فلسطین میں قیام اسرائیل کے 68 برس پورے ہونے پر سرکاری سطح پر جاری کردہ ایک تفصیلی رپورٹ میں بے گھر کیے گئے فلسطینیوں کے اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قیام اسرائیل کے سات عشروں کے بعد بھی ایک کروڑ چوبیس لاکھ فلسطینی ھجرت کی زندگی گذار رہے ہیں اور انہیں اپنے وطن میں واپسی کا حق نہیں دیا گیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطین کے سرکاری ادارہ شماریات کی جانب سے جارہ کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 1948ء میں ارض فلسطین میں صہیونی ریاست کےقیام کے بعد 12.4 ملین فلسطینی ھجرت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سنہ 1948ء میں اپنے گھر بار چھوڑنے والے فلسطینیوں کی تعداد میں اب 9 گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ بے گھر ہونے والے فلسطینیوں میں لاکھوں دوسرے ملکوں میں پناہ گزین کی حیثیت سے رہ رہے ہیں ایک بڑی تعداد بیت المقدس، غرب اردن اور غزہ کی پٹی میں مہاجر کیمپوں میں رہتے ہیں۔
رپورٹ میں بتا گیا ہے کہ 24 لاکھ فلسطینی مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948ء کے علاقوں کی 1300 بستیوں میں مقیم تھے۔ قیام اسرائیل کے وقت انہیں طاقت کے ذریعے ان کے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ان میں سے 8 لاکھ فلسطینی مسلح یہودی جتھوں اور جرائم پیشہ عناصر کے حملوں کے باعث ھجرت پرمجبور ہوئے۔
مصدقہ اطلاعات کے غاصب صہیونیوں نے 15 مئی سنہ 1948ء کو شمالی فلسطین کی 774 بستیوں اور دیہات پرقبضہ کیا۔ 531 شہروں اور قصبوں کا نام ونشان مٹا دیا گیا۔ اس دوران 70 مرتبہ فلسطینیوں کا اجتماعی قتل کیا گیا، جن میں کم سے کم 15 ہزار فلسطینی لقمہ اجل بنے۔
سنہ 2015ء کے اختتام تک ھجرت کی زندگی بسر کرنے والے فلسطینیوں کی تعداد جاری کی گئی تو پتا چلا کہ سنہ 1948ء کے بعد اب تک مہاجرین کی تعداد میں 8.9 گنا اضافہ ہو چکا ہے اور اس وقت ایک کروڑ 24 لاکھ فلسطینی ھجرت کی زندگی پر مجبور ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطین میں اس وقت کل فلسطینی آبادی 60 لاکھ 20 ہزار ہے۔ سنہ 2020ء تک فلسطینی آبادی 71 لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے۔ فلسطین کے اندر پناہ گزین کی حیثیت سے رہنے والے مہاجرین کل پناہ گزینوں کا 42.8 فی صد ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین’اونروا‘ کے مطابق اس کے ہاں اندرون فلسطین رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد 5.59 ملین ہے۔
28 اعشاریہ 7 فی صد فلسطینی پناہ گزین اردن میں 58 کیمپوں میں رہتے ہیں۔ شام میں فلسطینی پناہ گزینوں کے 9 کیمپ ہیں۔ لبان میں 12، مقبوضہ مغربی کنارے میں 19 اور غزہ کی پٹی میں 8 پناہ گزین کیمپ ہیں۔
سنہ 1949ء سے جنگ ستمبر 1967ء کے عرصے میں فلسطین سے ھجرت کرنے والے شہریوں کی رجسٹریشن نہیں کی گئی۔ ان کی تعداد بھی لاکھوں میں بتائی جاتی ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی جانب سے سنہ 1967ء کی جنگ میں بے گھر کیے گئے فلسطینیوں کو بھی اپنے ہاں پناہ گزین کے طورپر رجسٹرڈ نہیں کیا۔
سنہ 1948ء میں قیام اسرائیل کے وقت ایک لاکھ 54 ہزار فلسطینی اپنے گھروں میں رہے اور ھجرت نہیں کی۔ حالیہ یوم نکبہ کے موقع پر ان فلسطینیوں کی تعداد 15 لاکھ بیان کی گئی ہے۔
