غزہ – مرکزاطلاعات فلسطین
آکسفیم اور غزہ این جی او نیٹ ورک نے زور دے کر کہا ہے کہ 2 مارچ 2023 کے بعد سے غزہ کی پٹی میں انسانی صورتحال کافی زیادہ پیچیدہ ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خوراک اور انسانی امداد پر مشتمل گودام مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں۔
بدھ کو الجزیرہ کو دیے گئے بیانات میں، آکسفیم کے پالیسی ڈائریکٹر نے کہا کہ جاری بمباری اور شہریوں کی جبری نقل مکانی نے بحران کو مزید بڑھا دیا ہے، جس کے نتیجے میں پٹی میں ایک انسانی تباہی آئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان میں سے کئی کی موت ہو چکی ہے۔
آکسفیم نے غزہ میں فوری اور مستقل جنگ بندی کے ساتھ ساتھ غیر محدود انسانی راہداریوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا تاکہ تمام متاثرہ افراد تک انسانی امداد پہنچ سکے۔
اس تناظر میں غزہ کی پٹی میں ’این جی او‘ نیٹ ورک کے سربراہ امجد شوا نے خبردار کیا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی گذرگاہوں کی مسلسل بندش کے پیش نظر یہ پٹی قحط کے جدید مرحلے میں داخل ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے خوراک اور انسانی امداد کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔
بدھ کو ایک ٹیلیویژن بیان میں شوا نے زور دیا کہ زیادہ تر کمیونٹی کچن (تکایا)، جن پر غزہ کی پٹی کی تقریباً 40 فیصد آبادی ایک دن میں ایک وقت کے کھانے پر انحصار کرتی ہے، سپلائی کی کمی کی وجہ سے چند دنوں میں کام بند کر دے گی۔ یہ ایک بے مثال انسانی تباہی کی نشاندہی کرتا ہے۔
قبل ازیں شوا نے زور دیا تھا کہ غزہ میں زندگی اور صحت کے حالات سنگین طور پر ابتر ہیں۔ 20 لاکھ سے زائد فلسطینی خوراک اور پانی کی عدم تحفظ کا شکار ہیں، جب کہ ہسپتال ادویات اور طبی سامان کی قلت کے باعث زخمیوں اور بیمار مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے نمٹنے کے قابل نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کراسنگ کی بندش سے بیشتر انسانی تنظیموں اور رفاعی اداروں کی خدمات بند ہو گئی ہیں، جس سے ہزاروں خاندان اپنی روزمرہ کی ضروریات سے محروم ہو گئے ہیں اور غزہ کی پٹی میں قحط کا خوف واپس آ گیا ہے۔
این جی او نیٹ ورک نے اقوام متحدہ اور فلسطینی اتھارٹی سے غزہ کی پٹی کو قحط کا علاقہ قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ اس نے ناکہ بندی کو ختم کرنے اور فوری طور پر انسانی امداد کی فراہمی کی اجازت دینے کے لیے فوری بین الاقوامی مداخلت کا مطالبہ کیا۔