مرکز اطلاعات فلسطین
انسانی حقوق کی تنظیم ’یورومیڈیٹیرین ہیومن رائٹس‘کے سربراہ، رامی عبدہ نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ اور قابض اسرائیل کی مشترکہ امدادی منصوبہ بندی دراصل ایک نئی سازش ہے، جو فلسطینیوں کی زمین سے جبری بے دخلی کے لیے دباؤ اور جبر کا ہتھیار بن رہی ہے۔
رامی عبدہ نے جمعرات کو ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری بیان میں کہا کہ غزہ میں محدود مقدار میں امداد کی تقسیم کو بین الاقوامی کمپنیوں کے سپرد کرنے کا منصوبہ کوئی انسانی ہمدردی کی مہم نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا جال ہے، جس کے ذریعے محاصرے کو ایک "قانونی” شکل دی جا رہی ہے، بھوک کو منظم کیا جا رہا ہے، اور خوراک کو فلسطینی عوام کے خلاف نفسیاتی اور جسمانی دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے‘۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ اس منصوبے کی نگرانی سابق امریکی فوجی اور سخت نگرانی میں کام کرنے والی امدادی تنظیمیں کر رہی ہیں، جبکہ امداد کی تقسیم مخصوص مراکز سے طے شدہ وقتوں پر کی جاتی ہے اور فلسطینیوں کو اس عمل سے مکمل طور پر الگ رکھا گیا ہے۔
عبدہ نے اس منصوبے کو انسانی ہمدردی کے بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان قوانین کے مطابق امداد بلا کسی رکاوٹ، فوری اور مؤثر طور پر متاثرہ علاقوں تک پہنچنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کا اصل مقصد امداد نہیں بلکہ قابض اسرائیل کو مزید وقت دینا، اس کی زمینی گرفت کو مضبوط کرنا اور فلسطینیوں کو مسلسل تھکانے اور بھوکا رکھنے کے ذریعے ان کا عزم توڑ کر انہیں ہجرت پر مجبور کرنا ہے۔
رامی عبدہ نے واضح الفاظ میں کہا کہ یہ کوئی امدادی منصوبہ نہیں بلکہ ایک نیا اور خطرناک ہتھکنڈہ ہے جو اجتماعی سزا، نسل کشی اور جبری بے دخلی کو "انسانی ہمدردی” کے پردے میں چھپا کر نافذ کر رہا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوری اور بلا تاخیر فلسطینیوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنی سرزمین پر وقار کے ساتھ زندگی گذار سکیں اور اپنے مستقبل کی تعمیر کر سکیں۔ انہوں نے فلسطینیوں کی صدیوں پرانی جدوجہد اور انسانیت کے لیے ان کی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
رامی عبدہ نے اپنے بیان میں کہا کہ "فلسطینی عوام کسی کی خیرات یا صدقے کے محتاج نہیں۔ وہ ذلت آمیز امداد نہیں چاہتے، بلکہ اپنی زندگی، آزادی، عزت اور زمین پر مکمل حق کا مطالبہ کرتے ہیں”۔
یاد رہے کہ قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ کے تمام زمینی راستے بند کیے جانے کے بعد اب 68 دنوں سے بھوک اور قحط نے غزہ کے باسیوں کو بدترین حالات میں دھکیل دیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس متنازعہ امدادی منصوبے کے تحت Gaza Humanitarian Foundation کو غزہ میں چار "تقسیمی مراکز” قائم کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے، جن کی حفاظت وہی سکیورٹی کمپنیاں کریں گی جو ماضی میں "نتساریم کوریڈور” کی نگرانی کر چکی ہیں، جو جنگ بندی کے دوران اسرائیلی فوجی سرگرمیوں کا محور رہا۔