اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 5 مستقل ارکان اور جرمنی کے ساتھ ایران کا جوہری معاہدہ طے پانے پر دنیا بھر میں اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔ دنیا میں اکثریت نے امریکہ کی آمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے اندازے سے اتفاق کیا ہے کہ مشترکہ اور جامع ایکشن پلان نے ایسا مستحکم اور مؤثر فارمولا طے کردیا ہے جس پر عمل درآمد ہوگا۔ ایران کم از کم آنے والی ایک نسل تک ایسا جوہری مواد حاصل نہیں کرسکے گا جس سے وہ ایٹمی ہتھیار تیار کرسکے۔ ایسی ہر کوشش مکمل طور پر بے نقاب ہو سکے گی اور جوہری ہتھیار سازی کے کسی بھی عمل کو روکنے کا بھی پورا میکانزم طے کردیا گیا ہے۔
اس عمومی ذوق و شوق کے ساتھ ساتھ چند استثنائی صورتوں کی بات بھی کی جارہی ہے۔ ان کا اظہار امریکہ اور اس کے قریب ترین اتحادیوں اسرائیل اور سعودی عرب کی طرف سے کیا جارہا ہے۔ ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ امریکی کارپوریشنوں کو ایران کا رخ کرنے سے سختی سے منع کردیا گیا ہے۔ انہیں کہا گیا ہے کہ انہیں یورپی کارپوریشنوں کا تعاقب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکی اقتدار اور رائے عامہ کے طاقت ور حلقوں نے بھی ان دونوں علاقائی اتحادیوں کی بات سننے پر زور دیا ہے۔ اس طرح سے ”ایرانی خطرے” کے بارے میں ہسٹریائی کیفیت پائی جاتی ہے۔ امریکی تبصروں میں یہ نکتہ سنجیدگی سے بیان کیا جارہا ہے کہ یہ ملک عالمی امن کے لیے سب سے سنگین خطرہ ہے۔ اس ڈیل کے حامیوں میں بھی جنگی کیفیت موجود ہے۔ وہ امن کو شدید خطرے میں محسوس کرتے ہوئے یہ بات کر رہے ہیں۔ آخر کار وہ کون سا طریقہ یا اسلوب ہے جس سے ہم جارحیت، تشدد، اکھاڑ پچھاڑ اور دھوکے کے خراب ریکارڈ کے ایران پر اعتبار کرسکیں؟
سیاسی طبقات کے اندر بھی اس معاملے پر اس قدر شدید مخالفت سامنے آرہی ہے کہ اس ڈیل کو حاصل نمایاں ترین سپورٹ میں بھی دراڑیں پڑتی نظر آرہی ہیں۔ ری پبلکن پارٹی میں تو اس پر مکمل اتفاق رائے ہے کہ یہ ڈیل غلط ہے۔ حال ہی میں منعقد ہونے والی ری پبلکن سے بھی ڈیل کی مخالفت ہی نمایاں رہی ہے اور اس مخالفت کے اسباب بھی بیان کیے گئے ہیں۔ صدارتی امیدواروں کی بھیڑ میں سینیٹر ٹیڈ کروز ایک علمی شخصیت کے طور پر پہچانے جارہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ایران اب بھی ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ وہ کسی بھی دن اس کا استعمال کرسکتا ہے اور ہزاروں لاکھوں امریکیوں کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔
صدارتی دوڑ کے دو ممکنہ فاتح سابق گورنر فلوریڈا جیب بش اور وسکونسن کے گورنر سکاٹ واکر کے درمیان بحث یہ ہو رہی ہے کہ ایران پر ایٹمی حملہ کردیا جائے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ الیکشن جیت کر پہلا کام یہی کریں گے۔ کم از کم کابینہ کے پہلے اجلاس سے زیادہ اس کام میں تاخیر نہ کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔ ان امیدواروں میں سے لنڈسے گراہم ایسے صدارتی امیدوار ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ خارجہ امور پر مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس ڈیل کو ریاست اسرائیل کے لیے موت کا پیغام قرار دیا ہے۔ یہ بات اسرائیل کی انٹیلی جنس اور تزویراتی تجزیہ نگاروں کے لیے حیران کن ہوگی۔ لنڈسے گراہم جو بات کہہ رہے ہیں وہ سراسر حماقت ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس طرح ان کے حقیقی مقاصد پر اہم سوالات اٹھ رہے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ری پبلکن پارٹی تو عرصہ ہوا، نارمل سیاسی جماعت کی طرح کام کرنے کے اہل بھی نہیں رہی ہے۔ اس کی کانگریشل پارٹی کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔ نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھے جانے والے قدامت پرست سیاسی مبصر فارمن اونسٹن کے خیالات کے مطابق ری پبلکن محض انقلابی احتجاجی گروہ کے طور پر باقی رہ گئے ہیں۔
