اسرائیلی فوج کے طبی ماہرین نے اپنی تحقیقات میں تسلیم کیا ہے کہ اپریل میں مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میں ایک فلسطینی نوجوان عبدالفتاح الشریف کا قتل اسرائیلی فوجی کی دانستہ کارروائی تھی۔ یہ دعویٰ غلط ہے کہ فوجی اہلکار نے غیرارادی طورپر الشریف پر شدید زخمی ہونے کے باوجود گولیاں چلائی تھیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی طبی ماہرین کی تازہ رپورٹ امریکی فاکس نیوز نیٹ ورک سے نقل کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ عبدالفتاح الشریف کے قاتل اسرائیلی فوجی اہلکار الیوور عزریاہ نے اسے جان بوجھ کرگولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قاتل کو علم تھا کہ زخمی فلسطینی اب کسی قسم کے حملے کی پوزیشن میں نہیں اور نہ ہی اس نے خود کش جیکٹ پہن رکھی ہے۔ اس لیے وہ اسرائیلی فوجیوں کے لیے کسی قسم کا خطرہ نہیں تھا۔ مگر اس کے باوجود فوجی اہلکار نے اس کے قریب جا کرنہایت قریب سے اس کےسرمیں کئی گولیاں ماریں جس کے نتیجے میں وہ موقع پرہی دم توڑ گیا۔
خیال رہے کہ پچھلے سال اپریل کے وسط میں مقبوضہ بیت المقدس میں تل ارمیدہ کے مقام پر اسرائیلی فوجیوں نے ایک سترہ سالہ فلسطینی بچے عبدالفتاح الشریف کو ایک چیک پوسٹ پرگولیاں مار کر زخمی کردیا۔ زخمی لڑکا کئی گھنٹے وہاں تڑپتا رہا۔ اس دوران ایک دوسرے فوجی اہلکار نے آگے بڑھ کر الشریف کے سرمیں کئی گولیاں پیوست کیں جس کے نتیجے میں وہ موقع پر جام شہادت نوش کرگیا۔
طبی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فوجی اہلکار کی جانب سے فلسطینی لڑکے پرحملے کے پس پردہ فوجی کے انتہا پسندانہ نظریات اور متشدد عقاید کار فرما ہیں جنہوں نے فوجی کو فلسطینی نوجوان کی جان لینے پراکسایا۔