غزہ – مرکز اطلاعات فلسطین
غزہ میں جاری جنگ اور محاصرے کو 579 دن گزر چکے ہیں اور اب قحط کی شدت انسانی المیے کی تمام حدیں پار کر چکی ہے۔ قابض اسرائیل کی جانب سے جاری اجتماعی بھوک کی پالیسی نے لاکھوں فلسطینیوں کو روزانہ کی زندگی کو بقا کی جنگ میں بدل دیا ہے۔ ہزاروں خاندان گندم کے آٹے کے ختم ہو جانے پر دالوں اور اناج کو پیس کر اس کا متبادل بنانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
"دالوں کا آٹا” – بھوک کے خلاف آخری دفاع
راستے بند ہونے اور گندم کا آٹا نایاب ہو جانے کے بعد شہریوں نے مجبوری میں دالوں کو پیس کر روٹی بنانے کا طریقہ اپنایا۔
شہری سہیل عابدین بتاتے ہیں کہ "اگر کہیں آٹا مل بھی جائے تو اس کا ایک کلو 60 شیکل سے زائد میں فروخت ہو رہا ہے، جو بمشکل دس روٹیوں کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ہم نے متبادل کے طور پر دال، لوبیا اور کبھی کبھار چنے پیس کر روٹی بنائی، لیکن اب یہ دالیں بھی نایاب اور بہت مہنگی ہو گئی ہیں”۔
سات بچوں کے والد عابدین کہتے ہیں کہ "میرے پاس آٹا خریدنے کے پیسے ہیں نہ دالیں لینے کے۔ ہماری آخری امید یہ ہے کہ راستے کھول دیے جائیں اور خوراک کی فراہمی ممکن ہو، ورنہ ہم مر جائیں گے”۔
"چاول اور دال پیس کر گذارا کیا”
شہری ابراہیم حسان اپنی کربناک کہانی سناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ "ہم چاول اور دال پیس کر آٹے جیسا پاؤڈر بناتے ہیں، لیکن بھوک نے جسم و جان کو نڈھال کر دیا ہے۔ یہ روٹی ایک دن بھی ٹھیک نہیں رہتی، فوراً سخت ہو جاتی ہے، چبانا مشکل ہو جاتا ہے، اوپر سے پیٹ میں درد اور آنتوں کی تکلیف الگ”۔
"دالوں سے روٹی بنانا”
شہری حازم عامر کہتے ہیں کہ "اب تو دالیں پیسنا معمول بن گیا ہے۔ ہم پہلے دال کو کئی گھنٹے بھگو کر رکھتے ہیں، پھر پیس کر روٹی بنانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جب تک تھوڑا سا گندم کا آٹا نہ ملے یہ روٹی نہ جڑتی ہے نہ نرم بنتی ہے”۔
قہوہ کی چکی چلانے والے حسن ابو صبحی کا کہنا ہے کہ "اب لوگ قہوہ کے بجائے دالیں پیسوانے آتے ہیں۔ میں تین شیکل فی کلو کے حساب سے دال پیستا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ جتنا ہو سکے لوگوں کی مدد کروں۔ کچھ لوگ اخراجات بچانے کے لیے خود ہاتھ سے دال پیستے ہیں، حالانکہ اب دال کا کلو بھی 25 شیکل سے اوپر جا چکا ہے۔”
بچوں کی حالت انتہائی نازک
غزہ کا انسانی بحران بدترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی "اونروا” نے خبردار کیا ہے کہ 66 ہزار سے زائد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، کیونکہ قابض اسرائیل نے 2 مارچ سے تمام راستے بند کر کے خوراک اور ادویات کی آمد روک رکھی ہے۔
اونروا کے ترجمان عدنان ابو حسنہ کے مطابق لاکھوں لوگ اب دو سے تین دن میں محض ایک بار کھانے پر مجبور ہیں۔ بحران ہر دن کے ساتھ مزید سنگین ہو رہا ہے۔
طبی ذرائع نے بچوں کی صحت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہزاروں بچوں میں کمزوری، بے ہوشی اور غذائی قلت کے شدید اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ 70 ہزار سے زائد بچے اس وقت ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جبکہ 3,500 سے زائد بچے موت کے دہانے پر ہیں۔
خوراک کا ذخیرہ ختم
عالمی ادارہ خوراک (WFP) کی ترجمان لبنی کنزلی نے کہا ہے کہ خوراک کا ذخیرہ مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ پہلے ادارہ 7 لاکھ افراد کو خوراک فراہم کرتا تھا، لیکن اب قابض اسرائیل نے مکمل ناکہ بندی کے باعث راستے بند کر دیے ہیں اور سینکڑوں ٹرک بارڈر پر کھڑے ہونے کے باوجود داخلے کی اجازت نہیں پا رہے۔
"ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز” نے غزہ کی صورتحال کو مکمل تباہی قرار دیا ہے۔ ادارے کی ایمرجنسی انچارج کلیر نیکولیہ نے کہا کہ”اسرائیلی محاصرہ ایک منظم جرم ہے۔ دنیا اس ظلم کو دیکھ رہی ہے، لیکن کوئی حرکت میں نہیں آ رہا۔ غزہ کو اجتماعی قبرستان میں تبدیل کیا جا رہا ہے”۔
غربت، بھوک اور پیاس کا مثلث
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے ادارے (اوچا) نے بتایا کہ بچوں میں غذائی قلت کا علاج لینے والوں کی شرح میں 80 فیصد اضافہ ہوا ہے، 92 فیصد نوزائیدہ بچوں کو بنیادی خوراک نہیں مل رہی اور 65 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔
فلسطینی محکمہ شماریات کے مطابق بیروزگاری کی شرح 68 فیصد ہو چکی ہے اور عالمی بینک کے مطابق غزہ کی پوری آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آٹا، ایندھن، اور دیگر ضروری اشیاء کی مکمل بندش نے قحط کا شدید خطرہ پیدا کر دیا ہے۔
ایک خاموش نسل کشی
فلسطینی عوام آج ایک تیزی سے بڑھتی ہوئی تباہی سے گذر رہے ہیں۔ دنیا کی خاموشی، عالمی برادری کی بے حسی اور انسانیت کی بے بسی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھوک کو ایک مہلک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جو فلسطینیوں کی نسل کشی کی ایک خاموش مگر انتہائی ہولناک شکل بن چکا ہے۔