غزہ – مرکز اطلاعات فلسطین
اسلامی جہادِ فلسطین کے نائب سیکریٹری جنرل محمد الہندی نے واضح کیا ہے کہ جب تک قابض اسرائیل کی طرف سے جاری نسل کش جنگ مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی، فلسطینی مزاحمت اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہیں کرے گی۔
محمد الہندی نے اپنے بیان میں کہا کہ فلسطینی مزاحمت "سب کے بدلے سب” کے اصولی مؤقف کو ترجیح دیتی ہے تاہم وہ ایک مرحلہ وار اور جامع معاہدے کے تحت بات چیت کے لیے بھی آمادہ ہے، بشرطیکہ اس میں واضح اور مکمل شرائط طے کی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل ان مذاکرات کو محض اپنے قیدیوں کی بازیابی کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے، جبکہ وہ جنگ کے خاتمے کی کسی سنجیدہ کوشش کا مظاہرہ نہیں کر رہا۔
الہندی نے انکشاف کیا کہ قابض اسرائیل نے مصری اور قطری ثالثوں کو دانستہ طور پر ایسے ناقابلِ قبول اور ناقابلِ عمل مطالبات کی فہرست دی ہے، جن کا مقصد صرف مذاکرات کو سبوتاژ کرنا ہے، تاکہ جنگ جاری رہے۔
انہوں نے سخت الفاظ میں کہا کہ مزاحمت کو غیر مسلح کرنا دراصل فلسطینیوں کو غزہ سے جبری طور پر بےدخل کرنے کی سازش ہے، جو نہ صرف ناقابلِ قبول ہے بلکہ مزاحمت اور فلسطینی عوام کی جانب سے مکمل طور پر مسترد کر دی گئی ہے۔
محمد الہندی نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کی طرف سے دیے گئے اس بیان کو کہ "حماس کا خاتمہ اور مزاحمت کی سرنڈر” ایک خیالی خواب قرار دیا، اور کہا کہ نیتن یاھو کی عارضی فتوحات دراصل ایک بڑے طوفان کی تمہید ہیں، جس کے نتائج آگے جا کر ظاہر ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں جاری اسرائیلی جرائم، چاہے وہ نیتن یاھو کے منصوبے کو وقتی طور پر تقویت دیتے ہوں، مگر یہ درحقیقت ایک ایسی آگ کو بھڑکانے کا باعث ہیں، جس کا قابض اسرائیل خود شکار ہو گا۔
اس سے قبل اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے بھی اعلان کیا تھا کہ فلسطینی مزاحمت کسی جزوی سمجھوتے کو قبول نہیں کرے گی۔ حماس نے مکمل جنگ بندی، اسرائیلی انخلا، اور بعد از جنگ نقشہ راہ پر مبنی معاہدے کی ضرورت پر زور دیا تھا، تاکہ فلسطینی عوام کو ایک پائیدار اور محفوظ مستقبل فراہم کیا جا سکے۔
قابض اسرائیل گزشتہ 581 دنوں سے غزہ میں نسل کشی، زمینوں پر قبضے اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا پامالی پر مبنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے، جبکہ معابر کی بندش اور بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دی جا رہی ہے۔