رونالڈ ریگن کے دور کے بعد سے پارٹی نے خود کو طبقۂ امراء کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔ اس کا دوسرا ٹھکانہ کارپوریٹ سیکٹر ہے۔ ان میں فقط یہ صلاحیت رہ گئی ہے کہ وہ امریکی ووٹروں کے اس حصہ کو متحرک کرسکتی ہے جس نے کبھی بھی سیاسی قوت کا کردار ادا نہ کیا ہو۔ ان میں منظم سیاسی سوچ موجود نہ رہی ہو۔ ان کی صفوں میں انتہا پرست ایوانجلیکل مسیحی موجود ہیں اور ان پر ہی ری پبلکن ووٹ کی اکثریت مشتمل ہے۔ یہ ان ریاستوں کی باقیات ہیں جہاں غلاموں کو غیر انسانی سلوک سے گزرنا پڑتا تھا۔ ان میں وہ آبائی باشندے شامل ہیں جنہیں یہ کہہ کر خوفزدہ کیا جاتا رہا ہے کہ گورے مسیحی اینگلو کن ملک کو ان سے چھین رہے ہیں۔ وہ بہت سے دوسرے بھی شامل ہیں جنہوں نے ری پبلکن پرائریز کو مرکزی دھارے سے الگ تھلگ کر دیا ہے اور جدید معاشرے سے کاٹ کر الگ رکھ دیا ہے۔ ری پبلکن اب بھی دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے مرکزی دھارے میں موجود ہیں۔ ان کا عالمی معیار سے الگ ہو جانا ری پبلکن انقلابیت سے بھی بہت مختلف معاملہ ہے۔ اگر موجودہ منظر پر نگاہ ڈالی جائے تو ویانا میں ہونے والے معاہدے میں کہیں یہ ذکر نہیں ہے کہ امریکہ اس ملک پر کسی بھی وقت کسی طرح سے حملہ نہیں کرسکتا۔ اس بات کا تذکرہ امریکی جوائنٹ چیف آف سٹاف کے جنرل مارٹن ڈمپ سی نے بھی کیا ہے۔ اگر امریکی حکام یہ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ ایران ان پر دھوکہ اور چالبازی مسلط کر رہا ہے تو اس پر حملہ کرنے میں کوئی رکاوٹ ہرگز نہیں ہے۔ اگر ایران معاہدے کی پاسداری کرتا رہا تو اس پر کسی فیصلے کا امکان نہیں رہتا۔
سابق صدر کلنٹن اور اوباما کے مذاکرات کار ڈینس راس نے بالخصوص کہا ہے کہ ایران کو کسی نوعیت کا شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں ذرا سا بھی احساس ہوا کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں کی طرف بڑھنے والا ہے تو طاقت کا استعمال ناگزیر ہو جائے گا۔ یہ کیفیت تب بھی پیدا ہوسکتی ہے جب ڈیل کے خاتمے کا مرحلہ آجائے۔ ایران کی اپنی مرضی ہے، وہ معاہدے سے نکل کر جو چاہے کرسکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس معاہدے کی مدت 15 سال بعد ہی ختم ہوگی، اس کے بعد واحد مسئلہ یہی رہ جاتا ہے کہ معاہدہ ہو، یہ ہو چکا ہے۔ ڈینس راس نے تجویز دی ہے کہ امریکہ اسرائیل کو سپیشل بی باون بمبار اور بنکر تباہ کرنے والے بم دے اور اس دن کو آنے ہی نہ دے جب خطرناک صورتحال پیدا ہو۔
سب سے سنگین خطرہ کیا ہے
ایٹمی ڈیل کے مخالفین الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ بہت زیادہ دیر تک نہیں چلے گی۔ بعض حامیوں کو اس بات سے اتفاق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ویانا ڈیل کے کوئی معانی ہیں تو پورے مشرق وسطیٰ کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ خود کو ایٹمی ہتھیاروں سے بالکل پاک کردے۔ یہاں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کے ہتھیار تلف کردیئے جائیں۔ ان الفاظ کے خالق ایران کے خارجہ امور کے وزیر جواد ظریف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران اس وقت غیر جانبدار ممالک کی تنظیم کا صدر بھی ہے اور اہم ملک بھی ہے۔ ان کا ملک بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر ان مقاصد کے حصول کے لیے کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کس راستے پر چل رہے ہیں۔ اس راستے میں وہ عناصر بار بار رکاوٹیں کھڑی کرتے رہیں گے جو امن اور سفارت کاری کو کام کرنے کا موقع دینا ہی نہیں چاہتے۔ ایران نے تاریخی معاہدے پر دستخط کیے ہیں اور اسرائیل کی باری ہے کہ وہ خود کو پاک صاف کرے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ اسرائیل ان ملکوں میں سے ہے جنہوں نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے۔ ان میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں۔ ان کے ایٹمی پروگراموں پر بھی امریکہ تنقید کرتا رہا ہے۔ ظریف نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ این پی ٹی کی پانچ سال میں ہونے والی ریویو کانفرنس اپریل میں ناکامی سے دوچار ہو چکی ہے۔ اس ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ نے ایک مرتبہ پھر مشرق وسطیٰ کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دینے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا تھا۔ اس کام میں کینیڈا اور برطانیہ بھی امریکہ کے ساتھ تھے۔ مصر اور دوسرے عرب ممالک 20 سال سے یہ کوشش کرتے آئے ہیں۔ این پی ٹی اور اقوام متحدہ کے دوسرے اداروں کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ این پی ٹی کا مستقبل کیا ہے؟ اس بارے میں آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے جرنل میں مضمون بھی شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں لکھا گیا ہے کہ 1995ء میں مشرق وسطیٰ کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک خطہ قرار دینے کی قرارداد کی منظوری بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس کی وجہ سے یہ بھی ممکن ہو سکا تھا کہ این پی ٹی کو غیر معینہ مدت تک جاری رکھا جاسکے۔ اگر اس پر عمل درآمد ہو جائے تو ایٹمی ہتھیاروں سے نجات حاصل کرنا ممکن ہے۔
امریکہ نے بار بار ایسی قرارداد کی منظوری کو روکا اور ناکام بنایا ہے۔ صدر اوباما بھی یہی کچھ 2010ء اور پھر 2015ء میں کرچکے ہیں۔ مضمون میں لکھا گیا ہے کہ جو ریاست این پی ٹی کی رکن نہیں ہے، وہ اس خطے میں موجود ہے اور اس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی موجود ہیں۔ یہ اسرائیل کی طرف بڑا ہلکا پھلکا اشارہ ہے۔ اس معاہدے کے خلاف کام یا اس کی ناکامی تو ایٹمی اسلحہ کے عدم پھیلائو سے مشرق وسطیٰ کو امن کا خطرہ بنانے کے عمل کو ناکام بنانا ہے۔
مشرق وسطیٰ کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک خطہ بنا دیا جائے تو ایران سے جو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن سب کچھ تو دائو پر اس لیے لگا ہوا ہے کیونکہ امریکہ ہر مرتبہ کوشش کرتا ہے اور اسرائیل کے تحفظ کے لیے آگے آتا ہے۔ یہ معاملہ بھی نہیں ہے کہ صرف اسی جگہ پر امریکہ کی وجہ سے یہ سارا کام ختم ہو جاتا ہے اور بھی بہت کچھ دائو پر لگا ہوا ہے۔
امریکہ میں اعلیٰ حکام اور مبصرین کا یہ اتفاق رائے ہے کہ موجودہ صورتحال میں ایران نے کامیابی حاصل کی ہے۔ امریکہ سے باہر بھی دنیا ہے، اس کی اپنی اہمیت ہے۔ مغرب میں عوامی رائے کے اداروں نے اپنے پول کرنے کے بعد بتایا ہے کہ ”سب سے سنگین خطرے” کا انعام امریکہ جیت چکا ہے۔ دنیا امریکہ کو عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے۔ اس بارے میں رائے عامہ کی بھاری اکثریت امریکہ کو خطرہ قرار دے رہی ہے۔
تحریر: نوم چومسکی