گرمی کاموسم آتے ہی فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے بعض شہروں میں پانی کا بحران پیدا ہوتا اور اسرائیلی پالیسیوں کے باعث شدت اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ امسال بھی موسم گرما کے شروع ہوتے ہی دریائے اردن کے مغربی کنارے کے جنوبی شہروں میں پینے کے صاف پانی کا خطرناک بحران پیدا ہو گیا ہے۔
اگرچہ شہریوں کی پانی کی قلت دور کرنے کے لیے سرکاری اور نجی سطح پر کوششیں جاری ہیں، رضاکار تنظیموں اور عام شہریوں کی جانب سے بھی بحران سے نمٹنے میں دوسروں کی مدد کا داعیہ موجود ہے مگر یہودی آباد کاری، اسرائیلی کالونیوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافے اور صہیونی قابض انتظامیہ کی جانب سے پانی کے وسائل پر قبضے کے بعد فلسطینی شہریوں کے لیے پانی کا بحران اور بھی شدید تر ہو گیا ہے۔
فلسطینی سرکاری واٹر اتھارٹی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سب سے بڑی نا انصافی یہودی کالونیوں کی جانب سے کی جاتی ہے کیونکہ پانی کی تقسیم میں فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان منصفانہ طریقہ کار نہیں اپنایا جاتا بلکہ یہودیوں کو نہ صرف پانی کی وافر مقدار مہیا کی جاتی ہے بلکہ پانی کی تقسیم کے معاملے میں بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
سنہ 2011ء میں فلسطینی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مغربی کنارے کے کسانوں کو فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے سالانہ 51 ملین مکعب میٹر پانی مہیا کیا جاتا ہے جب کہ اسی عرصے میں یہودیوں کو 1042 ملین مکعب میٹر پانی فرہم کیا جاتا ہے۔
سنہ 1993ء میں طے پائے اوسلو معاہدے کی رو سے غرب اردن میں فلسطینیوں کو سالانہ 118 ملین مکعب میٹر پانی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جب کہ اس وقت مجموعی طورپر 87 ملین مکعب میٹر پانی نکالا جاتا ہے اور اس میں سے ایک بڑی مقدار یہودی آباد کاروں کو دے دی جاتی ہے۔
اس صورت صورت حال یہ ہے کہ مغربی کنارے کے کل پانی کا 80 فی صد یہودی استعمال کرتے ہیں جب کہ فلسطینیون کے حصےمیں کل 20 فی صد پانی آتا ہے۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں پانی کی نکاسی کی ذمہ داری اسرائیل کی’’میکروٹ‘‘ نامی کمپنی کو دی گئی ہے جو گذشتہ پندرہ سال سے پانی نکال کر اسے فلسطینیوں اور یہودیوں کو فروخت کرتی ہے۔
فلسطینی واٹر اتھارٹی کے ایک عہدیدار عصام عرمان کا کہنا ہے کہ غرب اردن میں پانی کا بحران دراصل سیاسی بحران کا نتیجہ ہے۔ اسرائیل ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت فلسطینیوں کو پانی کی سہولیات فراہم کرنے کے بجائے ان کے لیے پانی کی قلت پیدا کر کے انہیں بحران سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔
عرمان کا کہنا ہے کہ عالمی قانون کے تحت اسرائیل فلسطینی علاقوں میں پانی کے کنوؤں کی کھدائی کا حق نہیں رکھتا مگر صہیونی ریاست کی جانب سے نہ صرف عالمی قوانین کی کھلے عام خلاف ورزیاں جاری ہیں بلکہ فلسطینیوں کو بلیک میل کیا جا رہا ہے۔
اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’’بتسلیم‘‘ کے مطابق فلسطینی شہری یومیہ 73 لیٹر پانی استعمال کرتے ہیں۔ اس میں ان کی کھیتی باڑی کا پانی بھی شامل ہے۔ جب کہ یہودی فی کس 242 لیٹر غرب اردن میں یہودی آباد کار 800 لیٹر پانی یومیہ استعمال کرتے ہیں۔ گویا سنہ 2011ء کے اعدادو شمار کے مطابق صہیونی 12 گنا زیادہ پانی استعمال کرتے ہیں۔