان کیا ہے جس کا معنی ظلم وجور کے بیان کیا جاتا ہے۔
یافا
کنعانی میں یافا خوبصورت قدرنی مناظر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
الناصرہ
الناصرہ شہر کے بارے میں بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ نام ظہور مسیح علیہ السلام سے قبل مشہور ہوا جس کا معنی”غاروں کی ماں”بتایا جاتا تھا۔ایک دوسرا خیال یہ ہے کہ الناصرہ النبی سعین کے اس پہاڑ کے لیے استعمال ہوتا تھا ،جس پروہ ایک محافظ کے طوپر کھڑے رہے۔
تاریخ الناصرہ کے مصنف اسعد منصور نے دوسری رائے کو ترجیح دی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ الناصرہ عربی کے الناصر کی مونث شکل ہے جس کا معنی بلندی کی طرف مائل مقام ہے۔مغربی محققین کے مطابق اس کا معنی”خوف زدہ”کرنے اور انذار کرنے والا کے ہے۔

 

مختصر لنک:

کاپی