سنہ 2014ء میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اسرائیل میں رہنے والے فلسطینیوں میں سے 34.8 فی صد کی عمریں 15 سال سے کم ہیں جب کہ 65 سال سے زاید عمر کے افراد کی تعداد 4.4 بیان کی گئی تھی۔ سنہ 2014ء میں فلسطینی آبادی کی تعداد 48 لاکھ بیان کی گئی تھی جن میں 29 لاکھ غرب اردن اور 19 لاکھ غزہ کی پٹی میں رہائش پذیر تھے۔ اس کے علاوہ بیت المقدس میں 4 لاکھ 23 ہزار فلسطینی آباد ہیں۔ ان میں مشرقی بیت المقدس میں فلسطینی آبادی 62.1 فی صد ہے۔
آبادی میں اضافے کےحوالے سے بھی فلسطین پہلے نمبر پرہے۔ سنہ 2011ء اور 2013 ء کے دوران پیدائش کی شرح 4.1 فی صد رہی۔ ان میں غرب اردن میں 3.7 اور غزہ میں 4.5 فی صد آبادی میں اضافہ ہوا۔
گنجان آباد علاقوں کے حوالے سے بھی فلسطین اپنی مثال آپ ہے سنہ 2015ء کے اختتام تک ایک مربع کلو میٹر علاقے میں 789 فلسطینی آباد تھے۔ ان میں غرب اردن میں فی مربع کلو میٹر513 اور غزہ میں 5070 افراد فی مربع کلو میٹرآباد ہیں۔ اسرائیل میں سنہ 2015ء میں فی مربع کلو میٹر391 افراد آبادی کا تناسب ریکارڈ کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہودیوں کی غالب اکثریت بیت المقدس میں رہائش پذیر ہے۔ اس کے علاوہ غرب اردن میں سنہ 2014ء میں 150 بڑی اور 119 چھوٹی کالونیوں سمیت کل 413 مقامات پر یہودی آباد کار بتائے گئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق ارض فلسطین کے کل 27 ہزار مربع کلو میٹر رقبے میں سے 85 فی صد پر اسرائیل کا ناجائز تسلط ہے جب کہ فلسطینیوں کے پاس صرف 15 فی صد علاقہ ہے۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کی سرحد پر 1500 کلو میٹر کا علاقہ بفرزون قرار دے رکھا ہے۔ فلسطینیوں کے پاس موجود کل رقبے کا 24فی صد غزہ کا علاقہ شامل ہے جو کل 365 مربع کلو میٹر پر پھیلا ہے۔ 90 فی صد وادی اردن اور 29 فی صد مقبوضہ مغربی کنارے کا علاقہ فلسطینیوں کے پاس ہے۔
ارض فلسطین کے ساتھ ساتھ فلسطینی قدرتی وسائل پر بھی صہیونی ریاست قابض ہے۔ فلسطین کے پانی کے 85 فی صد وسائل اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ فلسطینی شہری اسرائیل کی واٹر سپلائی کمپنی ’’میکروٹ‘‘ سے پانی خرید کر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ سنہ 2014ء کے دوران فلسطینیوں نے اس کمپنی سے 63.5 ملین گیلن پانی خرید کیا۔
فلسطین میں 29 ستمبر 2000ء سے 31 دسمبر 2015ء تک 10 ہزار 243 فلسطینی شہید کیے۔ سنہ 2014ء فلسطینیوں کے قتل عام کا بدترین سال قرار دیا جاتا ہے۔ اس دوران 2240 فلسطینی شہید کے گئے۔ ان میں 2181 فلسطینی غزہ کی پٹی پر اکاون دن تک مسلط کی گئی جنگ کے دوران شہید ہوئے۔
اس سے قبل سنہ 2009ء میں غزہ پر مسلط کی گئی جنگ میں 1219 فلسطینی شہید کیے گئے جب کہ 2012ء میں غزہ میں 306 فلسطینی شہید ہوئے۔ سنہ 2015ء میں اسرائیل کے خلاف شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ القدس کے دوران 181 فلسطینی شہید کئے گئے۔ ان میں 26 غزہ کی پٹی اور 155 مقبوضہ مغربی کنارے میں شہید ہوئے۔
فلسطینی محکمہ امور اسیران کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق سنہ 1967ء سے اپریل 2016ء تک 20 لاکھ فلسطینیوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔ 95 ہزار فلسطینی سنہ 2000ء میں شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ کے بعد گرفتار کیے گئے۔
اسرائیل کے حراستی مراکز اور جیلوں میں اب بھی 7 ہزار سے زاید فلسطینی قید ہیں۔ ان میں 400 بچے،68 خواتین، 750 انتظامی قیدی، جب کہ 500 عمر قید کے سزا یافتہ اسیر شامل ہیں۔
سنہ 2015ء کے دوران صہیونی فوج نے کریک ڈاؤن کے دوران 6 ہزار 830 فلسطینی جیلوں میں ڈالے۔ ان میں 2179 بچے اور 225 خواتین شامل ہیں۔ رواں سال میں اب تک 2000 فلسطینیوں کو پابند سلاسل کیا جا چکا ہے۔