سه شنبه 06/می/2025

غزہ میں بھوک اور فاقے زندگی نگل رہے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں!

منگل 6-مئی-2025

غزہ – مرکز اطلاعات فلسطین

غزہ کے یہ مناظر وہ ہیں جنہیں نہ آنکھ دیکھنے کی تاب لا سکتی ہے نہ دل۔ خان یونس کے علاقے "مواصی” میں بے گھر افراد کی خیمہ بستیوں میں گھومتی ام محمد النمس کی حالت چیخ چیخ کر عالمی بے حسی پر ماتم کر رہی ہے۔ وہ صرف ایک "کسَرۂ نان” کی تلاش میں ہے تاکہ اپنے ان بچوں کا پیٹ بھر سکے جو پچھلے دو ہفتوں سے روٹی کا ذائقہ تک نہیں چکھ سکے۔ ہر صبح وہ امید لے کر نکلتی ہے، لیکن شام تک ہاتھوں میں صرف مایوسی اور دل میں خالی پن لے کر لوٹتی ہے۔

پانچ بچوں کی ماں ام محمد جن میں سب سے بڑا ابھی دس برس کا بھی نہیں بتاتی ہیں کہ "اللہ کی قسم بعض دن تو ایسے گذرتے ہیں جب خود کچھ نہیں کھاتی، تاکہ بچوں اور زخمی شوہر کو کچھ کھلا سکوں۔ شوہر کمر میں چوٹ سے معذور ہے، نہ دوا ہے نہ غذا اور ہم سب صرف صبر کے سہارے جی رہے ہیں”۔

ام محمد کا یہ ذاتی کرب دراصل غزہ کے ان ہزاروں خاندانوں کی اجتماعی کہانی ہے جو دو مہینے سے قابض اسرائیل کے ظلم کا شکار ہیں۔ قابض فوج کی طرف سے غزہ کے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں، انسانی امداد کا گذر روک دیا گیا ہے اور دنیا کی اپیلیں، قراردادیں اور التجائیں سب صہیونی ہٹ دھرمی کے سامنے بے اثر ہو گئی ہیں۔

دل دہلا دینے والے اعداد و شمار

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک کم از کم 57 بچے بھوک اور غذائی قلت کے باعث جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ان میں سب سے حالیہ نام معصوم بچی جنان السکافی کا ہے جو صرف اس لیے دنیا سے رخصت ہو گئی کہ اس کے والدین تھوڑا سا دودھ یا نرم غذا تک مہیا نہ کر سکے۔

طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے 3,500 سے زائد بچے شدید خطرے میں ہیں، جبکہ تقریباً دو لاکھ 90 ہزار بچے بھوک سے موت کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 70 ہزار سے زائد بچے حالیہ مہینوں میں شدید غذائی قلت کے باعث ہسپتال لائے گئے ہیں، اور اگر امدادی سامان کی ترسیل نہ کھولی گئی تو آنے والے وقت میں یہ بحران ہمارے درمیان ہی ایک مستقل المیہ بن جائے گا۔

فاقو سے جینا سیکھو یا خاموشی سے جان دے دو

خاں یونس کے ایک مقامی بازار میں 57 سالہ ابو ایمن روزانہ ایک ہی تگ و دو میں ہوتا ہے، آٹے کا متبادل کیسے ڈھونڈا جائے؟ آٹا اب 60 شیکل (تقریباً 17 ڈالر) فی کلو تک پہنچ چکا ہے۔ چاول 40 شیکل اور دال 30 شیکل فی کلو۔ اس نے تھکن زدہ آواز میں بتایاکہ "اب تو دال اور لوبیا ہی رہ گئے ہیں۔ انہی کو پیس کر روٹی بناتا ہوں تاکہ بچوں کا پیٹ بھر سکوں۔ کئی ہفتوں سے انہیں قائل کر چکا ہوں کہ دن میں صرف ایک بار کھانا ممکن ہے۔ یا تو فاقے سے جینا سیکھ لویا خاموشی سے مر جاؤ۔”

بازار اور دکانیں بنیادی اشیائے خور و نوش سے خالی ہیں۔ بس کچھ پرانی پیک بند اشیاء باقی بچی ہیں جن میں لوبیا اور مٹر شامل ہیں۔ امدادی باورچی خانوں پر رش اس قدر ہے کہ نہ فاصلے قابو میں ہیں نہ قطاریں اور جو کھانا بٹتا ہے وہ ناکافی ہوتا ہے۔

ام محمد کہتی ہیںکہ "ہر صبح بچوں کے ساتھ کام بانٹ لیتی ہوں، کوئی پانی لینے جاتا ہے، کوئی لنگر خانے میں قطار میں لگتا ہے۔ اکثر دنوں میں خالی ہاتھ لوٹتے ہیں۔ آنکھوں میں شرمندگی اور دل میں دکھ لیے”۔

دنیا کے لیے آخری پکار

ایسے حالات میں اہل غزہ بین الاقوامی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور ریڈ کراس کو آخری پکار دے رہے ہیں کہ”ہمیں بچا لو، اس سے پہلے کہ ہم بھوک سے مر جائیں۔ راستے کھولو، محاصرہ ختم کرو، موت اب یہ انتخاب خود کر رہی ہے کہ کون میزائل سے مرے اور کون بھوک سے دم توڑے”۔

یہ غزہ میں صرف ایک غذائی بحران نہیں بلکہ ایک کھلی ہوئی انسانی نسل کشی ہے جو ہر دن، ہر لمحہ، دنیا کے سامنے ہو رہی ہے۔ اگر عالمی برادری نے اب بھی خاموشی اختیار کیے رکھی تو مزید بچوں کے نام جنان کی طرح صرف شہادت کے رجسٹر میں درج نہیں ہوں گے بلکہ وہ انسانیت کی بے حسی پر ایک تلخ نوحہ بن جائیں گے۔

مختصر لنک:

کاپی